• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم سب انہیں ادب سے خالہ جان کہتے ہیں بڑی وضع دار خاتون ہیں، تہذیب اورہماری روایتی اقدار ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہیں، چھوٹے بچوں کو بھی اوئے یا تو کرکے نہیں پکارتیں بلکہ انہیں بھی پورا نام اور ساتھ صاحب لگا کر بلاتی ہیں اپنے نوکروں اور ڈرائیور کو بھی بڑی عزت دیتی ہیں اور انہیں بھی غصے یا بدتمیزی سے نہیں پکارتیں ، کہتی ہیں دوسروں کو عزت دو گے تو وہ تمہا ری اور دوسروں کی بھی عزت کرینگے ، بچوں کا احترام ہی انہیں دوسروں کا احترام کرنا سکھاتا ہے جن بچوں کو زیادہ مارپیٹ اور دھتکارا جائے تو ان کی شخصیت میں بھی یہ پہلو داخل ہوجاتا ہے اور وہ بھی ساری زندگی یہی عادات لے کر چلتے ہیں اور اپنے عزیز ترین رشتوں کو بھی تشدد کا نشانہ بنانے سے نہیں چوکتے، خالہ جان کہتی ہیں کہ جو والدین اپنے بچوں سے دوستی نہیں کرتے ان کو اپنے مسائل شیئر کرنے کا حوصلہ نہیں دیتے نہ ان سے مشورہ کرتے ہیں اور ان کو مشورہ لینے کی تاکیدکرتے ہیں تو وہ بچے والدین کے اس مرکز سے دور جاتے ہیں جہاں ان کا جڑا رہنا پورے خاندان کیلئے بہتر ہوتا ہے ، یوں بچے اکثر ایسی دوستیاں بناتے ہیں جہاں سے نہ صرف انہیں مس گائیڈ کیا جاتا ہے بلکہ وہ بے راہ روی کا شکار بھی ہوجاتے ہیں جو والدین خاص طو ر پر والد اپنی بیٹیوں کو اپنے لمس سے محروم رکھتے ہیں ان کے ماتھے پر بوسہ نہیں دیتے ان کیلئے وہ چھوٹے چھوٹے تحفے نہیں لاتے جن میں لڑکیوں کیلئے بہت کشش ہوتی ہے تو ایسی لڑکیوں کے بھی دوسروں کے ہاتھوں بے وقوف بننے کے زیادہ چانسز ہوتے ہیں، جب والدین اپنے بچوں اور خاص طور پر بچیوں کو ہر وقت کلموہی، بدشکلی ، سست اور کالی کلوٹی جیسے القابات دے کر ان کی شخصیت میں جہاں احساس کمتری پیدا کرتے ہیں وہاں ایسی بچیاں ان شاطر لوگوں کا جلد شکار بن جاتی ہیں جو انہیں پھانسنے کیلئے ان کی تعریف کرتے ہیں، خالہ جان کی دوستی کی عادت کی وجہ سے نہ صرف ان کے اپنے بچے بلکہ سارے رشتہ داروں اور فیملی ریلیشن رکھنے والوں کے بچے بھی انہیں اپنا بہترین دوست اور رازداں سمجھتے ہیں او رخالہ جان ایسے بچوں کو کسی غلطی پر بجائے تنقید اور برا بھلا کہنے کے اسے راہ راست پر لے آتی ہیں اور اگر بات مثبت ہو تو اس کی پوری مدد کرنے کو تیار اور اس کیلئے ہر خطرہ مول لینے کی حامی بھر لیتی ہیں، خالہ جان بچوں کو اخلاقیات کے دائرے میں رکھنے پر بڑے خوبصورت انداز میں لیکچر دیتی ہیں جس میں دین اور والدین اور پھر ان کی آنے والی نسلوں کے حوالے سے بڑی بلاغت سے گفتگو کرتی ہیں ، گزشتہ روز ملیر کراچی میں والدین کی طرف سے بے جا آزادی اور بچوں سے دوری نے ایک ایسے لرزہ خیز واقعہ کو جنم دیا ہے کہ کلیجہ منہ کو آتا ہے کہ سگی بہن نے بہن کو قتل کردیا ہے اور قتل بھی اس سفاکانہ انداز میں کیا ہے کہ تیز چھری سے بہن کی شہ رگ ہی کاٹ ڈالی، حالانکہ اگر خواتین حالات سے مجبور ہوکر یا حسد اور انتقام کی وجہ سے قتل کرتی بھی ہیں تو وہ زیادہ سے زیادہ کھانے پینے کی اشیاء میں زہر ملا کر قتل کرتی ہیں لیکن معاشرے میں اس قدر نفرت اور تشدد پنپ رہاہے کہ سگی بہن کے گلے پر بھی چھری چلانے سے نہیں چوکتے ، اس قتل کی کیا وجوہات ہیں آپ سب جانتے ہی ہونگے کہ کس طرح جب والدین اپنے بچوں کو دوری کا شکار کرکے انہیں تنہا کردیتے ہیں اورپھر ہم معاشرے کے اوباش لوگوں کا آلہ کار بن کر ان کے ہاتھوں بلیک میل ہوتے ہیں اور پھر پورے کے پورے گھرانے تباہ و برباد ہوجاتے ہیں، بطور معاشرہ بھی ایسے واقعات کے حوالے سے بھی ہماری کچھ منفی روایات ہیں جو معاشرے میں نہ صرف ایسے واقعات کو جنم دیتی ہیںبلکہ ان واقعات کے بعد ہم جس طرح متاثرہ خاندان یا مقتولین کی’’ کتابیں‘‘ کھول لیتے ہیں اس سے مزید نفرت اور تشدد پیدا ہوتے ہیں، ہم قتل کے بعد سبق حاصل کرنے اور بطور معاشرہ اس کا سد باب کرنے کی بجائے جلتی پر تیل ڈالتے ہیں، خالہ جان یہ بھی کہتی ہیں کہ پہلے تو بچوں کو تنہا مت چھوڑوانہیں اپنی فیملی کے مرکز سے جوڑے رکھواور اس جوڑ کیلئے پیار محبت بہترین گلو(Glue)ہے اور اگر ایسے میں بچوں سے کوئی غلطی ہو بھی جائے تو بطور والدین اور معاشرہ ان پر طعنہ تشنہ سے اجتناب کریں ان کی غلطی اور مسئلے کو سلجھانے میں کردار ادا کریں ورنہ قتل اور خودکشی سے روکنا مشکل ہوگا اور قتل کے ذمہ دار ہم والدین اور سارا معاشرہ ہو گا، اور حقیقت میں ایسے واقعات میں قاتل ہم یعنی معاشرہ ہی ہوتا ہے ۔

تازہ ترین