• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کے خلاف اندرونی و بیرونی محاذ تحریر:محمد سعید مغل ایم بی ای…برمنگھم

آج کل پاکستان کی سرحدوں پر دشمن کی افواج ہر روز فائرنگ کرکے معصوم کشمیریوں کو گولیاں کا نشانہ بنا رہی ہیں۔ دونوں پڑوسی ملک پاکستان کے خلاف ریاستی دہشت گردی کررہے ہیں، لیکن اندرون ملک اپنی سیاسی پارٹیاں نے اپنے مفاد اور اقتدار کی خاطر محاذ کھول رکھا ہے اور ایک دوسرے کو نیچا اور زیر کرنے کے لیے الزام تراشیاں، عدالتوں میں کیسز دائر کررہے ہیں، جس سے پورے ملک کا نظام دھرم برہم ہوگیا ہے۔ پچھلے ایک سال سے پاناما کی جنگ پرپاکستان کی بڑی سیاسی پارٹیاں اربوں روپے خرچ کررہی ہیں، جبکہ پاکستان کے عوام بھوک، افلاس اور بیماری سے مر رہے ہیں، ہسپتالوں میں علاج کے لیے ڈسپرین کی گولی تک نہیں ملتی۔ لوگوں کے سول عدالتوں میں سالوں سے کیس چل رہے ہیں، کوئی فیصلے نہیں ہورہے، لیکن پاناما کے کیس میں وکلا ججز اور ملک کے عوام بے تابی سے انتظام کررہے ہیں۔ عوام کی رہی سہی کسر بجلی کی لوڈشیڈنگ نے نکال دی ہے۔ اس مقدس مہینے میں لوگوں کو بجلی، پینے کا صاف پانی تک نہیں مل رہا، لیکن ہمارے حکمران عدالتوں سے صاف چٹ کے لیے دنیا بھر سے سفارش کروا رہے ہیں، کبھی قطر اور کبھی سعودیہ فرماں برداروں سے اپیلیں کروا رہے ہیں، پاکستان کے عوام ملک میں الیکشن کے دوران ان نمائندگان کو منتخب کرتے ہیں، تاکہ وہ عوامی مسائل اور ان کی مشکلات کو حل کرواسکیں، لیکن نہ صرف پاکستانی عوام بلکہ پوری دنیا یہ تماشہ دیکھ رہی ہے، جب پاناما کیس کا متفقہ فیصلہ نہ ہوسکا تو عدالت نے جے آئی ٹی تیار کی، تاکہ فیصلہ صاف اور شفاف ہو، کسی سے زیادتی نہ ہو۔ پاکستان میں اس وقت گلی گلی اور کوچوں میں نظریں پاناما پر لگی ہیں۔ دفتروں میں چرچے، محکمے کے لوگوں نے کام بند کر رکھے ہیں۔ اخبارات میں پاناما، جے آئی ٹی اور ٹیلی ویژن پر ٹاک شو میں پاناما کی باتیں ہورہی ہیں۔ جبکہ ملکی معیشت تباہ، لوگوں کے کاروبار تباہ، عدالتوں کے فیصلوں میں تاخیر، عوام کو نہ تو روزگار ملتا ہے نہ سکون سے سو سکتے ہیں، کیونکہ بجلی نہیں، لیکن حکمرانوں نے ملک کا پیسہ بیرون ملک منتقل کر رکھا ہے۔ اپنے بچوں کے کاروبار بیرون ملک، ان کی تعلیم دوسرے ملکوں میں، لیکن حکمرانی پاکستان میں، یہ بہت بڑا عوام کے ساتھ دھوکہ ہے، جس شخص کی جائیداد پاکستان میں ہو، پیسہ پاکستان کے بینکوں میں ہو، انہیں حق ہونا چاہئے کہ الیکشن لڑیں اور اگر عوام منتخب کریں تو اقتدار انہیں ملنا چاہئے ورنہ یہ ڈرامہ بھی بند ہونا چاہئےکہ پیسے بیرون ملک، لیکن حکمرانی پاکستان پر اب عوام بے تابی سے انتطار کررہے ہیں کہ پاناما کا فیصلہ انصاف کے مطابق ہوجانا چاہئے تاکہ عوام کو بھی سکون مل سکے اور پاکستان میں افراتفری ختم ہو۔ آنے والے وقت کسی شخص کو کرپشن کرنے کی جرأت نہ ہوسکے۔ احتساب پورا ہونا چاہئے تاکہ پاکستان کا مستقبل بہتر ہوسکے۔ حکمران کرپشن بھی کریں اور سینہ زوری بھی، یہ غنڈہ گردی ہے، یہ بند ہونا چاہئے۔ عوام نے جن کو منتخب کیا تھا کہ وہ عوامی مسائل حل کریں گے، وہ لوٹ کھسوٹ اور اقتدار کی جنگ میں اندھے ہوچکے ہیں اور فرعون بن چکے ہیں۔ پاکستان کی معیشت اور مسائل پر فیصلہ کرکے عوام کا استحصال کررہے ہیں۔ جن کو عوام اب برداشت نہیں کریں گے۔ عدالتوں کے سامنے پیش ہونا یہ حیرانی کی بات ہرگز نہیں، ماضی میں بھی وزیراعظم، وزراء، عدالتوں میں پیش ہوتے آئے ہیں، کوئی قیامت نہیں آئی کہ میاں برادرز عدالتوں کے سامنے پیش ہوئے ہیں۔ عدالتوں کو تحقیقات کرنی تھی، ان کو ضرورت پڑی تو عدالت نے میاں صاحب کی فیملی کو پیش ہونے کا نوٹس دیا۔ اب حاضر ہونا، پھر واویلا کس بات کا۔ عوام کو تاثر دینا کہ ہمارے ساتھ زیادتی ہوئی ہے، یہ موقف درست نہیں۔ پاکستان میں ہر چیز پیدا ہوتی ہے، صرف ہمیشہ قبضہ اشرافیہ کا رہا ہے۔ ان لوگوں کا دبدبا رہا ہے۔ آج بھی پاکستان میں بچوں کے لیے سکول نہیں، کروڑوں بچے گھروں میں بیٹھے ہیں، یہ پاکستانی عوام کے ساتھ زیادتی نہیں۔ پاکستان20کروڑ عوام کا ہے، صرف ایک مخصوص طبقے کا نہیں کہ وہ جو جی میں آئے کرتے رہیں۔ کسی کو حساب نہ دیں۔ ان کا احتساب ہونا چاہئے جنہوں نے پاکستان کو بے دردی سے لوٹا ہے، ان کو سزائیں دی جائیں۔ بے روزگاری انتہا پر ہے، لیکن پاناما پر دن رات وقت ضائع کیا جارہا ہے، اگر کسی کو نااہل کیا جاتا ہے یا سزا ملتی ہے تو عوام کو اس سے کیا ملے گا۔ پورے ملک کا نظام درہم برہم ہے، اس کو کنٹرول کون کرے گا۔ سارا سال دن رات ایک دوسرے کو گالیاں دیتے رہتے ہیں۔ ٹی وی، اخبارات، میڈیا میں دن رات گالی گلوچ کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ عوام نے ان کو منتخب اس لیے نہیں کیا تھا کہ وہ عوامی مسائل کے بجائے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی جنگ لڑنا شروع کردیں گے اور ملک کو تباہی کے کنارے کھڑا کردیں گے۔اب عوام کو اس دلدل سے نکالنے کے لیے کوئی اللہ وال درویش شخص ہی نکال سکتا ہے، جس کو خدا کا خوف ہو اور ملک کی ہمدردی ہو اور یہ احساس ہو کہ ملک ہوگا تو ہم حکمرانی کریں گے۔ اس لیے ملک سے وفاداری اولین ترجیح ہونی چاہئے، ہمیں مل جل کر ملکی معیشت کو مضبوط اور استحکام کے لیے کام کرنا چاہئے، ورنہ آئندہ حالات اور تباہ کن رہنے ہیں۔

تازہ ترین