• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حلف نامہ، تبدیلی ایک یا چند لوگ کرتے تو ریکارڈ کا حصہ ہوتا

Todays Print

اسلام آباد ( تجزیاتی رپورٹ / طاہر خلیل)الیکشن ایکٹ 2017میں انتخابی امیدوار کےلئے حلف نامے میں الفاظ کی تبدیلی سے جو ہیجانی کیفیت پیدا ہوئی تو کچھ حلقوں نے اسے بین الاقوامی سازش اور ریشہ دوانیوں کے سلسلے تک پھیلا دیا۔ ہر ذی شعور شہری اس رائے سے متفق ہے کہ مذہبی معاملات کو سیاسی نعروں کے طور پر استعمال نہیں ہونا چاہیے ۔ اور تمام معاملات آئین ، قانون اور ضابطے کے مطابق حل ہونا چاہیں ، معاملہ جو کاغذات نامزدگی فارم میں ترمیم سے شروع ہوا اس نے پاکستان کی سیاسی دانش کےلئے کئی چیلنجز پیدا کر دیئے ۔ جس میں تدبر و فراست ، حکمت و بصیرت اور دور اندیشی کی بجائے وقتی مفاد ، سیاسی خود غرضی ، اور عاجلانہ فیصلوں نے نہ صرف سیاسی اور جمہوری نظام کو کمزور کیا۔ بلکہ بے بنیاد پراپیگنڈے کی بنیاد پر منفی سیاست کو فروغ دیا۔ الیکشن ایکٹ 2017میں انتخابی امیدوار کے حلف نامے میں الفاظ کی تبدیلی کے تنازع کے ضمن میں حقائق کی تلاش کےلئے جب پارلیمانی ریکارڈ کا جائزہ لیاگیا جو متعلقہ پارلیمانی کمیٹی کے ہر رکن کے پاس دستیاب ہے تو جھوٹ اور سچ میں فرق نمایاں ہوگیا۔ بات محض سمجھنے کی ہے ۔کاغذات نامزدگی کےلئے چار طرح کے فارمز ہوتے ہیں ۔ فارم نمبر 9جنرل سیٹس کےلئے ، 9اے مینارٹی ، 9۔بی خواتین کی مخصوص نشستوں اور فارم نمبر20سینیٹ کے امیدواروں کےلئے مختص کئے جاتے ہیں۔ الیکشن ایکٹ 2017کا مقصد انتخابات سے متعلق 9قوانین کو مربوط اور آسان کرکے یکجا کرنا تھا ۔ 16مئی 2017کو الیکٹورل ریفارمز مرکزی کمیٹی کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ کاغذات نامزدگی فارم 9الیکشن ایکٹ کا حصہ بنایا جائے گا۔ قبل ازیں یہ الیکشن کمیشن رولز کا حصہ تھا۔ الیکشن کمیشن نے اس حوالے سے لامنسٹری کو خط بھی لکھا تھا کہ کاغذات نامزدگی فارمز میں ردوبدل الیکشن رولز کے تحت الیکشن کمیشن کا اختیار ہے ، لیکن الیکشن کمیشن کے موقف کو قبول نہیں کیا گیا ۔ریکارڈ کے مطابق 17مئی 2017کو اس وقت کے لا منسٹر زاہد حامد کی زیر صدارت انتخابی اصلاحات کی سب کمیٹی کا اجلاس ہوا اس میں فارم 9پر بحث ہوئی اور جو فیصلے ہوئے وہ ریکارڈ کا حصہ بنے۔ فارم کے اندر متعدد ایسی شقیں موجود تھیں جو آئین کے آرٹیکل 62اور 63کے سکوپ سے باہر تھیں ۔ ان میں سے کئی شقیں غیر جمہوری حکمرانی دور میں شامل کی گئی تھیںمثلاًامیدوار وں سے پوچھا گیا کہ انہوں نے کتنے غیر ملکی سفر کئے ۔ تمام یوٹیلیٹی بلز ادا کردیئے یا نہیں ، ان کے خلاف کریمنل کیسز ہیں ، اپنے حلقے میں بطور ممبر ماضی میں کیا قابل ذکر ترقیاتی کام کیے ، کتنا زرعی ٹیکس ادا کیا وغیرہ اور اس قسم کے کئی غیر متعلقہ سوالات تھے اور یہ شق بھی شامل تھی کہ اگر کوئی جواب درست نہ ہوا تو الیکشن کالعدم قرار دے دیا جائے گا، اور ان تمام کا آرٹیکل 62اور 63سے تعلق نہیں بنتا تھا ۔ ممبران کی طرف سے استدلال دیا گیا کہ یاتو آرٹیکل 62، 63کی سار ی شقیں شامل کر دی جائیں یا پھر ارکان کو سارے آئین پر عمل درآمد کرنے کا پابند بنانے کی شق شامل کر دی جائے ۔ لیکن صرف چند مخصوص شقیں شامل کرنے سے ابہام پیدا ہوتا ہے ، ممبران کا یہ بھی اعتراض یہ تھا کہ کاغذات نامزدگی فارم میں امیدواروں کی اہلیت نا اہلیت کےلئے جو شقیں باہر کے دروازے سے شامل کی گئیں انہیں ختم کر دیا جائے ۔ ریکارڈ کے مطابق سب کمیٹی کی 89ویں میٹنگ 18مئی 2017کو ہوئی ۔ جس میں فارم 9-Aاور 9-Bزیر غور لائے گئے ۔ اور 23مئی 2017کے اجلاس میں سینیٹ امیدواروں کافارم نمبر 20زیر بحث آیا۔ اجلاس میں کہا گیا کہ سینیٹ امیدواروں کا فارم بھی قومی اسمبلی امیدواروں کے فارم کی طرز پربنا دیا جائے ۔ فارم 9،9اے،9بی اور 20کو پوری سب کمیٹی کے اندر زیر بحث لایاگیا ۔ پارلیمانی کمیٹی کے چند ارکان یا کسی ایک رکن کو ان فارمز کے مسودے کی تیاری کے ذے داری نہیں سونپی گئی تھی ۔ بلکہ امیدواروں کے کاغذات نامزدگی فارمز پوری سب کمیٹی کے اندر ڈسکس کئے گئے۔ سب کمیٹی کے 93ویں اجلاس میں جو 13جون2017کو ہوا یہ سب کمیٹی کا آخری اجلاس تھا ۔ 16رکنی سب کمیٹی میں پی پی پی ، مسلم لیگ (ن)، تحریک انصاف ، جماعت اسلامی ، ایم کیوایم ، جے یو آئی (ف) سمیت دیگر جماعتوں کے اراکین موجود تھے ۔ سب کمیٹی کے ایک اجلاس میں امیدواروں کے انتخابی اخراجات اور سیاسی جماعتوں کی سالانہ آمدنی و اخراجات کے معاملات زیر غور آئے تھے۔کیونکہ سب کمیٹی میں رائے تھی کہ امیدواروں کے انتخابی اخراجات اور سیاسی جماعتوں کے اخراجات وغیرہ کو نئے قانون کے مسودے کی روشنی میں دیکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ نئے قانون کے تحت انتخابی اخراجات میں معمولی غلطی بھی اس کی نا اہلیت کا سبب بن سکتی ہے اس لئے الیکشن اخراجات اور سیاسی جماعتوں کے اخراجات سے متعلق فارم 23-A ،27، 27C کی ری ڈرافٹنگ کا فیصلہ کیا گیا ۔ اس کےلئے سب کمیٹی نے ایک 3رکنی گروپ قائم کیا ۔ جس میں انوشہ رحمان ، شفقت محمود اور ایس اے قادری شامل تھے۔ تاہم یہ واضح ہے کہ 3رکنی پارلیمانی گروپ کو کاغذات نامزدگی کےلئے مختص فارمز 9،9اے،9بی اور 20 کےجائزے اور نظرثانی کا کام کبھی نہیں سونپا گیا۔پارلیمانی سب کمیٹی کی 91ویں میٹنگ میں فارمز 23، 27 اور 27C جائزے کےلئے پیش ہوئے اور31مئی 2017کو سب کمیٹی کا 92واں اجلاس ہوا اس میں مذکورہ ،تینوں فارمز 23، 27 اور 27C کی منظوری دی گئی ۔ اور سب کمیٹی کے کنونیئر زاہد حامد کے سپر د کر دیئے گئے ۔ اس طرح 3 رکنی پارلیمانی گروپ کا کام مکمل ہوگیا ۔ ریکارڈ سے واضح ہوتا ہے کہ امیدواروں کے کاغذات نامزدگی فارمز کی پارلیمانی کمیٹی کے ایک رکن یا چند ارکان نے ری ڈرافٹنگ نہیں کی تھی ۔ بلکہ پارلیمانی سب کمیٹی نے جو 16ارکان پر مشتمل تھی کاغذات نامزدگی فارمز پر چار مختلف میٹنگز کے دوران غور کرکے سفارشات پیش کی تھیں اور اس کے نیتجے میں تیار ہونے والا نیا فارم سب کمیٹی کے 93ویں اجلاس میں پیش کر دیا گیا ۔پارلیمانی سب کمیٹی نے اپنے 93ویں اجلاس میں اس پرغور کرکے الیکشن بل 2017کا ڈرافٹ مرکزی کمیٹی کو بھیج دیا ریکارڈ کے مطابق الیکشن رولز کے تحت 30کے لگ بھگ فارمز موجود تھے جن میں سے نامینیشن (کاغذات نامزدگی )فارمز نمبر 9، 9اے، 9بی اور 20 سمیت باقی تمام فارمز کا سب کمیٹی نے خود جائزہ لیا تھا ۔ اور صرف 3 دوسرے فارمز کے جائزہ کا کام ایک تین رکنی پارلیمانی گروپ کے سپر د کیا گیا تھاجس میں انتخابی اخراجات فارم ، پولیٹکل پارٹیز کی آمدنی و اخراجات کے سالانہ گوشوارے کا فارم اور سیاسی جماعتوں کے ممبرز کی لسٹ کا فارم شامل تھے ۔تاہم یہ وضاحت ضروری ہے کہ نامینیشن فارم پارلیمانی کمیٹی کے کسی ممبر یا گروپ کو جائزے یاری ڈرافٹنگ کےلئے کبھی بھی نہیں دیا گیا ۔ اور جو تین دیگر فارمز تین رکنی گروپ کو جائزے کےلئے دیئے گئے ۔ گروپ کی چار میٹنگز میں زیر غو رلانے کے باوجود اسکی سفارشات قومی اسمبلی کی پارلیمانی کمیٹی کی رپورٹ میں شامل نہیں کی گئیں ۔ مرکزی پارلیمانی کمیٹی اور سب کمیٹی میٹنگز کی تمام تفصیلات ریکارڈ پر موجود ہیں اور یہ تاثر کہ امیدواروں کے کاغذات نامزدگی فارم پارلیمانی سب کمیٹی کے کسی ایک ممبر یا چند ممبران نے ری ڈرافٹ کئے حقائق کے منافی اور بے بنیاد پروپیگنڈے پر مبنی ہے ۔ جس کا ریکارڈ میں کہیں تذکرہ موجود نہیں ۔ اگر نامینیشن فارم کو ری ڈرافٹ کرنے کا کام کسی رکن یا گروپ وغیرہ کو دیا گیا ہوتا تو ریکارڈ کا ضرور حصہ ہوتا ۔ اس معاملے پر جو کچھ ہوا۔ اظہار تاسف کے ساتھ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ حالیہ دنوں میں ایک ایسی قوم کے طور پر اجاگر ہوئے جو خلاف حقائق ، بے معنی اورلغو داستانوں پر انحصار کرکے فیصلے کرتی ہے ۔اور کسی کو بھی صفائی اور دفاع کا حق دیئے بغیر ملزم اور مجرم ثابت کرنے پر اصرار کرتے ہیں ۔بعض لوگوں نے اس سارے عمل کو کسی طور پر بین الاقوامی سازش کا راگ الاپ کر اپنے ممبران کے دین ، عقیدے اور مذہب پر انگلیاں اٹھانے کے ساتھ ان کی حب الوطنی پر بھی سوال کھڑے کر دیئے ،ریکارڈ سے عیاں ہے کہ پارلیمانی کمیٹی کے بعد قومی اسمبلی نے بل پاس کرکے سینیٹ میں منظوری کےلئے بھیجا اور پہلی مرتبہ سینیٹر حافظ حمد اللہ نے یہ نکتہ اٹھایا کہ امیدوار کے کاغذات نامزدگی میںختم بنوت سے متعلق ڈیکلریشن کے عنوان میں Solemnly Swear کی جگہ Solemn Affirmation نے لے لی ہے اسے سابقہ حیثیت میں بحال کیاجائے، (ختم نبوت کے ڈیکلریشن کی عبارت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی تھی) ،اعتزاز احسن سمیت اپوزیشن کے 35 ارکان سینیٹ نے حافظ حمد اللہ کے موقف کی مخالفت کی تھی ۔ جبکہ حکومت کے 13ارکان کے ساتھ لا منسٹر نے سینیٹرحافظ حمد اللہ کی ترمیم کی حمائت کی تھی ، سوال یہ ہے کہ اگر سینیٹ کے 35ارکان، جنہوں نے زاہد حامد کے پیش کردہ بل کی حمائت کی اور وہ سینیٹر حافظ حمد اللہ کے موقف کی تائید نہ کر سکے کیا وہ بھی کسی ’’بین الاقوامی سازش‘‘کا حصہ بن گئے تھے ۔ اگر ایسا نہیں تو پھر سارے معاملے کوبد نیتی پر مبنی یا سازش کیسے قرار دیا جاسکتا ہے؟ ۔ بعض حلقوں کا تاثر ہے کہ ایک عدالتی شخصیت بھی اس پروپیگنڈے سے متاثر ہوئی تاہم اس واقعے سے ہم نے سیکھا کہ ہم بحیثیت قوم مصدقہ اطلاعات پر بھروسہ کرنے کی بجائے قیاس آرائیوں ، افواہوں اور سوشل میڈیا کے پھیلائے ہوئے منفی تاثر ات کو سچ جان کر کسی بھی بے گناہ کومجرم بنا کر کٹہرے میںکھڑا کر دیتے ہیں ۔ جبکہ ریکارڈ سے ہر چیز واضح ہے کہ پوری پارلیمان اس قانون سازی میں شامل رہی ۔ دونوں ایوانوں میں اس پر بحث ہوئی اور یہ کہ الیکشن بل 2017پاس کرانے کا ذمہ دار کوئی ایک رکن یا چند ارکان نہیں ساری پارلیمان اس بل کو منظور کرانے کی ذمے دار ہے ۔ اس لئے سزا و جزا کے حقدار ایک دو ممبرز نہیں پوری پارلیمان ہے۔

تازہ ترین