• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

 جے آئی ٹی کی عمر میں صرف ایک دن باقی رہ گیا ہے۔کل یعنی دس جولائی کے بعد جے آئی ٹی کے ارکان ہونگے اورمعمول کی ملازمتیں اورابھی نہال ہاشمی کی دھمکیوں کی دھمک فضا میں موجود ہے ۔یہ الگ بات کہ انہوںنے دہشت گردی کی دفعات دیکھتے ہی سپریم کورٹ سےغیر مشروط معافی کی درخواست کی ہے ۔آئیے غور کرتے ہیں کہ اِس جے آئی ٹی کی حیثیت کیا تھی ۔یہ سپریم کورٹ کی ایک تحقیقاتی ٹیم تھی۔جو تین ججوں نے اپنے تیرہ سوالوں کے جواب تلاش کرنے کےلئے بنائی اور اُس میں اپنی پسند کےایسے آفیسر شامل کئے جو اپنے کام میں بہت اچھی شہرت کے حامل تھے ۔اُن کے خیال میں مقدمہ کی کارروائی میں پیش کئے جانے والے ثبوت اور وکیلوں کی بحث کسی نتیجے پر پہنچنے کےلئے کافی نہیں ۔سو سوال اور تفتیش کرنے کے تمام اختیارات انہیں سپریم کورٹ کی طرف سے ودیعت کر دئیے گئے ۔انہوں نے حکم کے مطابق تفتیش شروع کی اور ہر پندرہ دن کے بعد اپنی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرانے لگے ۔آخری رپورٹ آج یا کل جمع کرادی جائے گی یا کرادی گئی ہوگی۔اِس جے آئی ٹی پر بے شمار اعتراضات بھی کئے گئے ۔اسے متنازع بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔یہ سب کچھ بھی سپریم کورٹ کے سامنے رہا۔کچھ ایسی باتیں بھی سامنے آئیں جو توہین ِ عدالت کے زمرے میں آتی ہیں ۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ تینوں جج صاحبان اِس تحقیق و تفتیش کے بغیر بھی فیصلہ سنا سکتے تھے جس طرح دو جج سنا چکےہیں ۔مگر انہوں نے خوفناک حد تک تحقیقات کرائیں جس سے یہ لگ رہا ہے کہ شایدفیصلہ وزیر اعظم نواز شریف کے حق میں نہیں آرہا۔قطری شہزادے کا معاملہ ابھی تک کسی منطقی انجام تک نہیں پہنچا۔اُ س کے خیال میں اُس سےپاکستانی قوانین کے مطابق تفتیش نہیں کی جا سکتی ۔جے آئی ٹی کی ٹیم اُس کے محل میں آکر اُس کاانٹرویو کر سکتی ہے ۔گزشتہ روزوزیر اعظم نوازشریف کی طرف سے منی ٹریل کے طور پر نئے دو ثبوت جمع کرا ئےگئے جن میں ایک العزیزیہ اسٹیل کمپنی کادوکروڑ اور کچھ لاکھ دینار کا چیک ہے جو دوہزار پانچ میں دیا گیا تھااور دوسرا ثبوت الثانی خاندان کے ساتھ کاروباری شراکت کےکاغذات ہیں مگر اب مسئلہ یہ ہے کہ ان کی جانچ پڑتال کےلئے جے آئی ٹی کے پاس وقت نہیں ہے کیونکہ اُس بیچاری کی عمر پوری ہوچکی ہے ۔
یہ سوال اس وقت پوری قوم کے ذہن میں سلگ رہا ہے کہ اگر وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف فیصلہ آگیا تو اس کے بعد کیا ہوگا ۔کہیں جمہوریت کی چڑیا پھر اڑ تو نہیں جائے گی ۔اگرچہ وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے کہا کہ’’جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں ۔جمہوریت کی گاڑی شاندار سڑک پر چل رہی ہے کوئی بھی نہیں چا ہے گا کہ اس سڑک کو خراب کیا جائے یا گاڑی پٹری سے اتر جائے‘‘۔مگرنواز شریف ، مریم نواز ،خواجہ سعد رفیق ، طلال چوہدری ،اسحاق ڈار ،ایاز صادق اور حسن نواز مسلسل اپنے اپنے لفظوں میں جمہوریت کے خلاف کسی سازش کانقشہ کھینچ رہے ہیں ۔انہیں کسی غیر آئینی اسکرپٹ کاصریرِ خامہ سنائی دےرہا ہے ۔انہیں کوئی چور دروازے سے وزیر اعظم بنتاہوا نظر آرہا ہے ۔
شیخ رشید کا خیال ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف پانامہ کیس کے فیصلے سے کچھ دن پہلے اسمبلی توڑ دیں گے ۔اگرچہ اُن کی پیشن گوئیاں کافی عرصہ سے غلط ثابت ہو رہی ہیں مگراس کی تصدیق کچھ اور ذرائع سے بھی ہورہی ہے جو کہتے ہیں کہ وزیر اعظم نوازشریف ابھی تک اس موضوع پربات کرنے پر آمادہ نہیں کہ خدانخواستہ اگر ان کے خلاف فیصلہ آتا ہے تو ان کے بعد وزیر اعظم کسے بنایا جائے گا۔جب کہ وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور نون لیگ میں ان کے بعض قریبی لوگ یہ چاہتے ہیں کہ نواز شریف کی نااہلی کی صورت میں حمزہ شریف کو وزیر اعظم بنایا جائے ۔جے آئی ٹی میں پیش ہونے کے بعد وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے جو تقریر کی اسے سنتے ہی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نےشاید اِسی سلسلے میں شہباز شریف سے ایک تفصیلی ملاقات کی تھی ، آئندہ کے لائحہ عمل پر غور کیا تھا۔نون لیگ کے یہ دونوں اہم ترین لیڈر کسی صورت میں بھی سپریم کورٹ کے ساتھ ٹکرائو کی طرف نہیں جانا چاہتے ۔وہ کسی بھی ایسے اقدام کے حق میں نہیں جو جمہوریت کےلئے نقصان دہ ثابت ہو لیکن وزیر اعظم نواز شریف کی کچن کیبنٹ کچھ اور طے کر چکی ہے ۔وزیر اعظم ہائوس کے ترجمان آصف کرمانی نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اگر محترمہ جے آئی ٹی قطری شہزادے کے دربار میں حاضرنہ ہوئی تو پاکستانی قوم اس کی رپورٹ تسلیم نہیں کرے گی ۔یعنی اس رپورٹ کے نتیجے میں جو سپریم کورٹ کا فیصلہ آئے گا اسے نہیں مانے گی ۔
پانامہ پینک پورے ملک میں کسی وبا کی طرح پھیل چکاہے ۔لوگوں کو یہ دوسوال بہت تنگ کررہے ہیں کہ اگر سپریم کورٹ نے کہہ دیاکہ اربوں روپے کے شریف فیملی کے فلیٹس منی لانڈرنگ کی رقم سے خریدے گئے ہیں تو پھر کیا ہوگا ۔کیا برطانوی حکومت ان فلیٹس کو اپنی تحویل میں لے لے گئی ۔ کیا منی لانڈرنگ کے الزام میں شریف فیملی کے ارکان کو گرفتار کرلیا جائے گا۔خدانخواستہ ایسی کوئی بات ہوئی تو کیا نون لیگ کوئی ملک گیر احتجاج کرے گی کیا1998کی طرح نون لیگ کے لوگ پھر کسی اور لیگ میں سدھار جائیں گے ۔
یقینا یہ سلگتا ہوا سوال بھی زیر ِبحث ہے کہ اگر حکومت نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد سے انکار کردیا تو کیا ہوگا۔اسپیکر قومی اسمبلی سپریم کورٹ کے آرڈرز سے صرفِ نظر بھی کرسکتا ہے ۔اُس پر اپنی کوئی رولنگ دے سکتا ہے ۔اس حوالے سے قومی اسمبلی کوئی بل بھی پاس کرسکتی ہے ۔صدر ممنون حسین فوری طور پر اِس سزا کے خاتمہ کا فرمان بھی جاری کرسکتے ہیں ۔ایسی صورت میں یقینا جمہوریت خطرے میں پڑ جائے گی ۔جو لوگ جمہوریت کو خطرے میں دیکھ رہے ہیں ۔یقیناوہ ٹکرائوکی کسی ایسی صورت کی طرف قدم بڑھانے کاسوچ رہے ہیں مگروزیر اعلیٰ شہباز شریف نےواضح الفاظ میں کہا ہے کہ سپریم کورٹ کا جو بھی فیصلہ ہوگا وہ تسلیم کیا جائے گا۔ بہرحال ابھی تک یہ فیصلہ نہیں ہوسکا کہ مسلم لیگ نون کا اگلا وزیراعظم کون ہوگا۔

تازہ ترین