• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ٹھیک دس برس پہلے کا قصہ ہے۔ محترمہ نیلوفر بختیار سیاحت کی وفاقی وزیر تھیں۔ یہ ابھی تک معلوم نہیں ہو سکا کہ کابینہ شوکت عزیز کی تھی یا پرویز مشرف کی۔ ملک کے چیف جسٹس کو غیر آئینی طور پر برطرف کیا جا چکا تھا۔ وکیل، صحافی اور سیاسی کارکن سڑکوں پر نکل آئے تھے۔ ایک طرف دہشت گردی کا عفریت پھنکار رہا تھا۔ دوسری طرف فوجی آمر اگلے پانچ برس کے لئے ملک کا صدر منتخب ہونا چاہتا تھا۔ ہدایت نامہ برائے سفید پوش صحافی (اور دیگر معززین علاقہ) یہ تھا کہ پاکستان کا سافٹ امیج ابھارا جائے۔ سرکاری افسر اخبار کے لئے اشتہار لکھتے وقت یہی پیغام دیتا تھا۔ وزیر اور مشیر صبح و شام سافٹ امیج کا جاپ کرتے تھے۔ نیلوفتر بختیار ایسی ہی ایک مہم پر فرانس گئیں۔ یورپ کے باسیوں کو پیراشوٹ جمپ کر کے دکھایا۔ بلندیوں سے نیچے اترتے ہوئے پائوں زمین پر ٹھیک سے ٹک گئے تو ہماری وفاقی وزیر نے فرط جذبات میں اپنے تربیت دہندہ کو گلے لگا لیا۔ مقصد سادہ تھا۔ دنیا کو بتانا چاہئے کہ پاکستان میں انسان بستے ہیں۔ وہ زندگی کی مہربانیوں پر کھل کے ہنستے ہیں اور کبھی کوئی دکھ آجائے تو آنسو بھی بہا لیتے ہیں۔ اکبر الہ آبادی نے کیا اچھا کہا تھا۔ شہر میں مضموں نہ پھیلا اور جوتا چل گیا… علمائے کرام نے آسمان سر پر اٹھا لیا۔ نیلوفر بختیار نے نامحرم مرد کو گلے لگا کر ملک کی عزت مٹی میں ملا دی۔ مئی2007 ء میں اس تنازع پر محترمہ نیلوفر بختیار نے وزارت سے استعفیٰ دے دیا۔ انہوں نے گلہ کیا کہ وفاقی وزیروں نے ان کا ساتھ دینے کی بجائے کردار کشی کرنے والوں کے آگے گھٹنے ٹیک دئیے۔ اصل بات محترمہ نیلوفر نے بتائی اور نہ کسی اور کو بیان کرنے کا یارا تھا۔ ملک پر آمریت مسلط ہو تو قوم کی عزت تو دو کوڑی کی ہو چکی۔ ایک معانقہ کرنے سے یہ عزت بحال نہیں ہوتی۔ جن وفا شعاروں نے آمریت کی اطاعت کا حلف اٹھایا تھا، وہ اپنی خاتون رفیق کار کے لئے کھڑے ہونے کی ہمت کہاں سے لاتے۔ اور دنیا کیا ایسی ہی سادہ تھی کہ ہمارے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی پریس ریلیز پڑھ کر فیصلہ کر دے کہ پاکستان رواداری کا نخلستان ہے اور یہ کہ اس ملک میں انسان دوستی کی روایت مضبوط ہے۔ قوم کا تاثر سرکاری اعلانات کا محتاج نہیں ہوتا۔ اس کے لئے ایک شفاف سیاسی بندوبست، آئین کی بالادستی اور جواب دہ حکومت کی ضرورت ہوتی ہے۔ آج ہمارے ملک میں جمہوری عمل نے نو برس مکمل کر لئے ہیں۔ آج کی دنیا پر ایک نظر ڈالیں اور پھر سوچیں کہ مائع طرب انگیز کی سرخوشی میں جھومتے پرویز مشرف نے پاکستان کی عزت بڑھائی یا لفظوں کو احتیاط سے تول کر بات کہنے والے وزرائے اعظم یوسف رضا گیلانی اور میاں نواز شریف نے پاکستان کو قوموں کی برادری میں سر بلند کیا۔
امریکہ سے خبر آئی ہے کہ گزشتہ نومبر میں ڈونلڈ ٹرمپ کو ووٹ دینے والے شہریوں کی ایک بڑی تعداد کو اپنے انتخابی فیصلے پر افسوس ہو رہا ہے۔ ایک امریکی شہری نے اخبارات کو بتایا ہے کہ جب سے ڈونلڈ ٹرمپ وائٹ ہائوس میں پہنچے ہیں، میں نے ایک بھی رات چین سے نیند مکمل نہیں کی۔ 8نومبر2016ء کی شام امریکہ کے شہریوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کے حق میں فیصلہ دیا تھا۔ اب وہ اس فیصلے کے نتائج دیکھ رہے ہیں۔ دنیا کا طاقتور ترین ملک تنازعات کی زد میں ہے۔ امریکی قوم ایوان صدر سے جاری ہونے والی سنسنی خیز ٹویٹ اور احکامات پر بے یقینی کا شکار ہے۔ ہمسایہ ملک بھارت میں یوگی آدتیہ ناتھ کو بیس کروڑ کی آبادی اتر پردیش کا وزیراعلیٰ نامزد کیا گیا ہے۔ آدتیہ ناتھ فرقہ وارانہ تعصب کی شہرت رکھتے ہیں۔ کبھی عید قربان پر استہزا کرتے ہیں، کبھی ایک ہندو بچی کے مذہب تبدیل کرنے پر سو مسلمان لڑکیوں کا مذہب بدلنے کی دھمکی دیتے ہیں۔ کبھی پاکستان کے خلاف نفرت اگلتے ہیں تو کبھی بھارت کو ہندو راشٹریہ بنانے کا اعلان کرتے ہیں۔ اتر پردیش اسمبلی کے حالیہ انتخابات میں ایک بھی مسلمان منتخب نہیں ہو سکا۔ پنڈت نہرو کا سیکولر ہندوستان خطرے میں ہے۔ ہمارے مغربی ہمسائے ترکی میں 16اپریل کو ریفرنڈم ہونے جا رہا ہے جس میں نئے آئین کا فیصلہ ہو گا۔ اس ریفرنڈم کا نتیجہ کچھ بھی ہو، ترکی میں قوم تیزی سے دو دھڑوں میں تقسیم ہو رہی ہے۔ تو عزیزان من، امریکہ، بھارت، ترکی، مشرق وسطیٰ میں حالات دگرگوں ہیں اور پاکستان کا منتخب وزیراعظم ملک کو اقلیت دوست بنانے کی بات کرتا ہے۔ سبحان اللہ… دنیا ان تجربات کی طرف جا رہی ہے، ہم جن گھاٹیوں سے گزر آئے ہیں۔ دشت معلوم کی ہم آخری حد چھو آئے … ہم نے مسلسل آزمائش کی کٹھالی سے اجتماعی فراست کا کندن دریافت کیا ہے۔ کیا کوئی محترم پرویز مشرف کو اطلاع دے گا کہ اے ہمارے خودساختہ رہنما، قوم کا امیج وقت بے وقت گرجنے برسنے سے خوشگوار نہیں ہوتا۔ اس کے لئے جمہوریت کے آئینے میں قوم کا عکس دیکھنا پڑتا ہے۔ معیشت کی سوچ پیدا کرنا ہوتی ہے، تجارت کے بارے میں فکر کرنا ہوتی ہے۔ دہشت گردی کو ترپ کے پتے کی طرح استعمال کرنے کی بجائے خم ٹھونک کر دھونس کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔ عقیدے، ثقافت اور زبان کی رنگا رنگی کو اکثریت کے جبر میں بدلنے کی بجائے قوم کی طاقت میں ڈھالا جاتا ہے۔ اس کے لئے سیاست کے قوام میں تدبر کا خمیر ڈالا جاتا ہے۔ اس سے اچھی خبر کیا ہو سکتی ہے کہ جہاں دنیا میں تفرقے اور امتیاز کی ہوا چل رہی ہے، وہاں پاکستان میں رواداری کے نخلستان پر برگ و بار آرہا ہے۔ ہم اہل فرانس سے انسان دوستی کی داد چاہتے تھے، فرانس میں ایک قوم پرست حکومت کے آثار ظاہر ہو رہے ہیں۔ محترم بھائی حامد میر کیا اچھا کہتے ہیں کہ ہمیں اقبال کی شاعری سے پاکستان کا تصور اخذ کرنا ہو گا۔ اقبال نے یہی تو کہا تھا۔ ’نگہ بلند، سخن دل نواز، جاں پرسوز‘۔ دنیا کی رہنمائی کرنے کے لئے دل میں اہل دنیا کے لئے جگہ پیدا کرنا پڑتی ہے۔ ہماری سیاسی قیادت میں تو ایسی بصیرت پیدا ہو چلی ہے کہ ہمارے رہنما نجی مجلسوں میں اقلیت کی اصطلاح پر بھی سوال اٹھاتے ہیں۔ واقعی پوچھنا تو چاہئے کہ پنجاب میں رہنے والا مسیحی شہری جوزف پال عقیدے کے اعتبار سے اقلیت گنا جائے یا زبان کے اعتبار سے اکثریت میں شمار ہو گا۔ بلوچستان میں رہنے والی سکھ خاتون اور کراچی میں رہنے والا اللہ ورائیو پندھرانی اور میرپور خاص کے نقوی صاحب اقلیت میں ہوں گے یا اکثریت میں۔ اقلیت اور اکثریت کی یہ بحث برطانوی ہند میں معنی رکھتی تھی۔ پاکستان قائم ہو گیا۔ ہم سب پاکستان کے مساوی شہری ہیں۔ ہمارا ملک ایک وفاق ہے۔ ہمارے صوبے اس وفاق کی اکائیاں ہیں۔ دو ایوانی مقننہ میں آبادی اور صوبائی شناخت کو توازن دیا گیا ہے۔ یہی ہمارے ملک کا آئینی بندوبست ہے۔ ہمیں ایک دوسرے کی زبان، عقیدے، رہن سہن اور حقوق کا احترام کرنا چاہئے۔ اس راستے پر چلتے ہیں تو پاکستان دہشت گردی کی علامت نہیں ہو گا بلکہ امن، رواداری اور محبت کا نشان بن کر ابھرے گا۔ پاکستان کا یہ خوشگوار تاثر بنانے کے لئے ہمیں ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی پریس ریلیز درکار ہو گی اور نہ محترمہ نیلوفر بختیار کو وزارت سے مستعفی ہونا پڑے گا۔

.
تازہ ترین