گیس بحران، ذمہ دار کون؟

November 29, 2021

پاکستان میں گیس کے شعبے کے ماہرین نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اس سال سردیوں میں گیس کا بحران شدید تر ہونے کا خدشہ ہے جس کی وجہ حکومت کا بروقت منصوبہ بندی اور فیصلے نہ کرنا ہے۔ ملکی معیشت اور ایکسپورٹس میں گیس کا ایک اہم کردار ہے۔

صنعتکار ہونے کے ناطےمجھے اندازہ ہے کہ گیس کی لوڈشیڈنگ سے صنعتوں کے پیداواری نقصانات ہوتے ہیں۔ ٹیکسٹائل صنعتیں 24گھنٹے یومیہ اور 360دن سالانہ پیداواری صلاحیتوں کی بنیاد پر چلائی جاتی ہیں۔

قومی اور مذہبی تہواروں پر تعطیل کے روز بھی مزدوروں کو دگنا اوورٹائم دے کر صنعتوں کا پہیہ رکنے نہیں دیا جاتا تاکہ ایکسپورٹ آرڈرز کی وقت پر شپمنٹ کی جاسکے لیکن موجودہ گیس بحران نے صنعتوں کی پیداواری صلاحیتوں کو بری طرح متاثر کیا ہے کیونکہ زیادہ تر ٹیکسٹائل ملز اپنی بجلی گیس سے پیدا کرتے ہیں۔

پاکستان کی موجودہ گیس کی پیداوار 4300ملین کیوبک فٹ ((MMCFD ہے جو سردیوں میں کم ہوکر 3300ملین MMCFD رہ جاتی ہے جبکہ طلب 6500سے 7000ملین کیوبک فٹ ہے جو سردیوں میں بڑھ کر 8000 ملین کیوبک فٹ تک پہنچ جاتی ہے اور اس طرح ہمیں 4000سے 5000 ملین کیوبک فٹ گیس کی کمی کا سامنا ہے۔

ہمارے پاس پورٹ قاسم کراچی میں امپورٹ مائع گیس کو دوبارہ گیس میں تبدیل کرنے کے دو RLNG ٹرمینل ہیں جو اینگرو اور پاکستان گیس پورٹ (PGP) نے لگائے ہیںجس کے حساب سے حکومت 10سے 12 ایل این جی کارگو منگوارہی ہے جس سے 1200MMCFDگیس حاصل ہورہی ہے جبکہ گیس کی کمی اس کے مقابلے میں 4گنا زائد ہے۔

نیپرا کی اسٹیٹ آف انڈسٹری رپورٹ 2021ء کے اعتراضات کے حوالے سے ٹی وی چینلز پر گیس کے بحران پر 5سوالات اٹھائے گئے ہیں جن کے مطابق RLNG پلانٹ پوری کیپسٹی پر نہیں چلائے گئے اور فرنس آئل سے مہنگی بجلی پیدا کی گئی۔

سردیوں میں ماضی میں ایل این جی کے 14 کارگو امپورٹ کئے گئے جبکہ اس بار صرف 10 کارگو منگوائے گئے۔

حکومت نے ایل این جی ٹینڈر جاری کرنے میں تاخیر کی جس کی وجہ سے ایل این جی جو چند ماہ پہلے 8ڈالر میں بُک کی جاسکتی تھی، تاخیر کی وجہ سے قطر پیٹرولیم سے 30.65ڈالر میں خریدنا پڑی۔

آل پاکستان سی این جی ایسوسی ایشن کے چیئرمین غیاث پراچہ نے مجھے بتایا کہ حکومت نجی شعبے کو ایل این جی امپورٹ کرنے کی اجازت دینے اور مختلف صنعتوں اور شعبوں کو اس کی فروخت کیلئے پالیسی بناچکی ہے لیکن اس پر عملدرآمد نہیں کیا جارہا۔

اُنکے مطابق 30.65ڈالر فی MMBTU لاگت پر امپورٹ کی جانے والی ایل این جی سے آئندہ ماہ سی این جی کی قیمت میں 8سے 9روپے فی کلو اضافہ متوقع ہے۔

وزیراعظم کے مشیر تجارت عبدالرزاق دائود نے کراچی میں ایک ملاقات میں بتایا کہ صنعتوں کی گیس لوڈشیڈنگ سے ایکسپورٹ متاثر ہورہی ہے اورہم ایکسپورٹ آرڈرز وقت پر شپمنٹ نہیں کرپارہے۔

پاکستان میں گیس کا ایک معیاری ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن نظام موجود ہے جس میں 13315کلومیٹر طویل ٹرانسمیشن لائن، 149715 کلومیٹر ڈسٹری بیوشن اور 39612کلومیٹر سروس گیس پائپ لائن کا نیٹ ورک موجود ہے جو ملک میں ایک کروڑ سے زائد صارفین کو گیس فراہم کرتا ہے۔

پاکستان میں یومیہ 4بلین کیوبک فٹ گیس کی ضرورت ہے جس میں سے 2.8 بلین کیوبک مقامی پیدا ہوتی ہے اور 1.2 بلین کیوبک فٹ امپورٹ کی جاتی ہے۔ آنے والے مہینوں میں پاکستان کو یومیہ 4بلین کیوبک فٹ گیس کی کمی کا سامنا کرنا پڑے گا۔

اگلے دو مہینوں میں پاکستان میں گیس کی کمی زیادہ ہوگی جس کا فی الحال حل ایل این جی کی امپورٹ ہے۔

حکومت RLNG کا تیسرا ٹرمینل لگانے میں ناکام رہی، نہیں تو اس سال سردیوں میں ایل این جی کے 10کے بجائے 15سے 16کارگو منگوائے جاسکتے تھے۔

اسد عمر کی سربراہی میں انرجی پر کابینہ کمیٹی (CCOE) نے ملک میں گیس کی کمی کے پیش نظر بجلی گھروں کو فرنس آئل پر چلانے کی ہدایت دی ہے جس سے مہنگی بجلی پیدا ہوگی۔

کمیٹی نے پاور اور فرٹیلائزر سیکٹر کو گیس کی فراہمی جبکہ گھریلو اور صنعتی صارفین کیلئے گیس لوڈشیڈنگ کا اعلان کیا ہے۔

حکومت نے اگر گرمیوں میں سردیوں کیلئے ایل این جی کے سودے کرلئے ہوتے تو آج اتنی مہنگی ایل این جی نہ خریدنا پڑتی۔

پاکستان میں گیس بحران پر قابو پانے کیلئے وقت پر فیصلہ سازی، مختصر اور طویل المیعاد پلاننگ اور اصلاحات کی ضرورت ہے جس میں نجی شعبے کو ایل این جی کی امپورٹ کی اجازت اور اس کی پالیسی پر عملدرآمد شامل ہے۔

حکومت تمام دعوئوں کے باوجود روس، ایران اور تاپی گیس پائپ لائن منصوبوں پر کام شروع نہیں کرسکی جس کے نتیجے میں ہمیں مہنگی ایل این جی امپورٹ کرنا پڑرہی ہے جو بجلی، گیس، ایل پی جی اور سی این جی کی قیمتوں میں اضافے کا سبب ہے لہٰذا گیس کے بحران کے خاتمے کیلئے حکومت کو گیس پائپ لائن منصوبوں کو ہنگامی بنیادوں پر مکمل کرنا ہوگا، ورنہ گیس کے بحران کی وجہ سے ملک میں صنعتکاری اور ایکسپورٹس میں اضافہ ایک خواب ہی رہے گا۔