• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کیا وجہ ہے کہ زندگی میں کامیابی کا جو طریقہ کار کچھ لوگ اپناتے ہیں وہی فارمولا اُن جیسے بعض اور لوگ بھی اپناتے ہیں مگر کامیاب نہیں ہو پاتے !
آپ سو میٹر دوڑ میں دو لوگوں کو ایک ہی نشان پر کھڑا کر دیں ، دونوں کی عمریں ،قد کاٹھ ، جسامت وغیرہ سب برابر ہوں ، دونوں کا تعلق ایک ہی خطے سے ہو ، دونوں ایک ہی قسم کی خوراک کھا کر جوان ہوئے ہوں، دونوں کے خاندان کا سماجی پس منظر بھی تقریباً ایک جیسا ہو،دونوں نے دوڑ جیتنے کے لئے یکساں محنت کی ہو اور دونوں اُس روز ذہنی اور جسمانی طور پر مکمل چاق و چوبند ہوں تو ظاہر ہے کہ دونوں میں سے کسی کی بھی جیت کے بارے میں حتمی پشین گوئی نہیں کی جا سکتی، جس کی قسمت اچھی ہوگی وہ جیت جائے گا۔مگر یہی دوڑ آپ دو ایسے نوجوانوں کے درمیان کروائیں جن میں سے ایک لاغر اور دوسرا تنومند ہو اور لاغر شخص کو تنومند سے بیس میٹر پیچھے کھڑا کرکے مقابلے کا آغاز کروائیں تو ایک بچہ بھی آپ کو اس دوڑ کا نتیجہ بتا دے گا۔ زندگی کا تماشا بھی یہی ہے۔ آسودہ حال لوگ جب اپنی کامیابی کا راز بتاتے ہیں تو طبیعت میں کمال بے نیازی پیدا کرتے ہوئے عموماً اس قسم کا جواب دیتے ہیں کہ وہ انتھک محنت ، ایمانداری ، جانفشانی ، ماں کی دعا ، روحانی تربیت اور عجز و انکساری کا محلول پی کر کامیاب ہوئے ہیں ۔ دلچسپ بات مگر یہ ہے کہ یہی محلول دوسرے لوگ بھی پیتے ہیں مگر کامیاب نہیں ہو پاتے۔ سو میٹر کی دوڑ میںشروعات کے نشان سے بیس میٹر پیچھے کھڑے لاغر نوجوان کی مثال ایسی ہی ہے کہ کوئی بچہ جھونپڑی میں پیدا ہو اور اسے کہا جائے کہ اگر تم محنت ،ایمانداری اور لگن سے کام کرو گے تو ایک دن بکنگھم پیلس کے مالک بن جاؤ گے ۔جھونپڑی میں پیدا ہونے والا بکنگھم پیلس کا مالک تو نہیں بن سکتا مگر غریب گھرانوں میں پیدا ہونے والے زندگی میں بہرحال عظیم کامیابیاں سمیٹ سکتے ہیں،جیسے حلیمہ یعقوب،ایک چوکیدار کی بیٹی جس کے باپ کا انتقال اُس وقت ہو گیا جب وہ آٹھ برس کی تھی، آج سنگا پور کی صدر ہے ۔اسی طرح بادشاہوں کے گھر میں پیدا ہونے والے بھی رسوا ہو سکتے ہیں جیسے مرزا جوان بخت ، بہادر شاہ ظفر کا بیٹا جس کی شادی شاہی کروفرسےہوئی مگر گمنامی کی موت رنگون میںہمارے اپنے ملک میں مسلسل محنت اور مستقل مزاجی سے کامیابی کی بلندیوں کو چھونے والے لوئر مڈل کلاس کے وہ لوگ بھی ہیں جنہوں نے ٹاٹ کے اسکولوں میں تعلیم پائی اور پھر اعلیٰ عدلیہ کے جج بنے ، وزیر بنے ، جرنیل بنے ، اسٹار صحافی بنے اور ارب پتی تاجر بنے اور ایسے لوگ بھی مل جائیں گے جنہوں نے چلتے ہوئے کاروبار تباہ کروا لئے یا پھر وراثت میں ملی سیاسی سلطنت کی لٹیا ڈبو دی ۔
مقدر کاسوال خاصا پیچیدہ ہے۔حلیمہ یعقوب جیسی لاکھوں کروڑوں عورتیں پیدا ہوتی ہیں مگراُن میں سے ہر کوئی حلیمہ جیسامقدر لے کر پیدا نہیں ہوتی،بیشتر کی زندگیاں خاک میں مل جاتی ہیںجیسے ممبئی ریلوے سٹیشن میں روزانہ ٹرین پکڑتی ہوئی ہزاروں عورتیں ،جودو وقت کی روٹی کی خاطر ایک دوسرے کو پاؤں تلے روندتے ہوئے ٹرین میں سوار ہوتی ہیں ، کوئی ٹرین کے پہیوں تلے آ کر کچلی جاتی ہے تو کوئی دم گھٹنے سے ، ہر سال سینکڑوں کی تعداد میں، کون سی محنت اور کون سی لگن کا سبق ان بیچاریوں کوپڑھایا جا سکتا ہے۔ہاں کوئی حلیمہ یعقوب اگر بن جائے گی تو ضرور بتائے گی کہ کیسے وہ روز و شب محنت کرتی تھی ، اس کی ماں کتنی عظیم عورت تھی ، وہ خود کتنی قابل تھی کہ ان حالات میں بھی قانون کی اعلیٰ تعلیم حاصل کر لی اور پھر ایک دن صدر بن گئی۔حلیمہ کی قابلیت اور محنت کا اعتراف کرنے میں ہمیں کوئی تامل نہیں ہونا چاہئے ، میرا سوال تو فقط یہ ہے کہ ایسی ہی قابلیت ، محنت اور ذہانت لاکھوں عورتوں میں ہوتی ہو گی مگر کوئی بیچاری سنگاپور کے شاپنگ مال میں پرفیوم بیچتی رہ جاتی ہے اور کوئی ممبئی کے ریلوے اسٹیشن میں بھگدڑمچنےسے کچلی جاتی ہے۔بالکل اسی طرح جیسے پاکستان میں وسیم اکرم ،وقار یونس اور شعیب اختر سے زیادہ تیز رفتار باؤلر پیدا ہوئے ہوں گے مگر گیارہ کھلاڑیوں کی ٹیم میں ان تین خوش نصیبوں کی جگہ ہی بن سکی، باقی ممکن ہے ٹرائل کے روز کسی بد نصیب سے گیندیں صحیح نہ پھینکی گئی ہوں یا کسی کا کندھا اتر گیا ہو یا پھر کوئی غریب قذافی اسٹیڈیم ہی نہ پہنچ پایا ہو۔
مقدر کے اس سارے کھیل کے پانچ اصول بنائے جا سکتے ہیں ۔پہلا، کامیابی کے لئے ذہین فطین یا انتھک محنتی ہونا ضروری نہیں، ثبوت کے لئے اپنے ارد گرد پھیلے کامیاب ڈنگر حضرات سے رجوع کریں ۔ دوسرا ، اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ کامیابی کے لئے محنت ، تعلیم ، لگن اور ایمانداری کو چھوڑ کر دو نمبر اصول اپنا لئے جائیں کیونکہ بہرحال یہ اصول زندگی میں فائدہ دیتے ہیں ،نقصان نہیں۔تیسرا ، سارا کھیل چاہے مقدر کا ہی کیوں نہ ہو،تن بہ تقدیر ہو کر بیٹھنا بہرحال سراسر حماقت ہے ، حلیمہ یعقوب اگر یہ سوچ کر گھر بیٹھ جاتی کہ جو تقدیر میں ہوگا مل جائے گا تو بہرحال وہ صدر نہ بن پاتی۔چوتھا، اُس پیدائشی نحوست اور ازلی بد قسمتی کا کوئی علاج نہیں جس میں کوئی بچہ ایتھوپیا کے قحط کے زمانے میں پیدا ہوا ، کوئی غلام فرعون کے دربار میں پیدا ہوایا کوئی اُن چھ کروڑ لوگوں میں پیدا ہوا جو دوسری جنگ عظیم کی بربریت کی بھینٹ چڑھ گئے۔ پانچواں،مقدر سے لڑا نہیں جا سکتا ہے مگر اسے ’’ڈاج‘‘ دینے کی کوشش ضرور کی جا سکتی ہے۔مثلاً اپنی زندگی میں اُن عوامل کا جائزہ لیں جن کی وجہ سے ہم ناکام ہوتے ہیں اور پھر خود کو اُن عوامل سے دور رکھنے کی کوشش کریں ، یہ خاصا مشکل کام ہے اور اس کے لئے مکمل ایمانداری سے اپنا کڑا احتساب کرنا پڑتا ہے ،یہ ہر کوئی نہیں کر سکتا ، اپنا بے رحمانہ احتساب (گو کہ لفظ بے رحمانہ اور احتساب اکٹھے نہیں لکھنے چاہیں ) کرکے ہی ہم اس نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں کہ ہماری ناکامی کا سبب کیا ہے اور پھر اُس کا عقلی حل تلاش کرکے تقدیر کا دائرہ کار اپنی زندگی سے محدود کرنے کی کوشش کریں ، یہ کام سننے میں جتنا مشکل ہے ، کرنے میں اِس سے بھی زیادہ مشکل ہے ۔
اچھی قسمت دراصل صحیح وقت پر صحیح کام کا مکمل ہونا ہے اور بری قسمت اس کا الٹ، وہ مغل بادشاہ جو بغل میں دو غلاموں کو لے کر لاہور کے شاہی قلعے کی فصیل پر دوڑ لگایا کرتا تھا ،اگر آج زندہ ہوتا تو زیادہ سے زیادہ گوجرانوالہ کے کسی اکھاڑے کا پہلوان ہوتا،واجد علی شاہ اگر اپنی پیدائش کے سو برس بعد پیدا ہوتا تو اپنے تخت و تاج پر ماتم کرنے کی بجائے بالی وڈ کا بے تاج بادشاہ ہوتااور جارج بش اگر اپنے باپ سینئر بش کی اولاد نہ ہوا تو زیادہ سے زیادہ کسی تھیٹر میں جوکر ہوتا۔کھیڈ مقدراں دی۔(سب کھیل مقدر کا ہے )یہ بات اکثر رکشوں کے پیچھے لکھی ہوتی ہے ، ایک دفعہ میں نے ایسے ہی کسی رکشے والے سے اس قول زریں کو پینٹ کروانے کی وجہ پوچھی تو بولا صاحب میں تو خلا باز بننا چاہتا تھا مگر رکشہ ڈرائیور بن گیااس لئے کھیڈ مقدراں دی۔حالانکہ وہ خلا باز ہی تھا کیونکہ اپنے رکشے کو وہ راکٹ کی طرح ہی چلا رہا تھا۔
کالم کی دُم:کامیابی اور عظمت میں فرق ہے، برگر کے کھوکے سے ہوٹل کھڑا کرنے والا کروڑ پتی کامیاب ضرور ہو سکتا ہے مگر ضروری نہیں کہ عظیم بھی ہو۔ کامیابی اور عظمت میں کیا فرق ہے ؟یہ بات پھر کبھی۔

تازہ ترین