• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایوان اقبال لاہور کے وکلاء جلسہ میں سابق ’’منتخب وزیراعظم نواز شریف‘‘ نے بارہ سوالات اٹھائے، جناب نواز شریف کو ان ’’دنوں نا اہل وزیراعظم‘‘ کہا جاتا ہے۔ عدالت عظمیٰ اور عوام کے مابین اس فیصلے نے سوچ کا بحران اور ضمیر کی کشمکش کو جنم دے دیا جس کے باعث کالم نگار ان کیلئے ’’منتخب وزیراعظم‘‘ کی وہ آئینی اصطلاح استعمال کرتا ہے جس کا حق 20کروڑ عوام نے اپنے ووٹوں سے انہیں تفویض کیا، کم از کم جناب نواز شریف کے آئینی مقام و مرتبہ کے ایک پہلو میں کسی قسم کا کنفیوژن پیدا نہیں ہوتا اور گفتگو کا تسلسل آسانی سے جاری رہ سکتا ہے۔
تو وکلاء کے اس جلسے میں سابق منتخب وزیراعظم جناب نواز شریف نے 12سوال اٹھائے، محاورے کی زبان میں جواباً انہیں ملک میں ایسے 1200سوال سننے پڑ سکتے ہیں۔ انہیں عوام کے ووٹ کی حرمت کے باعث یہ بارہ سوالات اٹھانے کا بنیادی حق حاصل ہے۔ 1973کے آئین کی رو سے ریاست پاکستان بنیادی حقوق کے اس حق کی محافظ اور نگہبان ہے، بعینہٖ قوم کو قومی سطح پر ایسے ’’1200‘‘ سوالات پوچھنے کا بھی مکمل استحقاق ہے، کیوں؟ کیونکہ وہ پاکستانی عوام کی اکثریت کے حوالے سے ملک کے ’’منتخب وزیراعظم‘‘ ہی نہیں’’منتخب رہنما‘‘ بھی ہیں۔ ان سوالوں نے پاکستان کے عوام کا دامن تار تار کر رکھا ہے۔ وہ یہ باتیں جب بھی موقع ملا اپنے منتخب رہنمائوں سے پوچھتے رہے، انہوں نے جواب بھی دیئے مگر ان جوابات میں ادھورے پن کی شق مستقل شامل ہوتی، پاکستانی قوم یہی تجربہ اپنے موجودہ ’’منتخب وزیراعظم‘‘ پر دوہرانا چاہتی ہے، جواب کا انتظار کیا جانا چاہئے۔
جناب نواز شریف نے وکلا کے اس جلسے میں مندرجہ ذیل 12سوالات اٹھائے، ملاحظہ فرمایئے!
(1) آج تک کبھی ایسا ہوا کہ واٹس ایپ کال کے پراسرار طریقے سے تفتیش کرنے والوں کا انتخاب کیا گیا ہو؟
(2) آج تک اس قسم کے الزامات کی تحقیق کے لئے اسی طرح کی جے آئی ٹی تشکیل دی گئی؟
(3) قومی سلامتی اور دہشت گردی سے ہٹ کر کسی معاملے کی تحقیق کے لئے خفیہ ایجنسیوں کو ذمہ داری سونپی گئی؟
(4) کبھی سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے ایسی جے آئی کی ٹی کی ہمہ وقت نگرانی کی ہے؟
(5) کیا کوئی عدالت واضح ملکی قوانین نظر انداز کر کے مطلب کے معنی تلاش کرنے کے لئے کسی ڈکشنری کا سہارا لے سکتی ہے؟
(6) کسی بھی درخواست گزار نے دبئی کی کمپنی اور میری تنخواہ پر نا اہلی کی استدعا کی تھی؟
(7) کیا ہماری 70سالہ تاریخ میں کبھی ایک مقدمے میں چار فیصلے سامنے آئے؟
(8) کیا کبھی دو جج صاحبان پھر سے حتمی فیصلے والے بنچ میں شامل ہو سکتے ہیں جو پہلے ہی اپنا فیصلہ دے چکے ہوں؟
(9) کیا ان جج صاحبان کو فیصلہ دینے کا حق تھا جنہوں نے جے آئی ٹی رپورٹ دیکھی نہ بحث سنی اور نہ سماعت میں شریک ہوئے؟
(10)کیا عدالتی تاریخ میں ایسا ہوا کہ نیب کی کارروائی اور ٹرائل کورٹ کی نگرانی کیلئے عدالت کا جج مقرر کر دیا گیا ہو جو پہلے ہی مخالفت میں فیصلہ دے چکا ہو؟
(11) سپریم کورٹ کے جج کی مانیٹرنگ میں ٹرائل کورٹ کا جج آزادانہ کام کر سکتا ہے اور کیا یہ معاملہ عدلیہ کی آزادی کے اصول کے مطابق ہے؟
(12) کیا نیب کو اپنے قواعد و ضوابط سے ہٹ کر کام کرنے کے لئے کوئی عدالتی ہدایت دی جا سکتی ہے؟
پاکستان کے ’’سابق منتخب وزیراعظم‘‘ جناب نواز شریف کو ان استفسارات کا جواب ملتا ہے یا نہیں یہ اپنے وقت پر پتہ چل جائے گا، یقیناً ان دنوں ایسا لمحہ قطعی فاصلے پر نہیں مگر ہمارے 1200سوالوں کو منتخب وزیراعظم ان 12سوالات کے ساتھ ملالیں، قومی حلقوں کی جانب سے ان کا جواب آنا چاہئے؟ کالم نگار نے یہ سوالات قومی پریس اور پاکستانی تاریخ میں شائع شدہ مواد سے اخذ کئے ہیں۔ ’’1200‘‘ سے مراد متعدد سوالات کی وزنی بوچھاڑ ہے، قارئین کو ابہام دور رکھنے کیلئے یہ وضاحت ناگزیر تھی آیئے اب یہ متعدد سوال شروع کرتے ہیں۔
(1) لیاقت علی خان کے قتل کی سازش میں کون کون شامل تھا؟
(2) جو طیارہ ان کے کیس کا بھاری مواد لے کر کراچی جا رہا تھا وہ اچانک فضا میں کریش کیوں ہو گیا؟
(3) 1953میں گورنر جنرل غلام محمد کے ہاتھوں وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کو کیوں نکلوایا گیا؟ تفصیلات میں آخری سرا کہاں جاتا ہے؟
(4) محمد علی بوگرہ سے بزور طاقت اسمبلی کیوں تڑوائی گئی؟ ملکی صورتحال میں عام و خاص کے نزدیک ایسے ’’مرکزی طاقتور‘‘ کون تھے؟
(5) چودھری محمد علی سے ان کی تمام تر احتیاط کے باوجود کیوں قبل از وقت جان چھڑوائی گئی؟ وطن کی فضائوں میں عوامی نظر کن لوگوں کا مشاہدہ کر رہی تھی؟
(6) سہروردی سے 1957ء میں زبردستی استعفیٰ کون لے سکتا تھا اور کن لوگوں کے پاس ایسے غیر آئینی حربوں کی طاقت تھی؟
(7) ملک فیروز خان نون بطور وزیراعظم 1958 میں تشریف لائے، انہوں نے فروری 1959ء میں پہلے عام قومی انتخابات کے انعقاد کا اعلان کیا، انتخابات کی تاریخ آنے سے پہلے کس نے مارشل لا لگا کر اس وزیراعظم کو بھی گھر کی راہ دکھائی؟
(8) مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں ’’حمود الرحمٰن کمیشن‘‘ جیسا کیسا بھی تھا، مجموعی لحاظ سے ریاست کے کن افراد یا ادارے کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا؟
(9) منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت اور ان کی ذات کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ پاکستان کی تاریخ میں کس قبیلے سے وابستہ ہے؟ اور کون اس کا حقیقتاً قصور وار ہے؟
(10) محمد خان جونیجو کو کس ’’جرم‘‘ کی پاداش میں وزارت عظمیٰ سے برطرف کیا گیا؟
(11) دو دفعہ بی بی شہید اور دو دفعہ نواز شریف کی منتخب حکومتوں کی برطرفی کا مرکزی کردار کس طبقے نے ادا کیا؟
(12) جنرل مشرف کو عدالتی سماعت سے اچانک فوجی اسپتال کس کی ’’زور آوری‘‘ سے منتقل کیا گیا؟
(13) کارکل کی المناک کہانی کے پیچھے حقیقی چہرہ کس کا ہے؟ اس چہرے کی نشاندہی کیوں نہیں ہو پا رہی؟
’’منتخب وزیراعظم ‘‘کو ابھی دسیوں بلکہ بیسیوں سوالوں سے آگاہ کیا جا سکتا ہے، وہ قومی حلقوں کے ساتھ مل کر ان تمام کا جواب دینے کی کوشش کریں۔ گزرے 70برسوں کی تاریخ کے حوالے سے ان کا عوام کی عدالت میں یہ اعلان ہمیشہ کے لئے لکھا جا چکا جس کے مطابق ’’نواز شریف کے ساتھ تو نہیں بنی لیکن پاکستان کے اٹھارہ کے اٹھارہ وزرائے اعظم میں سے ’’تمہاری‘‘
کس کے ساتھ بنی؟‘‘
’’منتخب وزیراعظم‘‘ جناب نواز شریف کے تناظر میں قومی معاملات 70برسوں کی مکمل تاریخ کے عین مطابق ہیں، 20,19کا فرق نہیں 99فیصد کی یکسانیت کو سامنے رکھنا چاہئے، 20,19کے فرق کو 99فیصد پر حاوی کرنے کی منظر کشی ان فتنہ گروں کا کام رہا اور کام ہے جس کے وجود سے ریاست، صحافت، وکالت اور عدالت کوئی بھی خالی ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتی۔
چنانچہ ’’منتخب وزیراعظم‘‘ جناب نواز شریف کے پس منظر میں چکری کے راجپوت چودھری نثار علی خاں کی شخصیت، ناراضگی اور اختلاف کو بہت باریک بینی سے ان کی معلومات اور سیاسی قابلیت کے وزن تلے لا کر ایک بیانیہ تشکیل دیا جاتا ہے، ریکارڈ کی روشنی میں یہ الٹی گنتی کے مترادف ہے، ہرگز یہ شخصیات تاریخ کے پلڑوں میں موجود نہ سمجھ آنے والے اشاروں سے الگ کر کے نہیں دیکھی جا سکتیں، برائے مہربانی چودھری صاحب کو 70برسوں کی سیاسی روایت کے متنازع فریم میں رکھ کر دیکھنے اور تولنے کی سردردی مول لیں، کسی سنسنی خیزی سے متاثر ہونے کا مطلب چودھری صاحب کے ساتھ بھی زیادتی ہو گی انہیں سیاسی عظمت کے بوجھ تلے لا کر ناقابل قبول آزمائش کے سپرد نہ کریں گفتگو جاری رہے گی۔

تازہ ترین