• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’ تم سیکولرزم پر فخر کرو،مجھے اسلام پسند ہونے پر فخر ہے‘‘

وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان کے ایک حالیہ بیان نے پاکستان میں سیکولر زکے ایک مخصوص طبقے کو جیسے آگ لگا دی ہو۔ اپنے حلقہ انتخاب میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ بنگلہ دیش کی حکومت مودی سرکار کی پٹھو بنی ہوئی ہے۔ انہوںنے کہا کہ چاہیے تو یہ تھا کہ بنگلہ دیش میں مسلمانوں کی نمائندگی ہوتی لیکن وہاں آج مودی سرکار کی نمائندگی ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب بھی دنیا میں کسی بھی جگہ مسلمانوں پر ظلم اور زیادتی ہو گی تو بحیثیت مسلمان وہ اس کے خلاف اپنی آواز ہمیشہ بلند کرتے رہیں گے۔ چوہدری نثار نے کہا وہ یہ بات امریکا میں بھی کہہ چکے ہیں کہ دہشت گردی کی وجہ مسلمان نہیں بلکہ مغرب کا وہ تعصب ہے جس کی وجہ سے وہ ہر داڑھی والے مرد اور ہر پردہ دار خاتون کو دہشت گرد سمجھتے ہیں۔ جب تک مغرب اپنا یہ رویہ نہیں بدلے گا دہشت گردی پر کنٹرول نہیں ہو گا۔ چوہدری نثار نے کہا کہ انہوں نے دنیا میں ہر جگہ اسلام اورپاکستان کا دفاع کیا اور یہ بھی کہا کہ وہ ہر اُس مسلمان کی حمایت کریںگے جس پر غلط الزام اور ناجائز تنقید کی جائے گی۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ پاکستان کے اندر موجود کچھ لوگ اور سیاسی پارٹیاں ان سے اس لیے خار کھاتی ہیںکیوں کہ وہ اسلام اور اسلامی نظریات کی بات کرتے ہیں۔ انہوں نے ان سیاسی پارٹیوں اور افراد کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر تمھیں سیکولراور لادین ہونے پر فخر ہے تو مجھے اسلام پسند ہونے پر فخرہے۔ انہوں نے کہایہ ایک بہت بڑی لڑائی ہے۔ چوہدری نثار کے اس بیان نے میڈیا میں موجودسیکولرز کے ایک مخصوص طبقے کو جیسے آگ لگا دی ہو۔ توقع کے مطابق سوشل میڈیا کے ذریعے چوہدری صاحب پر فوری حملے شروع ہوگئے، انہیں طعنہ دیےگئے، کہا گیا کہ چوہدری صاحب کو تو سیکولرازم کا پتا ہی نہیں۔ اس کے علاوہ mainstream میڈیاکے ذریعے بھی چوہدری نثار پر یہ طبقہ حملہ آور ہو اور یہ تک کہہ دیا کہ ایچی سن کالج سے پڑھ کر بھی چوہدری نثار سیکولرازم کا مطلب نہیں سمجھ پائے۔چوہدری نثار نے سچ کہا کہ انہیں بہت سے لوگ اور چند سیاسی پارٹیاں اس لیے اپنے نشانہ پر رکھتی ہیں کیوں کہ وہ اسلام پسند ہیں اور اسلام سے کنفیوژڈ سیکولرز کی طرح شرمانے کی بجائے اُس پرفخر کرتے ہیں۔
بشمول میڈیا اور سیاست کے پاکستان میں بہت سے ایسے لوگ موجودہیں جو سیکولرازم کے فتنہ کو جانے بغیر اپنے آپ کو سیکولر کہتے ہیں۔ سیکولرازم کیسے اسلام مخالف ہے اور اسے کیوں لادینیت سے جوڑا جاتا ہے اس کے بارے میں جانے بغیر یہاں بہت سے لوگ سیکولر ایجنڈے کو فالو کر رہے ہوتے ہیں۔ چوہدری نثار کے حالیہ بیان کے بعد جب سوشل میڈیا کے ذریعے اُن پر حملہ کیا گیا تو کئی ایسے ہی لوگ اس لعن طعن میں دوسروں کی دیکھا دیکھی شامل ہو گئے۔ کچھ عرصہ قبل میڈیا میں موجود ایک دوست سے سیکولرازم کے موضوع پر بات ہو رہی تھی تو اُس کا کہنا تھا کہ لوگ بلاوجہ سیکو لرازم کو اسلام مخالف سمجھتے ہیں۔ میں نے پوچھا کیا ایک مسلمان کے لیے قرآن و سنت پر مکمل ایمان لازم ہے؟ اُس نے کہا ہاں۔ میں نے پھر پوچھا کہ کیا یہ درست ہے کہ سیکولرازم کے تحت ریاست کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں؟ جواب ملا جی ہاں۔ اس پر میں نے سوال کیا کہ اگر ریاست کسی اسلامی احکام کی پابند نہیں ہو گی تو پھر اُن اسلامی احکامات کا کیا بنے گا جن کا تعلق ریاستی امور، سیاست، سماج، معاشرت، معیشت وغیرہ سے ہے اور جن پر عمل درآمد کروانا ریاست کی ذمہ داری ہے؟ میں نے یہ بھی پوچھا کہ آیا ایک مسلمان کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ یہ کہے کہ قرآن پاک کے ایک حصہ پر عمل کرنے کے تو میں حق میں ہوں لیکن دوسرے حصہ کو لاگو کرنے کے حق میں نہیں ؟ اس سوال پر مجھے کوئی جواب نہیں ملا۔ یہاں میرا مقصد کسی سے بلاوجہ بحث میں الجھنا نہیںبلکہ ایسے افراد کو محتاط کرنا ہے جو بغیر جانے دوسروں کی اندھی تقلیدمیں اپنے آپ کو سیکولر کہتے ہیں۔ ایسے افراد سے میری گزارش ہے کہ وہ طارق جان صاحب کی کتاب ’’سیکولرازم۔ مباحثہ اور مغالطے‘‘ کا ضرور مطالعہ کریں۔ اس کتاب کو لکھنے کے لیے مصنف نے بہت تحقیق کی تاکہ پڑھنے والے سیکولرازم کے فتنہ سے پوری طرح آگاہ ہو سکیں۔ اس کتاب کے صفحہ 54 پر مصنف لکھتے ہیں:
’’ جو مسلمان اپنے آپ کو سیکولر کہتے ہیں ، یا وہ جو سمجھتے ہیں کہ اسلام سے جان چھڑائے بغیر بھی وہ سیکولرازم کی پیروی کر سکتے ہیں، اُن سے کئی سوال پوچھے جا سکتے ہیں: قرآن پاک میں سماجی، اقتصادی اور سیاسی معاملات کے متعلق بہت سے احکامات اور اخلاقی تعلیمات موجود ہیں، جو مملکتی انتظام و انصرام کے بغیر تشنہ تعمیل رہتے ہیں۔ جب صورت واقعہ یہ ہے تو کیا اسلام کے ایک بڑے حصے کو چھوئے بغیر چھوڑ دیا جائے؟ اس کے لیے کون سا قانونی یا شرعی جواز موجود ہے؟ کیا ایسا ہی معاملہ انسان کے اپنے بنائے ہوئے مجموعہ قوانین سے بھی کیا جا سکتا ہے، جب کوئی شہری اٹھ کر اعلان کر دے کہ ٹھیک ہے میں اس قانون کو تسلیم کرتا ہوں، لیکن دوسرے فلاں والے کو نہیں مانتا؟ کیا مملکت اس طرز عمل کی اجازت وہاں بھی دے گی؟‘‘
طارق جان نے درست کہا کہ اسلام کے بارے میں ’’کچھ لو، کچھ چھوڑ دو‘‘ والا معاملہ نہیں چل سکتا۔ اسی کتاب کے chapter ’’سیکولرازم لادینیت ہے‘‘ میں وہ لکھتے ہیں: ’’یوں تو سیکولرازم کی تعریف متعین کرنے میں بہت سے نام لیے جا سکتے ہیں، جیسے جارج ہولی اوک، پیٹر برجر، ہاروی کاکس، میکس ویبر، ورجلئیس فرم، ولیم لیکی اور برنارڈ لئیس وغیرہ۔ لیکن چونکہ ہولی اوک کے بارے میں مشہورہے کہ اُس نے ہی پہلے اس اصطلاح کو متعارف کرایا تھا، اس لیے اُسی سے شروع کرنا چاہیے۔ اُس کے نزدیک: ’سیکولرازم نام ہے اُس ضابطے کا، جس کا تعلق فرائض سے ہے۔ جس کی غایت خالصتاً انسانی ہے اور یہ بنیادی طور پر اُن (افراد) کے لیے ہے جو الٰہیات کو نامکمل یا ناکافی، ناقابل اعتبار یا ناقابل یقین سمجھتے ہیں‘۔‘‘
طارق جان کے مطابق سیکولرازم اُسی وقت بطور نظریہ سامنے آتا ہے جب انسان مذہب سے غیر متعلق ہونا شروع کر دے۔اُن کا کہنا ہے کہ سیکولر حضرات نفاذ شریعت کے خلاف ہر وقت مورچہ بند رہتے ہیں اور ساتھ ہی یہ کہتے ہیں کہ ہم مذہب کے خلاف نہیں۔ کیا سیکولرازم لادینیت ہے کہ نہیں اس کے جواب کے لیے طارق جان نے قرآن حکیم کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں(مفہوم) کہ کیا تم کتاب کے ایک حصہ پر ایمان رکھتے ہو اور دوسرے حصہ کا انکار کرتے ہو، تو جو تم میں سے ایسی حرکت کریں تو اُن کی سزا سوا اس کے کیا ہو سکتی ہے کہ دنیا کی زندگی میں تو رسوائی ہو اور قیامت کے دن سخت سے سخت عذاب میں ڈال دیے جائیں۔

.
تازہ ترین