• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مولانا طارق جمیل بھائیوں جیسے دوست اور دوستوں جیسے بھائی ہیں ۔میری ان سے محبت کی وجہ تو دنیا جانتی ہے اور سمجھتی بھی ہے کہ اک عالم انہیں چاہتا ہے لیکن وہ مجھ سے اتنی ’’شفقت‘‘ محبت کیوں کرتے ہیں ؟میں نہ کبھی جان پایا نہ سمجھ سکا اور شاید ضرورت بھی نہیں کیونکہ آدمی کو آموں سے غرض ہونی چاہئے ،درختوں کی گنتی میں کیا رکھا ہے۔چند روز پہلے فون آیا مائوں کی طرح دعائوں سے نوازتے ہوئے کیسے کیسے جملے نچاور کر رہے تھے ۔میں نے پوچھا ’’طارق بھائی خیر ہے ‘‘ تو بولے ’’آپ کے کسی پرانے پروگرام کا ویڈیو کلپ کسی نے بھیجا ہے جس میں آپ نے آقا محمدﷺکے حوالہ سے ایک آفاقی اور عجیب ڈائمینشن اس طرح بیان کی ہے کہ اب تک اس میں کھویا ہوا ہوں ۔واقعی کسی بھی مسلمان کیلئے زیب نہیں کہ وہ قائد اور قیادت کے نہ ہونے کا شکوہ کرے کیونکہ ہمارے حضورؐ کی صورت و سیرت کی شکل میں اک ایسی زندہ قیادت ہر مسلمان کے پاس موجود ہے جو زندگی کے ہر معاملہ، مسئلے اور موڑ پر واضح رہنمائی عطا فرماتی ہے ۔آپ نے سو فیصد درست کہا کہ دنیا کی ہر عظیم ہستی سنگل ڈائمینشنل ہے۔ صرف اور صرف آقاﷺ کی ذات پاک ہی ایسی ہے جو ہر انسانی پہلو کا احاطہ کرتی ہے۔ سبحان اللہ بیٹا ہو تو کیسا ؟ اولاد ہو تو کیا ذمہ داریاں، پڑوسی ہو تو کس طرح بی ہیو کرے، ہجرت کرنی ہو تو بھی امانتوں کی واپسی، مسافر ہو تو کیسا؟ گھر میں داخل ہونے کے آداب، ساتھیوں کے ساتھ رویے، کھانا کیسے کھانا ہے، طائف کے پتھروں کا سامنا کرتے ہوئے بھی دعا کیسے دینی ہے، شعب ابی طالب میں بھوک کیسے جھیلنی ہے، پانی کیسے پینا ہے، قیدیوں کے ساتھ برتائو کیسا ہو، والدین کی شفقت سے بچپن میں محرومی کے باوجود کیسے جینا ہے، بدترین حالات میں بھی بڑی سے بڑی پیشکش کو یہ کہتے ہوئے کیسے مسترد کرنا ہے کہ دائیں ہاتھ پر چاند بائیں پر سورج بھی رکھ دو تو میں اپنے رستے پہ راسخ رہوں گا، ایذا پہنچانے والی عورت کی عیادت کیسے کرنی ہے، لباس کیسا ہو؟ رستے کے حقوق اور چلنے کے آداب کیا ہیں؟ کمزوروں کے ساتھ سلوک کیسا اور طاقتورظالموں سے کیسے نمٹنا ہے، جھوٹ نہیں بولنا، کم نہیں تولنا، ملاوٹ نہیں کرنا، غیر مسلم بھی ہو تو میرٹ پر انصاف دینا ہے، تکبر نا پسند، عجز اختیار کرو، اسراف سے بچو، اعتدال میانہ روی اپنائو، شہری کیسا ہو، حکمرانی کیا ہے؟ حلال و حرام کی تمیز، اٹھنے بیٹھنے بولنے کا سلیقہ، مسلمان کا اپنے بھائی کو مسکرا کر دیکھنا بھی صدقہ ہے، ایک دوسرے کا دکھ درد کیسے بانٹنا ہے، سعی مسلسل اور جدوجہد کا مقام کیا ہے؟ وعدہ کیا ہوتا ہے؟ حصول علم کی کیا فضیلت ہے، تفکر تدبر سوچ بچار فراست تمہاری فراست ہے، مشاورت کا کیا مقام ہے، سائل کے ساتھ سلوک، میدان جنگ میں کیا کرنا ہے، چڑھائی و پسپائی کے اصول کیا ہیں، دشمن کی لاش کی بھی حرمت ہے، کم سن بیٹے رخصت ہو جائیں تو صبرو رضا کے تقاضے کیا ہیں؟ عورت کا احترام کیا اور کیسے ؟ قبرستان جانے کے آداب، مسلمان کیلئے نقص بتائے بغیر ناقص چیز بیچنا کیا ہے ؟ جس کو مسلمان کا غم نہ ہو وہ میری امت میں سے نہیں، شرک کے بعد بدترین گناہ ایذا رسانی خلق ہے، افضل ترین نیکی خلق خدا کو آرام دینا ہے، حق ہمسائیگی درجہ وار 40گھروں تک ہے ۔ قیامت کے دن غریب ہمسایہ امیر ہمسایہ کا دامن گیر ہو گا، جو اپنے لئے پسند نہیں کرتا کسی مسلمان کیلئے بھی پسند نہ کر، ہر قوم کے معزز آدمی کی تعظیم کرو، صفائی نصف ایمان اور سادگی ایمان کی علامت ہے۔ جو امراء کے دروازے پر آیا وہ فتنے میں پڑا اور جس قدر حکمرانوں کے نزدیک ہوا اتنا ہی اللہ سے دور ہوا، جس نے اپنی زبان اور شرمگانہ کو قابو میں رکھا، میں اس کے واسطے جنت کا ضامن ہوں، جس نے ظالم کی مدد کی غضب الٰہی اپنے سر لیا، مومن کے دل میں ایمان اور حسد اکٹھے نہیں رہ سکتے۔ دو بھوکے بھیڑیئے بھیڑوں میں چھوڑ دیئے جائیں تو اس قدر فساد برپا نہیں کرتے جس قدر دولت اور منصب کی ہوس، مظلوم کی دعا سے ڈرو کہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی پردہ نہیں ہوتا۔ علم بغیر عمل وبال ہے اور عمل غیر علم گمراہی ، لوگوں کو ان کی منزلوں پر اتارو یعنی حفظ مراتب کا خیال رکھو، تین لوگ بیٹھے ہوں تو دو آپس میں سرگوشی نہ کریں کیونکہ تیسرا آزردہ ہو جائے گا، گوشہ نشینی کو لازم پکڑو، عبادت ہے اور تم سے پہلے نیکو کاروں کا طریقہ، جاہل ایک بار عذاب دیا جائے گا اور عالم سات بار، عبادت کے دس جزو ہیں ان میں سے 9طلب حلال، آگ خشک لکڑی میں اتنی جلدی نہیں لگتی جتنی جلدغیبت انسان کے حسنات کو خشک کر دیتی ہے، سخی گنہگار بخیل عابد سے اچھا ہے۔ نہ نقصان اٹھانا چاہئے نہ پہنچانا چاہئے ۔سبحان اللہ ......اس چھت پر سونے سے منع فرمایا جس کے گرد پردے نہ ہوں۔فرمایا جب دو مسلمانوں نے تلواروں سے ایک دوسرے کا مقابلہ کیا تو قاتل و مقتول دونوں ہی دوزخی ہیں۔لوگوں نے پوچھا ’’قاتل تو ہوا مقتول کیوں ؟‘‘ فرمایا ’’ ارادہ تو اس نے بھی قتل کا ہی کیا تھا‘‘ (ہائے یہ عالم اسلام)سینکڑوں نہیں، ہزاروں لاکھوں صفحات پر محیط کالم لکھا جا سکتا ہے ۔ہم کون سے قائد اور کیسی قیادتیں ڈھونڈ رہے ہیں ؟ انسانی تاریخ میں ہے کوئی ایک بھی ایسا ’’لیڈر ‘‘ اور ’’ٹیچر‘‘ جس نے ان کی تعلیمات و ہدایات کا کروڑواں حصہ بھی بیان کیا ہو ؟تو مسلمان کا یہ کیا بہانہ اور بیانیہ ہے کہ وہ اس لئے رسوا و پسپا ہے کہ اچھی قیادت میسر نہیں ۔برا ہو میرا اگر میں نواز شریفوں ،زرداریوں اور دیگر مسلمان حکمرانوں سے قیادت مانگوںمرا پیمبر عظیم تر ہےجسے شہ شش جہات دیکھوںاسے غریبوں کے ساتھ دیکھوںان کی زندہ و پائندہ ازلی ابدی قیادت کے ہوتے ہمیں اور کیا چاہئے ؟وہ جو زندگی کے معمولی ترین پہلوئوں پر بھی ہماری رہنمائی کیلئے موجود ہیں........ہم ہی موجود نہیں، ہم بدنصیب ہی حاضر نہیں ۔مولانا طارق جمیل کی خواہش تھی جو ویڈیو کلپ میں کہا، اسے آگے بڑھائوں اور جاری رکھوں یہ اس خوبصورت خواہش نہیں حکم کی تعمیل کی طرف پہلا قدم ہے یہ کالم۔



.
تازہ ترین