جہلم سے تعلق رکھنے والے بھارتی وزیر اعظم اندر کمار گجرال پاک بھارت دوستی کے بہت بڑے علم بردار تھے انہیں بھارت کے سنجیدہ دانشوروں میں شمار کیا جاتا تھا ان سے انٹرویو کا موقع ملا تو انہوں نے علم و دانش بھرا ایک فقرہ کہہ کر مجھے حیران کردیا ان کا کہنا تھا کہ ’’جب سے یہ دنیا بنی ہے دو جمہوری ممالک کے درمیان ایک بھی جنگ نہیں ہوئی‘‘ ان کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ اگر ریاست جمہوری ہوتو ایسا موقع ہی نہیں آتا کہ جنگ کرنی پڑےاور اگر دونوں ہی ملک جمہوری ہوں تو ان کے درمیان امن کے سوراستے کھلے ہوتے ہیں جنگ کا بند دروازہ کبھی کھل ہی نہیں پاتا۔ ان کی گفتگو کا لب لباب یہ تھا کہ جنگ سے بچنا ہے تو جمہوریت لائو۔ اگر جمہوریت ہوگی تو جنگ نہیں ہوگی۔
اس انٹرویو کے بعد میرا فوری ردعمل یہ تھا کہ آئی کے گجرال کی یہ بات محض مفروضہ ہے تاریخی طور پر یہ درست نہیںلگتی چنانچہ میں نے دنیا کی کئی جنگوں کے احوال کو تفصیل سے پڑھا کئی جمہوری ممالک نے جنگیں لڑیں مگر ان کا مخالف فریق غیرجمہوری تھا۔ کارگل کی جنگ میں پاکستان میں نواز شریف کی جمہوری حکومت تھی جبکہ بھارت میںبھی منتخب قیادت برسراقتدار تھی مگر تفصیل میں جائیں تو اس جنگ میں نواز شریف کی مرضی نظر نہیں آتی۔ یورپ اور مشرق وسطیٰ کی جنگوں میں بھی آئی کے گجرال کا مقولہ درست نکلا۔ وقت گزرتا گیا اور مجھے آہستہ آہستہ یہ ثابت ہونے لگا کہ گجرال تو اس صدی کا چانکیہ تھا آخر چانکیہ بھی تو اسی خطے ٹیکسلا کا ہی رہائشی تھا۔ چانکیہ چندر گپت موریہ کا وہ مشیرتھا جس کے مشورے پر چل کر یونانیوں کو ہندوستان سے نکال باہر کیا گیا تھا۔ جمہوری ممالک کے د رمیان جنگ نہ ہونے پر سوچ و بچار کی دانش مندوں سے وجوہات جاننے کی کوشش کی تو پتہ چلا کہ کسی بھی ملک کی اپوزیشن جسے ہم انتہائی فضول گردانتے ہیں جنگیں نہ ہونے کی سب سے بڑی وجہ ہوتی ہےجمہوری ملک میں اپوزیشن اختلاف رائے کا اظہار کرتی ہے، حکومت پر تنقید کرتی ہے اور کبھی حکومت جنگ جوئی پر آمادہ ہو تو اس کی مخالفت کرتی ہے اسی طرح پارلیمان جسے ہم مجبور محض اور ربڑ اسٹیمپ قرار دیتے ہیں اگر یہ آزادانہ طور پر کام کرے، وہاں مباحث ہوں، حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مناظرے ہوں ایشورزکے بند کواڑوں کو کھولا جائے اور پھر ان پر کھل کر بحث کی جائے تب بھی پارلیمان جنگ کی طرف نہیں جانے دیتی۔ اسی طرح منتخب حکومتیں جنہیں ہم ہر روز ڈمی قرار دیتے ہیں یہ حفاظتی شیلڈ کا کام کرتی ہیں اور کوئی بھی دوسرا ملک حملہ آور ہونے سے پہلے سو بار سوچتا ہے کہ جمہوری ملک پر حملہ کیا توپورا ملک اور اس کے ادارے ایک صفحے پر ہوں گے یوں اس ملک کو ہرانا ناممکن ہو جاتا ہے۔ اگر کسی ملک میں اپوزیشن نہ ہو، جمہوریت نہ ہو تو حکومت جب چاہے جنگ کا اعلان کردے اپوزیشن ہی نہیں ہوگی تو اختلاف کیسا؟ پارلیمان نہ ہوگی تو بحث مباحثہ کہاں، منتخب حکومت نہیں ہوگی تو اسے رائے عامہ کا احترام کیونکر ہوگا۔ یہ وہ چند وجوہات ہیں جن کی وجہ سے دنیا میں آج تک دو جمہوری ممالک کے درمیان جنگ کی ایک بھی مثال نہیں ملتی۔
امریکی مسلم دانش ور فرید ذکریا نے اپنی مشہور کتاب فیوچر آف فریڈم کا آغاز اس بات سے کیا ہے کہ ’’سنہ 1900 میں دنیا کا کوئی بھی ایسا ملک نہیں تھا جہاں جمہوریت نافذ ہو اور آج صرف 117سال میں 119 ممالک میں جمہوریت آ چکی ہے۔ یوں آج دنیا کے 62 فیصد ممالک میں جمہور یعنی عوام ملک اور ریاست کا نظام چلاتے ہیں ۔‘‘ دنیا کی دو بڑی جنگوں نے اقوام عالم کو پہلے لیگ آف نیشنز اور پھر اقوام متحدہ بنانے پر مجبور کیا اور یوں ایک ریاست کی طرف سے دوسری ریاست کی جغرافیائی حدود کو عبور نہ کرنے کا معاہدہ طے ہوا اور جنگوں میں کمی آئی، سرد جنگ کے اس دور میں بعض منہ زور ممالک خلاف ورزیاں کرتے رہے لیکن عمومی طور پر طے شدہ اصولوں سے انحراف کرنا مشکل ہوتا گیا۔ یہ سلسلہ 1990ء تک چلا جب دوسری سپر پاور سوویت یونین کو زوال آیا تو سرد جنگ کا دور ختم ہوگیا اور دنیا کی واحد سپر پاور امریکہ نے بدمست ہاتھی کی طرح پرانے اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے من مانے ایجنڈے پر عمل کرتے ہوئے دوسری ریاستوں میں براہ راست مداخلت شروع کردی کبھی صومالیہ کی جغرافیائی حدود کو پامال کیا گیا تو کبھی بوسنیا میں مثبت مداخلت کی گئی، کبھی کویت کو بچایا گیا تو کبھی صدام اور کبھی قذافی کو بالجبر رخصت کیا گیا۔ گویادنیا واحد سپرپاور کی مداخلت کے لئے کھلی ہے۔ اقوام عالم نے اقوام متحدہ بناتے وقت ویٹو اورسلامتی کونسل کو استثنیٰ دے کر جمہوری اصولوں کی نفی کی، ورنہ آج اگر اقوام متحدہ میں رائے عامہ کا احترام ہوتا تو القدس کی قرار داد کے بعد اسرائیل کے خلاف پابندیاں لگ جاتیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جس طرح جمہوریت دنیا میں امن لائی ہے اقوام متحدہ میں بھی جمہوریت لائی جائے تو دنیا اور زیادہ پرامن ہو جائے گی۔
صدر ٹرمپ کے دھمکی آمیز ٹویٹ کا جواب بھی جنگ میں نہیں جمہوریت میں ہے۔ سویلین حکومت کو فیصلوں کا اختیار دیا جائے جس طرح جنرل باجوہ نے امریکی وفود کے ساتھ علیحدہ ملاقات کی بجائے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی سربراہی میں مذاکرات کئے یہ خوش آئند جمہوری رویہ تھا۔پارلیمان اور منتخب حکومت کو خارجہ پالیسی پر بحث کرنی چاہئے اپوزیشن کو کھل کر اپنی رائے کا اظہار کرنا چاہئے، جمہوریت کا پہیہ چلتا نظر آئے گا تو جنگ کے سائے دور ہوتے جائیں گے اگر یہ پہیہ رک گیا یا آہستہ ہوتا نظر آیا یا پھر روکا گیا اور کوئی کٹھ پتلی نظام لایا گیا تو ہمیں گھائل کرنا آسان ہو جائے گا۔
امریکی صدر کے ذاتی خیالات جو بھی ہوں ہمیں امریکی جمہوری نظام کو جھنجوڑنا ہو گا ہمیں اپوزیشن جماعت ڈیموکریٹک پارٹی، امریکی اخبارات اور رائے عامہ میں اپنا کیس کھول کر رکھنا ہو گا پاکستان ، عراق یا لیبیا نہیں ایک منظم جمہوری اور ایٹمی ملک ہے ہمارے مضبوط دلائل صدر ٹرمپ کے کسی بھی فیصلے میں سدِ راہ بن سکتے ہیں دوسری طرف ہمیں خود احتسابی بھی کرنی ہو گی اور یہ دیکھنا ہو گا کہ 17سال قبل اختیار کئے گئے بیانیہ کو دنیا کیوں قبول نہیںکر رہی اور ہم ایسا کیا کر رہے ہیں کہ ہزاروں جانوں کی قربانیوں کے باوجود ہم ابھی تک دہشت گردوں کے مدد گار سمجھے جاتے ہیں۔
اِدھر جنوری بیرونی دبائو کے حوالے سے تشویشناک ہے ادھر اسی مہینے میں داخلی تبدیلیوں کی ڈیڈ لائن مقرر ہے کیونکہ اگر سینیٹ کے الیکشن کو روکنا ہے، دو تین سالہ نگران کابینہ بنانی ہے یا جلدی الیکشن کروانا ہے تو سارے فیصلے اسی ماہ میں ہوںگے اسی سلسلے میں بلوچستان میں ٹریلر دکھایا جا رہا ہے جو سندھ ،خیبر پختونخوا سے ہوتا ہوا پنجاب میں آئے گا۔اگر تو صدر ٹرمپ کی ٹویٹ ان کی ذاتی رائے نہیں بلکہ امریکہ کا ریاستی فیصلہ ہے تو ہمیں سیاسی انجینئرنگ بند کرکے آل پارٹیز کانفرنس منعقد کرنی چاہئے جس میں فوج ، حکومت اور اپوزیشن مشترکہ طور پر دفاع، الیکشن اور جمہوریت کے حوالے سے متفقہ فیصلوں کا اعلان کریں۔ اگر سیاسی انجینئرنگ جاری رہی تو مزاحمتی بیانیہ بھی زور پکڑے گا اور کوئی بعید نہیں ہم جمہوریت کو خداحافظ کہہ کر جنگ کو گلے لگا لیں اور پھر صدیوں تک پچھتاتے رہیں۔یہ وقت جنگ کا نہیں جمہوریت کا ہے ....