• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہم نے پاکستان میں پہلا مارشل لا1953میں دیکھا تھا۔ احمدیوں کے خلاف تحریک نے زور پکڑا اور ہنگامے شروع ہوئے تو مارشل لا لگا دیا گیا۔ یہ مارشل لا صرف لاہور میں لگایا گیا تھا۔ اس مارشل لا میں روزنامہ ’’زمیندار‘‘ پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ اس کا پریس بند کر دیا گیا تھا اور اس کے ایڈیٹر مولانا اختر علی خاں (مولانا ظفر علی خاں کے صاحب زادے) کو قید کر دیا گیا تھا۔ مولانا اختر علی خاں کے صاحب زادے منصور علی خاں نے روزنامہ ’’آثار‘‘ کے نام سے نیا اخبار نکالا تھا۔ یہ اخباروں پر سنسر لگانے کا آغاز تھا۔ لیکن یہ مارشل لا بہت ہی مختصر عرصے کے لئے تھا۔ اس کے بعد حکومتیں بنتی رہیں، بگڑتی رہیں۔ وزیر اعظم آتے رہے جاتے رہے۔ اس عرصے میں پاکستان کا پہلا آئین بھی بن گیا، جسے ہم 1956کا آئین کہتے ہیں۔ ہم نے سمجھا اب پاکستان واقعی جمہوریہ بن گیا ہے۔ وہ جمہوریہ جہاں ہر قسم کی آزادی ہو گی۔ اور اخبار آزادی کے ساتھ جمہوریت کی آبیاری کرتے رہیں گے۔ اس موقع پر بہت خوشیاں منائی گئیں۔ لاہور میں چراغاں کیا گیا۔ پورا شہر سڑکوں پر نکل آیا تھا۔ ہم بھی رات کو سڑکوں پر تماشہ دیکھنے نکلے تھے۔ لیکن یہ عرصہ بھی مختصر ہی ثابت ہوا کیونکہ دو سال بعد ہی ہم نے جنرل ایوب خاں کا مارشل لا دیکھا۔ یہ مارشل لا پورے پاکستان میں لگایا گیا تھا اور یہ اصل مارشل لا تھا۔1956 کا آئین منسوخ کردیا گیا اور تمام انسانی حقوق اور تمام آزادیاں سلب کر لی گئیں۔ اس طرح پہلی بار اخباروں کو اصلی سنسر کا سامنا کرنا پڑا۔ اخباروں کا ایک ایک حرف سنسر کیا جاتا تھا۔ اداریہ اور مضامین کتابت (اس زمانے میں کتابت ہوتی تھی) کرانے سے پہلے منظوری کے لئے بھیجے جاتے تھے۔ خبروں کی سنسر کے لئے اخبار کی کاپیاں جوڑ کر انفارمیشن افسر کے سامنے پیش کی جاتی تھیں۔ ان صاحب کی منظوری کے بعد ہی اخبار چھاپا جاتا تھا۔ ایک آدھ اخبار نے تھوڑی بہت جرأت دکھانے کی بھی کوشش کی۔ اور جو خبریں سنسر کی گئیں وہاں خالی جگہ چھوڑ دی مگر حکم ہوا کہ خالی جگہ نہیں چھوڑی جا سکتی۔ کوثر نیازی کے اخبار ’’شہاب‘‘ نے اس سے بھی زیادہ جسارت اور بے باکی کا مظاہرہ کیا۔ جو اداریہ سنسر کر دیا گیا تھا اس کی جگہ اوپر سے نیچے تک جوتیوں کے تلے چھاپ دیے۔ اس پر جو ہنگامہ ہوا اس کی تفصیل نذیر ناجی بتا سکتے ہیں جو اس وقت اس اخبار کے ایڈیٹر تھے۔ اس مارشل لا میں صرف یہی نہیں ہوا بلکہ ایوب خاں کی حکومت نے اس وقت کے آزاد اور روشن خیال اخبار روزنامہ امروز اور پاکستان ٹائمز، ہفت روزہ لیل و نہار اور ماہنامہ اسپورٹس ٹائمز شائع کر نے والے ادارے پروگریسیو پیپرز پر قبضہ کر لیا۔ اس طرح مارشل لائی آمریت کے خلاف ڈٹ کر کھڑے ہونے والے اخباروں کا گلا گھونٹ دیا گیا۔ پھر یہ ادارہ پہلے ایک کے ہاتھ بیچا گیا پھر دوسرے کے ہاتھ۔ آخر نیشنل پریس ٹرسٹ بنا کر یہ اخبار اس کے سپرد کر دیئے گئے۔ روزنامہ مشرق بھی نیشنل پریس ٹرسٹ کی تحویل میں چلا گیا۔ اب تمام اخبار سنسر کی زد میں تھے۔
ایوب خاں کے مارشل لا کے بعدہم نے یحییٰ خاں کا مارشل لا دیکھا۔ یحییٰ خاں نے بھی ایک آئین بنایا، جو ٹیلی پرنٹر پر تمام اخباروں کو بھیجا گیا تھا۔ یہ اور بات کہ اسے نافذ ہونا نصیب نہیں ہوا۔ لیکن اس زمانے میں اخباروں پر اتنی سختیاں نہیں تھیں۔ اسی لئے جب مشرقی پاکستان پر فوج کشی کی گئی تو آئی اے رحمٰن، عبداللہ ملک اور حمید اختر کے اخبار ’’آزاد‘‘ نے اس کے خلاف آواز اٹھائی۔ ذوالفقار علی بھٹو کا دور جمہوری دور تھا لیکن اخباروں کی آزادی سے وہ بھی کچھ زیادہ خوش نہیں رہتے تھے۔ پھر ہم نے حقیقی معنی میں گلا گھونٹنے والا ضیاء الحق کا مارشل لا دیکھا۔ سچ بو لنے والے صحافیوں کو کوڑے لگائے گئے۔ این پی ٹی کے اخباروں میں کام کرنے والے ان صحافیوں کو ملازمت سے نکالا گیا جنہوں نے مارشل لا ختم کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ وہ تو خداوند تعالیٰ کو ہی اس ملک پر رحم آ گیا ورنہ یہ مارشل لائی آمریت آسانی سے ہمارا پیچھا چھوڑنے والی نہیں تھی۔ اس کے بعد ہم نے جمہوریت کے دور دیکھے۔ الیکشن ہوئے۔ منتخب حکومتیں آئیں مگرکتنے عرصے؟ جنرل مشرف نے پھر جمہوریت کے راستے میں روڑے اٹکا دیئے۔ لیکن اس وقت تک اخباروں نے کافی آزادی حاصل کر لی تھی اور یہ آزادی کسی نے طشتری میں رکھ کر انہیں نہیں دی تھی بلکہ صحافیوں نے ایک طویل جدوجہد کے بعد یہ آزادی حاصل کی تھی۔ قیام پاکستان کے بعد ہی اس ملک میں دو تنظیمیں ایسی تھیں جنہوں نے رائے کے اظہار اور اجتماع کی آزادی کے لئے بھرپور جدوجہد کی۔ یہ تھیں صحافیوں کی تنظیم اور وکلا کی تنظیم (اس وقت تک ان میں پھوٹ نہیں پڑی تھی) جمہوری آزادیوں کے لئے جب بھی جدوجہد شروع ہوئی، صحافی اور وکیل ہی آگے آگے رہے۔
اس وقت ہمیں یہ ساری داستان بیان کرنے کی ضرورت اس لئے پیش آئی ہے کہ آج پھر ہمیں کچھ ایسی ہی صورت حال کا سامنا ہے۔ یہ جو ڈان لیکس کا قصہ ہے، آپ ذرا اس پر غور کیجئے۔ ایک صحافی نے خبر دی۔ کچھ حلقوں کو وہ پسند نہیں آئی۔ حکم ہوا کہ تحقیق کرائی جائے کہ یہ اندر کی بات باہر کیسے آئی؟ گویا یہ تسلیم کر لیا گیا کہ خبر صحیح ہے۔ شکایت صرف یہ ہے کہ اندر کی خبر باہر کیسے آئی؟ اور کس نے اسے افشا کیا؟ اب لوگوں کی گردنیں ناپی جا رہی ہیں۔ یہاں تک تو ٹھیک تھا۔یہ حکومت کی مرضی ہے کہ وہ کسی کے دبائو میں آ کر اپنے آدمیوں کے ساتھ جو سلوک کرنا چاہے کرے لیکن خبر دینے والے صحافی اور خبر چھاپنے والے اخبار کے خلاف اخباری مالکوں کی انجمن سے شکایت، اور اس سے ضابطہ اخلاق بنانے کا مطالبہ ہماری سمجھ میں نہیں آیا۔ اول تو ایسا ضابطۂ اخلاق پہلے ہی مو جود ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ کیا اس طرح دوبارہ وہ زمانہ واپس لانے کی کوشش کی جا رہی ہے جب اخباروں سے کہا جاتا تھا کہ یہ خبر چھاپو اور یہ نہ چھاپو؟ اچھا رپورٹر تو وہ ہوتا ہے جو اندر کی خبر لائے۔ اخبار نے جو خبر چھاپی وہ اندر کی خبر تھی۔ اور اس ہنگامے نے ثابت کر دیا کہ وہ خبر صحیح تھی۔ اب رہی قومی سلامتی کی بات؟ تو یہ فیصلہ کرنے کا اختیار کسے ہے کہ قومی سلامتی کیا ہے؟ آخر اس خبر نے قومی سلامتی کو کیا نقصان پہنچایا؟ اگر اسی طرح پابندیاں لگانے کی کوشش کی گئی تو پھر تفتیشی رپورٹنگ (investigative reporting)کا خدا ہی حافظ ہے۔ ہم تو پرانے زمانے کے اخباروں سے آج کا مقابلہ کرتے ہیں تو بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ آج تفتیشی رپورٹنگ کے لئے جو آزادی میسر ہے پہلے اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔
ایک وضاحت:ہم نے پچھلے کالم میں لکھا تھا کہ نیشنل بک فائونڈیشن کے کتاب میلے کے لئے احمد عقیل روبی نے ترانہ لکھا تھا۔ اب ہمارے افسانہ نگار اور نقاد دوست حمید شاہد نے بتایا ہے کہ یہ ترانہ طارق نعیم نے لکھا ہے، جو جانے مانے شاعر ہیں اور جن کی شاعری کے دو مجموعے چھپ چکے ہیں۔

.
تازہ ترین