• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
90کی دہائی کے آغا ز میں وزیراعظم نوازشریف نے اپنی مسلم لیگ بنانے کا خیال کیا تو اسٹیبلشمنٹ کے آقا اسے دیوانے کا خواب سمجھنے لگے۔حکومت سے بے دخل ہونے کے بعد نوازشریف نے راولپنڈی اور اسلام آباد کے سنگم پر ایک جلسہ کرنے کا فیصلہ کیا۔جس میں انہوں نے نئی سیاسی جماعت بنانے کا اعلان کرنا تھا۔اسٹیبلشمنٹ کے مسیحاؤں کو علم ہوا تو انہوں نے نوازشریف کو اس اقدام سے روکنے کی بھرپور کوشش کی مگر ناکامی کی صورت میں پلان بی پر عمل کرنے کاآغاز ہوا۔کیونکہ "ہمارے دوست"پلان اے سے زیادہ پلان بی پر پر فوکس رکھتے ہیں۔بہرحال اس وقت کے ایس ایس پی اسلام آباد پرویز راٹھور کو بلاکر ریاستی فیصلے سے آگاہ کیا گیا ۔منصوبہ یہ تھا کہ نوازشریف کے جلسے میں کچھ شرپسند عناصر داخل کردئیے جائیں گے اور پھر سب کچھ تمام کردیا جائے گا۔پولیس سروس آف پاکستان کے ایماندار افسر کو اس منصوبے کاعلم ہوا تو اس نے اسے ناکام بنانے کا فیصلہ کیا۔اسلام آباد کی بھاری نفری نوازشریف کے جلسے کے لئے لگادی گئی۔ایس ایس پی اسلام آباد نے وائرلیس پر حکم جاری کیا کہ "اگر کوئی بھی مشکوک شخص جلسے میں داخل ہوا تو ذمہ دار متعلقہ انسپکٹر ہوگا۔پولیس چیف کی شاندار حکمت عملی کے باعث نوازشریف کے جلسے میں شرپسندی کرناایک خواب ہی رہا ۔نوازشریف نے اپنی تقریر میں نئی سیاسی جماعت بنانے کے ساتھ ساتھ پس پردہ قوتو ں کو واضح پیغام بھی دے دیا۔یہی وہ ٹرننگ پوائنٹ تھا جس نے نوازشریف کو ایک سیاسی رہنما سے لیڈر بنایا ۔
پاکستان کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں۔ہمیشہ وہی شخص لیڈر بنتا ہے ،جو عوام میں یہ تاثر زائل کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے کہ اب وہ اسٹیبلشمنٹ کے لئے کام نہیں کررہا۔ذوالفقار علی بھٹو لیڈر تب بنے تھے جب انہوں نے" ایوب خان "کو خدا حافظ کہا تھا۔اسی طرح وزیراعظم نوازشریف عوامی لیڈر تب بنے تھے جب انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کے خلاف مسلم لیگ ن کی بنیاد ڈالنے کا فیصلہ کیا ۔کیونکہ پاکستان میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد اپنے اداروں اور متحارب قوتوں کو پسند کرتی ہے ۔مگر اس سے بھی بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جو اسٹیبلشمنٹ کے سیاسی کردار کی سخت مخالف ہے۔ میں چیلنج کرتا ہوں کہ اس ملک میں کوئی ایک بھی شخص ایسا نہیں ہے جو سویلین بالادستی کی بات کرتا ہو ، ریاستی اداروں کے سیاسی کردار کا مخالف ہو اور رسواہورہا ہو۔مگر یہ خاکسار ایسے سینکڑوں لوگ گنوا سکتا ہے جو سویلین بالادستی کے مخالف ہیں اور درپردہ قوتوں کے حامی ہیں مگر آج جو کچھ ان کے ساتھ ہورہا ہے۔اس پر کچھ نہ لکھنا ہی مناسب ہے۔اسی لئے جب نواز شریف نے مخصوص اثر سے آزاد ہوکر اپنی سیاسی جماعت بنانے کااعلان کیا تو لوگوں نے اسے بے پناہ پزیرائی دی۔مگر سیاسی پنڈتوں کی رائے تھی کہ نوازشریف کے زیر سایہ تعمیر ہونے والی یہ عمارت جلد زمین بوس ہوجائے گی۔مسلم لیگ ن کے جلد ختم ہونے کے دعوے کئے گئے۔لیکن مشرف کے بدترین مارشل لامیں اس سیاسی جماعت کی جانب سے اپنی بقا کی کامیاب جنگ میں بہت سوں کے لئے پیغام تھا۔ملکی تاریخ میں دیکھا گیا کہ مسلم لیگ ن کو چھوڑ کر جس نے بھی اپنی مسلم لیگ بنائی عوام نے اسے یکسر نظر انداز کیا۔بلکہ میری مختصر سی زندگی کا ایک لب لباب ہے کہ ملکی سیاسی تاریخ میں دو افراد کو رسوا ہوتے دیکھا ہے۔ایک وہ جسے نوازشریف نے چھوڑا ہے اور دوسرا وہ جس نے نوازشریف کو چھوڑا ہے۔بڑے بڑے سیاسی نام آج حلقے کی سیاست تو دور کی بات ہے یونین کونسل سطح پر پہنچ چکے ہیں۔چوہدری برادران کا گجرات تو کیا پورے پنجاب میں طوطی بولتا تھا۔آج گھر کی نشستیں ہارنے کے بعد گجرات بلدیاتی ادارے سے بھی باہر ہوگئے ہیں۔
میاں اظہر پنجاب کی سیاست میں بڑا نام تھامگر آج کہاں ہیں۔اسی طرح حامد ناصر چٹھہ،ذوالفقار کھوسہ،غوث علی شاہ۔کہاں سے شروع کروں کہا ںختم کروں۔اس میں نوازشریف کا کوئی کمال نہیں بلکہ یہ عزت اللہ نے انہیں دی ہے۔ اگر اللہ نے ان کو دو مرتبہ وزارت اعلیٰ اور تین مرتبہ وزارت عظمیٰ سے نوازا ہے تو کوئی نہ کوئی خوبی ضرور ہوگی اور جسے اللہ عزت دے اس کی بہرحال عزت کرنی چاہئے۔ذاتی طور پر تو نوازشریف کی ایک خوبی کا معترف ہوںاور وہ ہے سویلین بالادستی۔ملکی تاریخ میں جمہوریت اور سویلین بالادستی کا نوازشریف سے بڑا کوئی داعی نہیں ہے۔
گزشتہ کالم میں ایک فقرہ لکھا تھا کہ وزیراعظم نوازشریف مسلم لیگ ن کے قائد ہیں ۔نوازشریف کے بعد اگر کوئی Presentableچہرہ ہے تو وہ ان کے چھوٹے بھائی شہباز شریف ہیں۔گزشتہ روز آنے والے لمز کے سروے میں اس خاکسار کے تجزیے کی تصدیق عوامی رائے نے کی ہے۔آ ج بھی اس بات پر قائم ہوں کہ شہباز شریف کی محنت اور شفاف کارکردگی کی وجہ سے مسلم لیگ ن کو بہت فائدہ ہوا ہے ۔مگر اس طرح کے سب فائدوں کا کریڈ ٹ تب ہوتا ہے ۔جب قائد کھڑا ہوتا ہے جو نوازشریف ہیں۔
میرے عزیز ساتھی نے اپنے ٹاک شو میں اس خاکسار کے کالم پر بے لاگ تبصر ہ کیا۔ان کے تبصرے کی میں دل سے قدر کرتا ہوں۔لیکن اگر ماضی کے دریچوں میں جھانکیں تو شاید یاد آجائے کہ وہ اپنے جس ساتھی کے ساتھ ایک لمبے عرصے تک ’’غیرجانبدارانہ‘‘ تبصرے کرتے رہے۔وہ آج مسلم لیگ ن کا ٹکٹ لے کر وزیر بن چکے ہیں۔پارلیمانی رپورٹنگ اور جمہوریت کے حوالے سے ان کے نظریات کی بے حد قدر کرتا ہوں ۔اس دشت کی خاک چھانتے ہوئے انہیں چالیس سال سے زائد ہوچکے ہیں لیکن تنقید بھی اصولوں سے ہونی چاہئے۔یہاں تو لوگ وزیراعظم گیلانی کے پرنسپل سیکرٹری بن کر غیر قانونی فیصلوں کی بھرما ر لگاتے رہے۔ساکھ کا یہ عالم ہے کہ سپریم کورٹ نے کئی سنگین معاملات کو آڑے ہاتھوں لیا ۔حتی کہ حسین حقانی کے جس خط میں ویزوں کی اجازت دی گئی ہے۔اس میں بھی سابق خاتون پرنسپل سیکرٹری کے دستخط ہیں۔اس لئے جب آپ کسی پر انگلی اٹھاتے ہیں تو چار انگلیاں آپ کی اپنی جانب بھی ہوتی ہیں۔ہمیں احتیاط کرنی چاہئےکہ تنقید مثبت ہو اور تنقید کا اصل مقصد اصلاح ہو۔نوازشریف مسلم لیگ ن کے قائد ہیں اور اس تمام ووٹ بنک کے وارث ہیں۔ان کے خاندان کے کسی فرد کی مقبولیت میں اضافہ ہو مگر تعارف نوازشریف ہی ہوںگے۔
لوگ یہی کہیں گے کہ یہ نوازشریف کے بھائی ہیں یا ان کی بیٹی ہیں۔نوازشریف کے بغیر مسلم لیگ ن کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ہاں یہ ضرور ہے کہ ان کی ٹیم کے اچھے کام کرنے سے ان کی ذاتی پوزیشن بہت مضبوط اور بہتر ہوجاتی ہے۔میں چند سال پہلے کہے گئے اپنے اس فقرے پر قائم ہوں کہ نوازشریف کا نعم البدل بھی نوازشریف ہی ہیں ۔کیونکہ لیڈر کا نعم البدل اس کا نظریہ اور سوچ ہوتی ہے۔



.
تازہ ترین