• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے بجلی کی لوڈشیڈنگ کے موجودہ دورانیہ پر شدید برہمی کا اظہار اور یہ ہدایت کی بجلی کی فراہمی کی ہر گھنٹے مانٹیرنگ کیلئے خصوصی کمیٹی بنائی جائے جو اس کی ترسیل اور تقسیم کی بھی مانٹیرنگ کرے اور ہر ہفتے رپورٹ پیش کرے ملک میں بجلی کی پیداوار اور تقسیم کی اصلاح طلب صورتحال کی عکاسی کرتی ہے حالت یہ ہے کہ دیہات میں ہر گھنٹے بعد دو دو اور بعض اوقات اس سے بھی زیادہ دیر تک لوڈ شیڈنگ کی جا رہی ہے جبکہ شہروں میں بھی لوگ گرمی کی شدت میں دس دس گھنٹے بجلی نہ ہونے سے بلبلا رہے ہیں اگرچہ وزارت پانی بجلی نے مژدہ سنایا ہے کہ بجلی کا شارٹ کم ہو کر 3073میگا واٹ رہ گیا ہے، اپریل میں866 میگا واٹ بجلی سسٹم میں بحال کی گئی ہے، مئی کے وسط میں مزید 400میگا واٹ بحال کی جائے گی اور ملک میں کہیں بھی غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ نہیں ہو رہی مگر عملاً صارفین کی مشکلات میں کوئی کمی نہیں آئی۔ وزیراعظم نے توانائی سے متعلق کابینہ کمیٹی کے اجلاس میں گزشتہ روز اس صورتحال کا سختی سے نوٹس لیا اور کہا کہ متعلقہ وزارتوں اور محکموں نے بجلی کی بلاتعطل فراہمی کے لئے پیشگی منصوبہ بندی نہیں کی نہ متعلقہ ادارے توجہ دے رہے ہیں، اس غفلت اور کوتاہی کے ذمہ داروں کا تعین کیا جائے۔ انہوں نے بند آئی پی پیز کو چلانے کیلئے لائحہ عمل تجویز کر کے دو دن میں رپورٹ پیش کرنے کی بھی ہدایت کی اور کہا کہ عوام کو ریلیف فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے وفاقی کابینہ اور متعلقہ محکموں پر واضح کیا کہ وہ اس سال دسمبر تک بجلی کی لوڈشیڈنگ کا خاتمہ چاہتے ہیں اور اس ڈیڈ لائن میں کوئی توسیع نہیں کی جائے گی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ حکومت نے توانائی کے بحران پر قابو پانے کیلئے بہت سے عملی اقدامات کئے ہیں ان میں اندرون ملک بعض اہم منصوبے شروع کرنے کے علاوہ بیرونی ملکوں سے معاہدے بھی شامل ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ بجلی کا بحران ابھی حل نہیں ہوا، یہ مسئلہ طویل عرصہ سے چلا آ رہا ہے۔ ماضی کی حکومتیں بھی اسے حل نہیں کر سکیں اس کی وجہ یہ ہے کہ بڑھتی ہوئی آبادی اور زرعی صنعتی اور تجارتی مقاصد کے لئے بجلی کے استعمال میں مسلسل اضافہ کے تناسب سے پیداوار نہیں بڑھی۔ ہر حکومت نے اقتدار سنبھالنے پر لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے دعوے کئے مگر عملی دشواریوں یا غفلت کی وجہ سے انہیں پورا نہیں کر سکی اسی طرح کا وعدہ موجودہ حکومت نے بھی کیا تھا اس کی مدت اقتدار پوری ہونے میں تقریباً ایک سال کا عرصہ رہ گیا ہے مگر یہ وعدہ ہنوز تشنہ تکمیل ہے۔ توقع کی جا رہی ہے کہ بجلی کی پیداوار بڑھانے کے اقدامات پر کام کی رفتار تیز کرنے سے صورت حال میں بہتری آئے گی۔ وزیراعظم اس معاملے میں بہت سنجیدہ نظر آتے ہیں اسی لئے انہوں نے وزراء اور معاونین کی جانب سے دسمبر کی ڈیڈ لائن دینے میں احتیاط کے مشورے کو نظر انداز کر کے متعلقہ اداروں کو آئندہ سات ماہ میں یہ کام مکمل کرنے کا ہدف دے دیا ہے تا کہ وہ اگلے سال عام انتخابات سے قبل ملک کے لوڈشیڈنگ فری ہونے کا اعلان کر کے رائے دہندگان کا پورے اعتماد سے سامنا کر سکیں۔ وزیراعظم نے آر ایل این جی اور کوئلہ کو بجلی گھر کا سورس بنانے کا پلان پیش کرنے کی بھی ہدایت کی ہے جس سے بجلی سستی کرنے میں مدد ملے گی اس ضمن میں وزیر پانی بجلی خواجہ محمد آصف کا یہ کہنا صافین کو بھی دعوت عمل دیتا ہے کہ بجلی کے شارٹ فال کا بڑا سبب پیداوار میں کمی کے علاوہ بجلی کی بے تحاشا چوری بھی ہے اسی لئے زیادہ لوڈشیڈنگ انہی علاقوں میں کی جا رہی ہے جہاں بجلی زیادہ چوری ہوتی ہے۔ متعلقہ محکموں کے علاوہ یہ صارفین کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ بجلی کے بل باقاعدگی سے ادا کریں اور جو لوگ چوری کے مرتکب ہوتے ہیں ان کی نشاندہی کریں تا کہ انہیں سزا دی جا سکے۔ توقع ہے کہ وزیراعظم کے احکامات کی روشنی میں لوڈشیڈنگ کے مسئلے پر کم سے کم مدت میں قابو پانے کی کوشش کی جائے گی تاکہ نہ صرف عام صارفین بلکہ صنعتی تجارتی اور زرعی مقاصد کے لئے بھی مطلوبہ بجلی بلاتعطل فراہم ہو سکے اور ملک کی معیشت ترقی کر سکے۔

.
تازہ ترین