• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہیومن رائٹس یعنی انسانی حقوق کی تنظیمیں پوری دنیا میں انسانوں کو بنیادی حقوق اور انصاف فراہم کرنے کیلئے کوشاں ہیں ۔ اس بین الاقوامی ادارے کے ممبران ،کرتا دھرتا افراد کے دفاتر پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں جن کا کام صرف یہ دیکھنا ہے کہ کہیں کسی انسان جن میں عورتیں، بچے اور بوڑھے شامل ہیں کا کوئی استحصال تو نہیں ہورہا ۔ ان کی یہ تنظیمیں یہ نظر بھی رکھتی ہیں کہ کہیں بچوں کے ساتھ زبردستی جبری مشقت تو نہیں لی جا رہی جس کو آج کے زمانے میں (Child Labour)کہا جاتا ہے ۔ کہیں خواتین کی توہین یا ان کی نسوانیت سے فائدہ اُٹھا کر ان کے حقوق پامال تو نہیں کئے جا رہے ۔ کہیں ہمارے بزرگ تشدد کا شکار تو نہیں ہو رہے ۔ ہمارے سیاستدانوں پر تو کوئی ظلم نہیں ہو رہا ہے ۔ یعنی بین الاقوامی قوانین کے مطابق تمام انسان بشمول عورتیں ، بچے ، سیاستدان اور تاجر قانونی تقاضے پورے کر رہے ہیں ، ان کے ساتھ برابر کا سلوک اور انصاف ہو رہا ہے ۔ اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ یہ بین الاقوامی تنظیمیں جن کا فرض صرف دنیا کے ہر انسان کو انصاف کے دائرے میں رہتے ہوئے بنیادی حقوق کا تحفظ فراہم کرانا ہے ،بہت زور شور سے تمام ملکوں میں ان کا نیٹ ورک کام کر رہا ہے جسے اقوام متحدہ اور تمام ترقی پذیر ممالک کی حمایت حاصل ہے۔ ان کے نامزد افراد غیر ترقی یافتہ یا یوں کہیں کہ پسماندہ ممالک میں اپنی سر گرمیاں فعال رکھتے ہیں اور دنیا کے عالمی ذرائع ابلاغ میں یہ تاثر دیتے ہیں کہ یورپ امریکہ کے علاوہ باقی تمام افریقی ، ایشیائی ، گلف کے علاقوں میں نہ تو تعلیم ہے اور نہ ہی ان کو بنیادی حقوق حاصل ہیں ۔ اس تنظیم کی یہ بات کسی حد تک صحیح ہے کہ ان ممالک میں عورتوں ، بچوں اور سیاستدانوں کے انسانی حقوق پامال ہو رہے ہیں مگر اس تنظیم نے آج تک یہ نہیں بتایا کہ اس کا ذمہ دار کون ہے ؟ پسماندہ ممالک ان ہی کی پروردہ تنظیمیں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک وغیر وغیرہ اداروں سے اپنے ممالک کیلئے قرضے حاصل کرتے ہیں تا کہ ان کے عوام بھی خوشحال ہو جائیں مگر اتنے قرضے لینے کے باوجود آج تک خوشحالی ان سے کوسوں دور ہے جبکہ ان تنظیموں کےفنانسر نہ صرف خوشحال ہیں بلکہ پسماندہ ممالک کے حکمرانوں کو دھمکیاں دے رہے ہیں کہ وہ اپنے قرضے وقت پر ادا کریں ورنہ ان کو نا دہندہ قرار دے کر مزید مشکلات میں مبتلا کر دیں گے ۔ ان اداروں کو اب جان لینا چاہئے کہ ان کے قرضے سودکے درمیان اتنے دب گئے ہیں کہ اصل تو ادا ہو چکا مگر اب غریب یا پسماندہ ممالک ایک یا زیادہ سے زیادہ دو سال تک ان کی قسطیں /سود ادا نہیں کر سکیں گے۔ میری اس تمہید کا مقصد یہ تھا کہ میں بتانا چاہتا ہوں کہ اس سائنسی دور میں کسی کو نہ تو زیادہ بے وقوف بنایا جاسکتا ہے اور نہ ہی جبر و تشدد جاری رکھا جاسکتا ہے ۔ اگر انسانی حقوق کی بات کی جائے تو میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یورپ میں جانے والے ایشیائی افراد کیا انسان نہیں ۔ ان کیلئے ویزے کا حصول کیوں ضروری ہے ، وہ غریب علاقوںسے بہتر حالات والے علاقوں میںآنا چاہتے ہیں اور انہوں نے آ کر انہی مغربی ممالک کی معیشت کو بہتر بنایا ہے ۔ انہوں نے یورپ کے آرام پسند افراد کی نسبت 24گھنٹے کام کر کے بے شک اپنے لئے آسودگی تو حاصل کی مگر اس کا تمام فائدہ تو یورپ کو ہی ملا کیونکہ ان کے باشندے اتنی محنت ، مشقت کے عادی نہ تھے ۔ یہ وہی ایشیائی باشندے ہیں جنہوں نے ان کی ایکسپورٹ کو بڑھایا ،مگر کیا دیا انہوں نے ان کو جو گزشتہ تیس 40سال سے یہاں کام کر رہے تھے ۔ان ایشیائی باشندوں پر اپنے ممالک میں آنے جانے کے دروازے آہستہ آہستہ بند کرنا شروع کر دیئے ۔ یہی حال امریکہ کا بھی ہے ایک زمانہ تھا کہ ہمارے ڈاکٹرز ، انجینئرز ، بی فارمیسی ، ٹیچرز بلوا کر ہمارے ملک میں ان کی قلت کر دی گئی تھی ۔ امریکہ جانا ایک فیشن تھا مگر آج جب یہی ممالک ان میں خود کفیل ہو گئے تو ہم پھر تیسرے درجے کی مخلوق بن گئے ۔ مگر کہاں ہیں وہ عالمی تنظیمیں جو خود کو انسانی حقوق کی علمبردار کہتی ہیں، آئیں اور دیکھیں بین الاقوامی ائیر پورٹ پر کس کس طرح ایشیائی ، افریقی اور غریب خلیجی ریاستوں سے آنے والے مسافروں سے توہین آمیز سلوک کیا جا رہا ہے ۔ آج تک ہیومن رائٹس کے افراد نےکیا کبھی ان انٹرنیشنل ائیر پورٹس پر آ کر دیکھا ہے کہ یورپی اور امریکن ائیر پورٹ پر کس طرح سے ان غریبوں کی تضحیک کی جاتی ہے ۔ وہ ہمارے ایشیائی بچوں کی جنگ ہمارے ہی ملک میں کیوں لڑنا چاہتے ہیں ۔ ہماری خواتین کی بے حرمتی کا رونا ہمارے ہی ملک میں آ کر کیوں روتے ہیں ۔ ان کو نہیں معلوم کہ ہمارے ان ہی بچوں ، خواتین اور محنت کشوں کو خود ان کے ترقی یافتہ ممالک ویزے دینے میں کیسا کیسا سلوک کرتے ہیں ۔ کبھی انہوں نے ان ممالک سے پوچھا کہ وہ ایسا تعصب کیوں کر رہے ہیں ۔ بچے ، عورتیں اور محنت کش کیا ان ممالک سے مختلف ہیں ۔ اگر ہم اپنے ملک میں ظلم کریں تو آپ ہمارے خلاف آواز اُٹھائیں اور جب آپ خود یہ ظلم کر رہے ہوں تو ہم کس سے انصاف طلب کریں ۔ انسان ،انسان ہوتا ہے خواہ وہ یورپ کا ہو یا ایشیا کا ہو ۔ اگر خوش قسمتی سے ایک پاکستانی بچہ امریکہ یا یورپ میں پیدا ہو گیا تو اس کو اتنی سہولتیں کیوں اگر اسی باپ کا دوسرا بچہ پاکستان میں پیدا ہو گیا تو قصور بچے کا ہے یا اس کے باپ کا ۔ میں کہتا ہوں کہ جب آپ بین الاقوامی حقوق یعنی ہیومن رائٹس کی بات کرتے ہیں تو آپ کو جغرافیہ کو بھولنا ہو گا ۔ پہلے فرانس میں پیدا ہونے والا بچہ جرمنی میں ویزہ لے کے جاتا تھا آج یورپ میں اس کو کسی ویزے کی ضرورت نہیں ہے ۔ امریکہ اور برطانیہ میں پیدا ہونے والے بچے کو کسی ویزے کی ضرورت نہیں ہے ۔ کہاں گئے وہ ہیومن رائٹس کے علمبردار ۔یعنی ہمارے بچوں کو ویزے لینے کیلئے قطاروں میں لگنا پڑے اور ایک گورے بچے کو بغیر قطار کے خود بخود ویزہ مل جائے کیا یہ ہیومن رائٹ ہے وہ بھی اس نئی صدی کا جس نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اے ہیومن رائٹس کے علمبردارو! آئو اور آگے بڑھ کر ثابت کرو کہ مشرق اور مغرب کا انسان ، شمال اور جنوب میں بسنے والا انسان اب ایک ہے اس کو کسی ویزے ، شناخت ، علاقے یا نسبت کی ضرورت نہیں ہے بلکہ انسانیت کی ضرورت ہے جس کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ اگر اس تقسیم کو ختم نہیں کیا گیا تو خود ہیومن رائٹس والے تقسیم ہو جائیں گے اور خود ساختہ یہ نظام آج نہیں تو کل ضرور ختم ہو جائے گا ۔ کیونکہ اللہ کی سر زمین صرف اللہ ہی کی ہے اور سب کو اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔



.
تازہ ترین