مرے ہمدم مرے دوست!

November 17, 2021

گر مجھے اس کا یقیں ہو مرے ہمدم مرے دوست

گر مجھے اس کا یقیں ہو کہ ترے دل کی تھکن

تری آنکھوں کی اداسی تیرے سینے کی جلن

میری دل جوئی مرے پیار سے مٹ جائے گی

گر مرا حرف تسلی وہ دوا ہو جس سے

جی اٹھے پھر ترا اجڑا ہوا بے نور دماغ

تیری پیشانی سے ڈھل جائیں یہ تذلیل کے داغ

تیری بیمار جوانی کو شفا ہو جائے

گر مجھے اس کا یقیں ہو مرے ہمدم مرے دوست

روز و شب شام و سحر میں تجھے بہلاتا رہوں

میں تجھے گیت سناتا رہوں ہلکے شیریں

آبشاروں کے بہاروں کے چمن زاروں کے گیت

آمد صبح کے، مہتاب کے، سیاروں کے گیت

تجھ سے میں حسن و محبت کی حکایات کہوں

کیسے مغرور حسیناؤں کے برفاب سے جسم

گرم ہاتھوں کی حرارت میں پگھل جاتے ہیں

کیسے اک چہرے کے ٹھہرے ہوئے مانوس نقوش

دیکھتے دیکھتے یک لخت بدل جاتے ہیں

کس طرح عارض محبوب کا شفاف بلور

یک بیک بادۂ احمر سے دہک جاتا ہے

کیسے گلچیں کے لیے جھکتی ہے خود شاخ گلاب

کس طرح رات کا ایوان مہک جاتا ہے

یونہی گاتا رہوں گاتا رہوں تیری خاطر

گیت بنتا رہوں بیٹھا رہوں تیری خاطر

پر مرے گیت ترے دکھ کا مداوا ہی نہیں

نغمہ جراح نہیں مونس و غم خوار سہی

گیت نشتر تو نہیں مرہم آزار سہی

تیرے آزار کا چارہ نہیں نشتر کے سوا

اور یہ سفاک مسیحا مرے قبضے میں نہیں

اس جہاں کے کسی ذی روح کے قبضے میں نہیں

ہاں مگر تیرے سوا تیرے سوا تیرے سوا