• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نوازشریف نے اسٹے مانگ لیا، نیب ریفرنسز کا حکم اختیارات سے تجاوز، نااہلی کیلئے الیکشن کمیشن کا اختیار استعمال کیاگیا

Todays Print

اسلام آباد (رپورٹ، رانا مسعود حسین، سہیل خان، ایجنسیاں) سابق وزیراعظم نوازشریف نےپاناما کیس کے28 جولائی کے فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ میں نظرثانی کی تین درخواستیں دائر کرتےہوئے اسٹے مانگ لیا۔ نواز شریف کی جانب سے 48؍صفحات پر مشتمل نظر ثانی اپیل ایڈووکیٹ خواجہ حارث نے جمع کروائی۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے نیب میں ریفرنسز کا حکم اختیارات سے تجاوز ہے، جبکہ نوازشریف کی نااہلی کیلئے الیکشن کمیشن کا اختیار استعمال کیا گیا ہے، جس بنیاد پر نواز شریف کو نااہل کیا گیا وہ کاغذات نامزدگی میں ظاہر کی گئی تھی، جے آئی ٹی کی تعریف سے منصفانہ ٹرائل کا حق متاثر ہوگا، درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ پاناما کیس میں نوازشریف کیخلاف عمران خان، سراج الحق اور شیخ رشید کی درخواستوں پر الگ الگ نظر ثانی کی جائے۔ نظر ثانی کی درخواست کے ساتھ ایک متفرق درخواست بھی دائر کی گئی ہے جس میں عدالتی فیصلہ پر عملدرآمد روکنے کیلئے حکم امتناع جاری کرنے کی استدعا کرتے ہوئے موقف اختیار کیا گیاہے کہ جب تک نظر ثانی کی درخواست کا فیصلہ نہیں ہوتا 28جولائی کے فیصلہ پر عملدرآمد روکا جائے۔

درخواست میں نواز شریف نے موقف اختیار کیا کہ فریقین کی جانب سے دائرکسی درخواست میں اقامہ کی بنیادپران کی ناہلیت کی استدعانہیں کی گئی تھی ،جس بنیادپرانہیں نااہل کیاگیا وہ درخواست میں شامل نہیں تھا،جبکہ اثاثے ظاہرنہ کرنے کے حوالے سے متعلقہ فورم موجودہے،اس کیس کا فیصلہ قانون کے خلاف اور حقائق کے منافی ہے جس میں کئی سقم موجود ہیں ، نیب ریفر نسزکاحکم اختیارات سے تجاوزہے ،اورنااہلی کیلئے الیکشن کمیشن کااختیاراستعمال کیاگیا،اس لئے اس پر نظر ثانی کرتے ہوئے اسے کالعدم قرار دیا جائے ، درخواست گزار و سابق وزیر اعظم نواز شریف نے منگل کے روز یہ درخواستیں خواجہ حارث احمد ایڈووکیٹ کے ذریعے دائر کی ہیں ، جن میں جماعت اسلامی کے امیر، سراج الحق ، وفاق پاکستا ن کو وزارت پارلیمانی امور کے ذریعے، کابینہ ڈویژن کو سیکرٹری کابینہ ڈویژن کے ذریعے اور سپیکر قومی اسمبلی کو فریق بناتے ہوئے فاضل عدالت سے ان درخواستوں کو سماعت کیلئے مقرر کرنے اور عدالت سے اپنے 28 جولائی کے فیصلے پر نظر ثانی کرنے کی استدعا کرتے ہوئے ان درخواستوں پرحتمی فیصلہ ہونے تک اس فیصلے پر عملدرآمد کو روکنے کا حکم جاری کرنے کی ا ستدعا کی ہے ، نظرثانی درخواست میں کہا گیا ہے کہ 28 جولائی کے فیصلے کو معطل کیا جائے کیونکہ درخواست گزار نوازشریف کا نظرثانی کا کیس مضبوط ہے۔

28جولائی کا فیصلہ 5 ججز نے جاری کیا حالانکہ پانچ رکنی بینچ کو اس فیصلے کا اختیار نہیں ، مختلف اوقات میں ان کیخلاف دائر کی گئی ان تینوں درخواستوں کو یکجا کرکے جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کی سربراہی میں قائم تین رکنی بنچ نے سماعت کی اور 20 اپریل کو 3/2کی اکثریت سے فیصلہ جاری کرتے ہوئے تینوں درخواستوں کو منظور کرلیا تھا ،یہ فیصلہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے تحریر کیا تھا جس میں آئین کے آرٹیکل 62(1)،عوامی نمائندگی ایکٹ 1976کی دفعہ 99(f)کے تحت درخواست گزار کو عوامی عہدہ کیلئے نااہل قرار دیتے ہوئے الیکشن کمیشن کو اس کی پارلیمنٹ کی رکنیت ختم کرنے کیلئے اسے ڈی نوٹیفائی کرنے کی ہدایت کی گئی تھی جبکہ نیب کو ہدایت کی گئی تھی کہ درخواست گزار اور دیگر متعلقہ افراد کے خلاف نیب آرڈیننس کی دفعہ 9کے تحت ریفرنسز قائم کرنے کی ہدایت کی تھی ،دیگر چار ججز میں سے صرف ایک جج، جسٹس گلزار احمد نے اس حکم کی تائید کی تھی( اور اس طرح ان دونوں فاضل ججز کی حد تک یہ فیصلہ حتمی شکل اختیار کرگیا تھا) جبکہ دیر تین ججز جسٹس اعجاز افضل خان ، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الاحسن نے اس فیصلے کی تائید کرنے کی بجائے ان الزامات کی جامع تحقیقات کیلئے جے آئی ٹی کی تشکیل کا حکم جاری کرتے ہوئے قرار دیا تھا کہ اگر جے آئی ٹی کی رپورٹ کی روشنی میں وزیر اعظم کی عوامی عہدہ سے نااہلیت کے معاملہ کا جائزہ لیا گیا تو اس صورت میں پہلے انہیں طلب کرکے ان پر جرح کی جائے گی،درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ جمع ہونے کے بعد دوبارہ پانچ رکنی بنچ تشکیل نہیں دیا گیا تھا جبکہ جے آئی ٹی کی تشکیل بھی درخواست گزار کے بنیادی حقوق اور شفاف ٹرائل کے قانون کی خلاف ورزی ہے، عدالت کے20 اپریل کا فیصلہ 28 جولائی کے فیصلے کا لازمی حصہ نہیں بن سکتا ،20 اپریل کے فیصلے کے بعد پانامہ کیس پر عمل درآمد کیس کیلئے تین رکنی بنچ تشکیل دیا گیا تھا،اختلافی نوٹ لکھنے والے دو فاضل ججز جسٹس آصف سعید خان کھوسہ اور جسٹس گلزار احمد کا عملدرآمد فیصلہ کے بنچ میں شامل ہونا قانون کے مطابق نہیں ،ریکارڈ سے ثابت ہوتا ہے کہ جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ مکمل نہیں کی،اس کی جانب سے مکمل طور پر رپورٹ جمع کرانے کے بعدہی عدالتی فیصلہ سنایا جاسکتا تھا ،لیکن اس کے باوجودفیصلہ سنایا گیا، درخواست گزار نے کہا ہے کہ 28 جولائی کے فیصلے میں بہت ساری خامیاں ہیں،فاضل عدالت نے اپنے فیصلے میں نگران جج مقرر کرنے کا حکم جاری کیا ہے حالانکہ آئین اعلیٰ عدالتوں کو ماتحت عدالتوں کی سماعتوں کی نگرانی کرنے کی اجازت نہیں دیتا ۔

نیب عدالتوں کی نگرانی کرنا سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا ،احتساب عدالت کی کارروا ئیوں کیلئے نگران جج کی تقرر ی آئین کے آرٹیکل4,75,125اور10اے کی خلاف ورزی ہے جبکہ احتساب عدالت کو چھ ماہ کے اندر درخواست گزار اور اس کے بچوں کیخلاف دائر کئے گئے ر یفرنسزپر فیصلہ جاری کرنے کا حکم بھی کیس پر اثر انداز ہونے کے مترادف ہے،تحقیقات مکمل ہونے کے بعد بھی عدالت کی جانب سے جے آئی ٹی ارکان کی تقرری و تبادلہ کی عدالتی نگرانی بھی قانونی حیثیت کی حامل نہیں،تقرری و تبادلہ سے متعلق جاری کئے گئے عدالتی احکامات سے یہ تاثر ملتا ہے کہ جیسے درخواست گزار ان کے خلاف ہے، نگران جج کی تعیناتی سے عدالت کاکردارشکایت کنندہ کالگتاہے،جے آئی ٹی کے تعریف کرنے سے منصفانہ ٹرائل کاحق متاثرہوگا،درخواست گزار نے مزید کہا ہے کہ عدالت کے 20 اپریل کے فیصلہ میںلکھا گیا تھا کہ اگر جے آئی ٹی کی رپورٹ کی روشنی میں وزیر اعظم کی عوامی عہدہ سے نااہلیت کے معاملہ کا جائزہ لیا جائے گا تو، اس صورت میں پہلے انہیں طلب کرکے ان پر جرح کی جائے گی، لیکن اس حکم کے برخلاف درخواست گزار کی نااہلیت کے معاملے پر وضاحت یاجواب جمع کرانے کیلئے اسے عدالت میں طلب نہیں کیاگیا ۔

درخواست گزار نےکہاکہ انکم ٹیکس قوانین کے مطابق ایسی تنخواہ جو کبھی وصول ہی نہ کی گئی ہو کو اثاثوں کا حصہ قرار نہیں دیا جاسکتا ، عوامی نمائندگی ایکٹ کے تحت صرف وہی اثاثے ظاہر کرنا ہوتے ہیں جو امیدوار کے قبضے میں ہوں،انکم ٹیکس آرڈیننس کے مطابق تنخواہ کامطلب یہ ہوتاہے کہ کوئی ملازم تنخواہ وصول کرے، کاغذات نامزدگی میں غیروصول شدہ تنخواہ پر امیدوار کو آئین کے آرٹیکل 62(1) اورعوامی نمائندگی ایکٹ 1976کی دفعہ 99(f)کے تحت نااہل نہیں کیا جا سکتا ،درخواستوں میںکہاگیاہے کہ جسٹس اعجازافضل نے قراردیاتھاکہ نوازشریف نے 2013کے الیکشن کے دوران کاغذات نامزدگی جمع کراتے وقت عوامی نمائندگی ایکٹ کے تحت ایف زیڈ ای سے غیروصول شدہ تنخواہ ظاہرنہیں کی ، وہ سیکشن 99(1)ایف کے تحت ایماندارنہیں رہے اسلئے انہیں نااہل قراردیا جاتا ہے، درخواست گزارنے کہاکہ لفظ اثاثے کی تعریف عوامی نمائندگی ایکٹ میں نہیں کی گئی اور نوازشریف نے نہ کبھی تنخواہ لی نہ کبھی اس کے دعوے دار بنے اس لئے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ انہوں نے کاغذات نامزدگی میں کوئی چیز چھپائی۔

درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ کاغذات نامزدگی میں غیروصول شدہ تنخواہ پر امیدوار کو آئین کے آرٹیکل 62 کے سیکشن ایف ون کے تحت نااہل نہیں کیا جا سکتا کیونکہ کسی بھی فیصلے سے قبل یہ جاننا ضروری ہوتا ہے کہ اگر کوئی غلطی کی گئی ہے وہ دانستہ طور پر کی گئی ہے یا غیردانستہ طور پر۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ قابل وصول تنخواہ اثاثہ ہونے کے حوالے سے یہ اپنی نوعیت کا پہلا کیس ہے جبکہ نوازشریف کے ساتھ کسی بھی قسم کی بددیانتی منسوب نہیں کی جا سکتی۔ نوازشریف کو بھی ملک کے دوسرے شہریوں کی طرح بنیادی حقوق کا تحفظ حاصل ہے۔

درخواست میںمزیدکہاگیاہے کہ نوازشر یف کوفیئرٹرائل کے بغیرنااہل نہیں کیاجاسکتا، نظرثانی کی اپیل کا حتمی فیصلہ آنے تک عدالتی حکم پر نظرثانی روکی جائے، درخواست گزار نے کہا ہے کہ اس مقدمہ کے تین درخواست گزاروں میں سے کسی ایک کی بھی آئینی درخواست میں درخواست گزار( نواز شریف ) کی اُس بنیاد پر نااہلیت کی استدعا نہیں کی گئی تھی جس پر عدالت نے اسے نااہل قرار دیا ہے ، کسی بھی درخواست گزار نے ایف زیڈ ای کمپنی سے متعلق نہ تو درخواست دی تھی اور نہ ہی کوئی استدعا کی تھی جبکہ فاضل عدالت نے بھی نے ایف زیڈ ای کمپنی کے حوالے سے نااہل قرار دینے سے قبل کوئی نوٹس بھی جاری نہیں کیا، درخواست میں کہا گیا ہے کہ عدالت کا فیصلہ بظاہر غلط ریکارڈ پر دیا گیا ہے کیونکہ عدالت اپنے فیصلوں میں قرار دے چکی ہے کہ اعترافی بیان مکمل طور پر منظور یا مسترد ہو گا جبکہ باقاعدہ ٹرائل کے بغیر آرٹیکل 62-1/F کے تحت نااہلی نہیں ہو سکتی، عدالت کو بتایا گیا کہ انکم ٹیکس آرڈیننس کے سیکشن 12(2) میں تنخواہ کی تاریخ موجود ہے جس میں کہا گیا ہے کہ صرف وصول کی گئی رقم ہی تنخواہ کہلائے گی۔

درخواست میں کہاگیا ہے کہ بلیک لاء ڈکشنری میں اثاثہ جات کی تعریف شامل نہیں اور عدالت عظمیٰ اپنے فیصلوں میں اراکین کی نااہلی کو ٹھوس شواہد سے مشروط کر چکی ہے، دوسری جانب درخواست گزار نے عدالتی فیصلے کے پیرا گرا ف نمبر 6 کو حذف کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا ہے کہ نیب کو ریفرنس دائر کرنے کا حکم دینا بھی عدالتی اختیارات سے تجاوز ہے،درخواست گزار نے موقف اختیار کیا ہے کہ فاضل عدالت نے اپنے فیصلے میں حقائق کو مدنظر نہیں رکھا جبکہ اس پانچ رکنی بینچ کو اس فیصلے کا اختیار ہی نہیں تھا، آرٹیکل 62 (1)کے تحت اس کی نااہلیت قوانین اور فیئر ٹرائل کے بنیادی حق کے منافی ہے جبکہ اپیل کا حق نہ دینا بھی آرٹیکل 10 اے کی خلاف وزری ہے،اس لئے استدعا ہے کہ پانچ رکنی بینچ کی جانب سے درخواست گزار کو نااہل قرار دینے اور ان کے اوردیگر افراد کے خلاف نیب میں ریفرنسز دائر کرنے کے حکم کو کالعدم قرار دیا جائے۔

درخواست میں عدالت سے یہ استدعا بھی کی گئی ہے کہ جب تک نظرثانی کی درخوا ستوں کا فیصلہ نہ ہوجائے اس وقت تک اس فیصلے پر عملدرآمد کو روکنے کا حکم بھی جا ری کیا جائے، درخواست گزار نے یہ استدعا بھی کی ہے کہ پانامہ لیکس کے حوالے سے دائر کی گئی عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید، تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کی درخواستوں پر الگ الگ نظر ثانی کی جائے،اور جب تک نظرِثانی کی درخواستوں پر فیصلہ نہیں کیا جاتا اس وقت تک پانچ رکنی بینچ کے فیصلے پر عملدرآمد روک دیا جائے۔دوسری جانب ذرائع کے مطابق سابق وزیر اعظم نواز شریف کے بچوں حسین نواز ،حسن نواز اور مریم نواز نے بھی پانامہ فیصلے کی مصدقہ نقول کیلئے درخوا ستیں جمع کروادی ہیں۔

تازہ ترین