سامراجی آقاؤں کے ہتھکنڈے

October 23, 2021

پوری دنیا اس وقت انتہائی گھمبیر صورتحال میں گھری ہوئی ہے جس سے نکلنا مشکل دکھائی دے رہا ہے۔ طاقتور ممالک اپنے مخالف ممالک کے لئے ترقی کی راہیں مسدود کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس کی وجہ سے دہائیوں کی کوششوں سےممالک کے درمیان استوار کئے گئے باہمی توازن کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ایک طرف تو سامراجی قوتیں کمزور ممالک کو دبانے کے لئے اپنے تمام ہتھیار استعمال کرتی ہیں اور دوسری طرف ایسے ممالک جو اپنی آزادی پر اصرار کرتے ہیں انہیں ورلڈ بینک ،آئی ایم ایف ،ایف اے ٹی ایف اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے ذریعے نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس طرح سامراجی قوتوں اور کمزور ممالک کے درمیان فاصلہ وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا جا رہا ہے۔ بین الاقوامی تنظیموں کے ذریعے ان ممالک پر دبائو بڑھانے کے ساتھ ساتھ ان میں اندرونی انتشاربھی پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

اخلاقی دیوالیہ پن کا شکار کچھ سیاسی رہنما جو اپنی ناجائز دولت کو ہر حال میں تحفظ دینا چاہتے ہیں۔ وہ ایسی سامراجی طاقتوں کے ہاتھ میں کھلونا بن کر رہ جاتے ہیں۔ پاکستان اس کی ایک زندہ مثال ہے۔ موجودہ حکومت کے برسراقتدار آنے کے ساتھ ہی اسے کمزور کرنے کے لئے اوچھے ہتھکنڈوں کا استعمال شروع کر دیا گیا۔ صرف اس لئے کہ یہ حکومت ملک کے دیرینہ مفادات کا تحفظ کرنا چاہتی ہے۔اس کی ایک مثال اس بات سے ملتی ہے کہ حال ہی میں امریکی سفارتکار نے مسلم لیگ (ن) کی رہنما مریم نواز سے ملاقات کی جنہیں پاکستان کی اعلیٰ عدالت نے مجرم قرار دیا ہوا ہے۔ شہباز شریف سے بھی ملاقات کی گئی جن کے خلاف کرپشن اور منی لانڈرنگ کے متعدد مقدمات زیرالتوا ہیں۔ پیپلزپارٹی کے مرکزی رہنما سید یوسف رضا گیلانی سے بھی ملاقات ہوئی جنہیں آصف علی زرداری کے خلاف میگا کرپشن کے مقدمات دوبارہ کھولنے کے حوالے سے سوئس حکام کو خط لکھنے سے انکار کے جرم میں سپریم کورٹ نے وزارت عظمی کے عہدے سے برطرف کر دیا تھا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ یہ ملاقاتیں ایسے وقت کی گئیں جب ملک میں سیاسی اور عسکری قیادت کے درمیان مبینہ اختلاف کی افواہیں سرگرم تھیں جبکہ اپوزیشن کی جماعتیں اپنے اندر شدید اختلافات سے نبردآزما تھیں۔ایسے حالات میں میڈیا کا کردار بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ کچھ نام نہاد گروپوں اور افراد کی جانب سے حکومت کیخلاف بنا ثبوت پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہو رہا ہے۔

سب سے بڑی منافقت یہ ہے کہ سامراجی ممالک کے لئے اپنے مقاصد کے حصول میں اخلاقیات کا کوئی دخل نہیں اور نہ ہی کہیں قانون کی حکمرانی کا ذکر ہے۔ یہ کوششیں دنیا میں ایک ظالمانہ نظام کو برقرار رکھنے کیلئے کی جا رہی ہیں تاکہ محکوم اور کمزور ممالک کے آگے بڑھنے کے راستے بند کر دیے جائیں۔ ہمارے خطے میں سامراجی طاقتوں کی توجہ ابھرتے ہوئے چین کو آگے بڑھنے سے روکنے پر مرکوز ہے کیونکہ اس کو وہ اپنی اجارہ داری کے لئے بہت بڑا خطرہ سمجھتے ہیں۔ اس لئے پاکستان پر بھی دبائو بڑھتا جا رہا ہے کہ وہ چین کے ساتھ اپنے تعلقات پر نظرثانی کرے لیکن یہ پاکستان کے لئے ممکن نہیں کیونکہ چین کے ساتھ اس کے تعلقات پرانے ہونے کے ساتھ ساتھ باہمی عزت اور رواداری کے اصولوں پر قائم ہیں جو گزشتہ سات دہائیوں میں مضبوط سے مضبوط تر ہوتے گئے ہیں جبکہ امریکہ کے ساتھ پاکستان کے تعلقات وقتی ضرورت سےآگے نہیں بڑھ سکے۔ چین کو دنیا میں قائدانہ کردار سنبھالنے سے روکنے کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے کے لئے بھارت ہمیشہ مغرب کے ساتھ ملا رہا ہے اور اب آسٹریلیا بھی اس دوڑ میں شامل ہو گیا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان پر بھی اجاگر کیا جا رہا ہے کہ وہ چین کے ساتھ تعلقات کو کم کرے اور علاقے میں بھارت کی اجارہ داری کو قبول کرے۔ اس پر عملدرآمد تو درکنار، اس کا سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ اس وجہ سے پاکستان پر اس وقت اندرونی و بیرونی دونوں محاذوں پر کام کیا جا رہا ہے جس کے لئے اندرونی تقسیم کو بھڑکانے کی ناپاک کوششیں بھی کی جارہی ہیں جن میں ہمارے کچھ ناکام عناصر بھی حصہ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ کوششیں افغانستان سے امریکی انخلا کے تناظر میں مزید شدت اختیار کر چکی ہیں۔اس وقت وزیراعظم عمران خان کو پاکستان کی پالیسیوں کو ملکی مفادات سے ہم آہنگ کرنے کاسب سے بڑا چیلنج درپیش ہے۔ جب سے انہوں نے اصلاحات کا سلسلہ شروع کیا ہے تب سے انہیں متعدد محاذوں پر شدید دبائو کا سامنا رہا ہے۔ ملک کے اندر بدعنوان ٹولہ غیرمتعلقہ قوتوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے شرمناک کردار ادا کرنے میں مصروف ہے جبکہ بیرونی سطح پر امداد دینے والے بین الاقوامی ادارے اور انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی اس میں شریک کارہیں جس کے نتیجے میں اس بات کا قوی امکان ہے کہ آنے والے دنوں میں پاکستان کو مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

پاکستان نے کورونا وبا سے نمٹنے کے لئے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔اس کے ساتھ اس موذی وبا کے دوران سب سے زیادہ متاثر ہونے والے طبقے کو امداد پہنچانے کیلئے بھی متعدد اقدامات کئے ہیں، لیکن مشکلات تو ہر صورت موجود ہیں جن سے نبرد آزما ہونے کے لئے ہم بحیثیت قوم یہ تو کر سکتے ہیں کہ مصیبت کے مارے لوگوں پر سیاست کرنا بند کریں اور باہمی ہم آہنگی سے ملک کو ان مشکل حالات سے نکالنے کی کوشش کریں ۔

(صاحبِ تحریر وزیراعظم کے معاونِ خصوصی برائے اطلاعات، سیاسی اور دفاعی تجزیہ کار اور ادارۂ علاقائی امن کے بانی ہیں)