تخیل کے پردے پر تخلیقی تجربات ہوتے رہے

December 15, 2021

فنونِ لطیفہ کی ایک ہری بھری شاخ کا نام ’’مصوری‘‘ ہے، جس کو عرف عام میں آرٹ بھی کہا جاتا ہے۔ اسی ذیل میں جڑے دیگر شعبوں میں ڈرائنگ، خطاطی، مجسمہ سازی و دیگر اقسام شامل ہیں، جن کا تخلیقی تعلق کسی نہ کسی طرح مصوری اور آرٹ کے شعبے سے ہے۔ پوری دنیا کو جس طرح کورونا جیسی وبا کا سامنا کرنا پڑا، جس کے بعد دنیا ایک مختلف ڈھب میں تبدیل ہوگئی۔

اس وبا سے پہلے اور بعد کے مناظر میں بہت فرق ہے، جو صرف سماجی اور معاشرتی نہیں ہے، بلکہ تہذیبی اور فنی طور پر بھی نمایاں ہے۔سال 2021 میں مصوری کے میدان میں کیا کچھ ہوا، زیرنظر جائزے میں ملاحظہ کریں لیکن اس سے پہلے ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں کہ کورونا وبا سے پہلے فن و ثقافت اور بالخصوص مصوری و آرٹ کی دنیا کیا تھی، اس تخلیقی دنیا میں رنگوں کی بہار کا عروج کیسا تھا اور 2021 میں کیسا رہا۔

مصوری اور آرٹ کی مختلف اقسام کی نمائشوں کے سلسلے میں ایک اصطلاح ’’بینالے‘‘ استعمال ہوتی ہے، یہ اطالوی زبان کا ایک لفظ ہے، جس کا مفہوم ہے’’سال میں دو مرتبہ رونما ہونا‘‘ اور مصوری و آرٹ کی دنیا میں اس سے مراد ’’ہردو سال کے بعد آرٹسٹوں کے تخلیقی کام کی بڑے اور اجتماعی پیمانے پر نمائش کرنا‘‘ ہے، اس تناظر سے پاکستان میں پہلی بار 2017 میں’’کراچی بینالے‘‘ کے نام سے ایک بڑی نمائش کی ابتدا ہوئی۔ 2019 کواسی غرض سے دوسری مرتبہ شاندار نمائش کا اہتمام کیا گیا، جس میں پاکستان سمیت بہت سارے غیرملکی فنکار اور مداح شریک ہوئے، لیکن کورونا کی وجہ سے رواں برس کراچی بینالے کا انعقاد ہونا تھا، جو نہ ہوسکا، آرٹ کی دنیا میں یہ ایک اداس کردینے والی بات ہے، البتہ 2020میں ’’لاہور بینالے‘‘ محدود پیمانے پر منعقد ہوا تھا۔

عالمی سطح پر اٹلی جیسے مصوری کے مرکزی ملک میں 2019 کو پہلی مرتبہ پاکستانی خاتون فنکارہ کے طور پر، جن کا نام’’نائیزہ خان‘‘ ہے، ان کے تخلیقی کام کو’’58ویں وینس بینالے‘‘ میں پیش کیا گیا، یہ پاکستانی آرٹ سین کے لحاظ سے اپنی نوعیت کی ایک اہم پیش رفت تھی۔ کورونا کی وبا نے جہاں دنیا بھر کو متاثر کیا، وہیں عالمی سطح پر مصوری اور آرٹ کا شعبہ بھی متاثر ہوا، یہی وجہ ہے کہ رواں برس’’وینس بینالے‘‘ کا انعقاد بھی نہ ہوسکا۔

اس طرح پاکستانی آرٹسٹوں کے لیے، عالمی منظرنامے میں، ایک نیا راستہ بنا تھا، فی الحال وہ وقتی طور پر مفقود ہوگیا ہے، پھر بھی اس موذی وبا کے ہاتھوں، جبری طور پر گھروں میں محدود ہوجانے کا ایک فائدہ ان آرٹسٹوں کو ہوا کہ انہوں نے اپنے تخیل کے پردے پر، نت نئے تخلیقی تجربات کیے ہیں۔ یہاں دی گئی جھلکیوں میں ان فن پاروں کی جمالیات کو محسوس کیا جاسکتاہے۔

ان دنوں پاکستانی مصوری میں جن دو رجحانات کو بہت زیادہ عالمی سطح پر توجہ ملی، ان میں’’ٹرک آرٹ‘‘ اور’’نیو منی ایچر‘‘ آرٹ شامل ہیں، یہی وجہ ہے، پاکستان میں مختلف غیر ممالک کی ثقافتی سرگرمیوں میں بھی ان رجحانات کی عکاسی دیکھنے کو ملتی ہے، جس کی ایک مثال، اس سال کراچی میں قائم جاپانی قونصل خانے کی طرف سے ’’جاپانی ثقافتی میلے‘‘ کے انعقاد پر ٹرک آرٹ کو اپنی سرگرمیوں کا حصہ بنانا ہے۔

دیگر ممالک کے ہاں بھی ان رجحانات کی پسندیدگی کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح کراچی اورلاہور کے مختلف علاقوں کی دیواروں کو متصور کیا گیا ہے، جس میں مقامی ثقافت کو پینٹ کیا گیا ہے، کراچی شہر میں آرٹ کے تناظر میں، ان دیواروں کو کینوس کی صورت دینا بھی ایک انتہائی مثبت اور تہذیبی عمل ہے، جس کے لیے مقامی آرٹسٹوں کو امریکی تعاون سے یہ سرگرمیاں موثر طریقے سے کرنے کے لیے مواقع دیے گئے۔ رواں برس میں ہم دیکھ سکتے ہیں، کراچی شہر کی یہ رنگ برنگی دیواریں کس قدر شہر کی خوبصورتی میں اضافہ کر رہی ہیں۔

رواں برس 2021 میں پاکستان بھر میں آرٹ کے شعبے میں بہت کام ہوا، مختلف تخلیقی اقسام کے ذریعے فنکاروں نے اپنی فنی پختگی کا مظاہرہ کیا، ہرچند کہ نمائش وغیرہ کا انعقاد کچھ کم رہا، لیکن آرٹسٹ مسلسل کام کرتے رہے اور اب سال کے اواخر میں ان کے کام کی پذیرائی نمائشوں کے ذریعے بھی شروع ہوچکی ہے، کیونکہ کورونا کی ویکسین کے بعد معاملات کافی حد تک نارمل ہونے کی طرف آرہے ہیں اور سماجی وتہذیبی سرگرمیوں کی دوبارہ سے ابتدا ہوچکی ہے۔ سال بھر میں جن آرٹسٹوں نے ملکی و بین الاقوامی سطح پر کام کیا، وہ بھی قابل قدر ہے۔ ان کی تفصیلات جاننے سے اندازہ ہوتا ہے کہ کس نوعیت کا کام کیا گیا ہے۔

اسی سال امریکا میں’’پاکستان کا عصری فن‘‘ کے عنوان سے ’’ایشیا سوسائٹی میوزیم‘‘ نے پندرہ پاکستانی فنکاروں کے پچپن فن پارے نمائش میں رکھے گئے، جن میں مصوری کے علاوہ، فوٹوگرافی، ویڈیوز اور مجسمہ سازی بھی شامل تھی۔ اس نمائش میں پاکستانی فن پاروں کی مہتم معروف پاکستانی آرٹسٹ سلیمہ ہاشمی تھیں۔ اس نمائش میں جن فنکاروں کے فن پارے رکھے گئے، ان میں عمران قریشی کا کام سرفہرست تھا، جبکہ دیگر فنکاروں میں حمرہ عباس، بنی عابدی، فائزہ بٹ، انور سعید، ایاز جوکھیو، نائیزہ خان، عارف محمود، ہما مولجی، اسما مندرا والا، راشد رانا، علی رضا، عدیل سلیمان اور مہرین زبیری شامل ہیں۔ ماضی کے ایک معروف مصور ’’ظہور الاخلاق‘‘ کا بھی ایک فن پارہ اس نمائش کا حصہ بنایا گیا تھا۔

پاکستان کے بڑے شہروں، کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں مختلف آرٹ گیلریوں میں آرٹسٹوں کے فن پاروں کا اہتمام کیا گیا۔ ان کی ویب سائٹس پر ان نمائشوں کی تفصیلات دیکھی جاسکتی ہیں، کراچی میں جن آرٹ گیلریوں نے کورونا سے پیدا ہونے والے تعطل کے بعد رواں برس فنی سرگرمیوں کا آغاز کیا، ان میں سرفہرست آرٹ چوک گیلری، وی ایم آرٹ گیلری، کوئل آرٹ گیلری، گندھارا آرٹ گیلری، کلفٹن آرٹ گیلری، آرٹ سٹی، اسٹوڈیو سیون، ٹی ٹو ایف گیلری، آرٹ سین گیلری، کینوس گیلری، انڈس ویلی اسکول آف آرٹ اینڈ آرکیٹیکچر، اوشن آرٹ گیلری، گندھارا آرٹ اسپیس، آرٹ کام گیلری، مین فریم دی گیلری، آرٹ ون سکسٹی ٹو اور چوکنڈی آرٹ گیلری شامل ہیں۔

لاہور میں واقع نمایاں آرٹ گیلریاں، جنہوں نے آرٹ سین کو دوبارہ سے متحرک کیا، ان میں نیرنگ آرٹ گیلری، یونیکورن گیلری، نیرنگ آرٹ گیلری، نیٹیو آرٹ گیلری، کوپیرا آرٹ گیلری، آواری ہوٹل آرٹ گیلری، حمائل آرٹ گیلری، تاثیر آرٹ گیلری، اعجاز آرٹ گیلری، دی کلیکٹر گلیریا شامل ہیں، جبکہ اسلام آباد میں ست رنگ گیلری، گیلری سکس، تنزارا گیلری، خاص گیلری، مائی آرٹ ورلڈ، نوماد گیلری ، جھروکا گیلری اور پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹ کی گیلری شامل ہے۔

ان گیلریوں کے ذریعے عصری فن پارے نمائش پذیر ہو رہے ہیں۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے گرافک ڈیزائنر اور مصور ریاظ احمد جو کئی ہزار کتابوں کے سرورق بناچکے ہیں، اس سال بھی انہوں نے متعدد کتابوں کے سرورق پینٹ کیے، انفرادی حیثیت میں اس طرح کا کام بھی مصوری کے شعبے میں گراں قدر خدمات کے طورپر لیا جائے گا، جن کی بدولت مصوری کا منظرنامہ مزید زرخیر ہوتا ہے۔

رواں برس کے تازہ ترین رجحانات دیکھے جائیں کہ مصوری کے شعبے میں کس نوعیت کا کام ہوا، تو ہم دیکھتے ہیں، کراچی میں مصوروں کی ایک بہت بڑی تعداد انفرادی حیثیت میں اپنے آرٹ ورک کی تخلیق میں مصروف رہی۔ پاکستان کے معروف مصور جمی انجینئر نے اپنی تازہ پینٹنگز پر کام کیا ہے، جس کو کچھ عرصے میں نمائش کے لیے پیش کیا جائے گا، اسی طرح معروف مصور مہتاب علی نے پاکستانی مصوری میں نسائی جمالیات کے تناظر میں مزید نیا کام کیا ہے، جس میں بہت ساری پینٹنگز کی سیریز بنائی ہے، اس کو عنقریب نمائش کے لیے پیش کیا جائے گا، اسی طرح ایک اور معروف مصور وصی حیدر بھی اپنے کام سے جڑے ہوئے ہیں، کچھ عرصہ پہلے ان کا اسٹوڈیو بارشوں سے متاثر ہوا تھا، انہوں نے اس کونئے سرے سے قائم کیا ہے۔ ایک اور بہت ہی کہنہ مشق مصور شمیم باذل بھی مختلف فکری موضوعات پر پینٹ کر رہے ہیں، حال ہی میں انہوں نے اردو ادب کی ممتاز شخصیت’’ڈاکٹر جمیل جالبی‘‘ کا پورٹریٹ بنایا،جو رواں برس میں کسی آرٹسٹ کا کسی ادیب کوشاندار خراج عقیدت ہے۔

شہر قائد میں مصوری کے تازہ منظرنامے کو دیکھا جائے تو نوجوان نسل پر مبنی مصوروں کی تصاویر کی ایک نمائش کا اہتمام کینوس آرٹ گیلری نے کیا، جس میں آٹھ نوجوان مصوروں کا کام نمائش کے لیے پیش کیا گیا تھا۔ ان فنکاروں میں زین المرسلین، شمس العارفین ہاشمی، رضوان چنا، سیدہ سیرت زینب، مریم ارشد، مامون طاہر، فہیم گل اور ماہا سہیل شامل تھیں، پھر دن کے آٹھ پہر کے نام سے بھی ایک نمائش ہوئی، جس میں آٹھ فنکاروں نے ہی حصہ لیا جو کہ فل سرکل آرٹ گیلری میں منعقد ہوئی تھی۔ اسی گیلری میں ’’ایکسیس میٹاسس‘‘ کے عنوان سے ڈرائنگ آرٹ پر مبنی شاندار نمائش کی گئی تھی۔

کینوس آرٹ گیلری کے تحت ہونے والی ایک اور اہم نمائش میں ملک بھر سے مختلف فنکاروں کے فن پارے رکھے گئے، ان میں نیشنل کالج آف آرٹ، انڈس ویلی اسکول آف آرٹ اینڈ آرکیٹیکچر، بیکن ہائوس یونیورسٹی، پنجاب یونیورسٹی کالج آف آرٹ اینڈ ڈیزائن سمیت مختلف اداروں سے وابستہ ہنرمند شامل تھے۔ا ن میں احسن میمن، ثانی بخاری، سیمین آغا، نمیر عباسی، رمشا عمران، مرزا ذیشان، میثم حسین، آمنہ رحمان، حیا زیدی، علی شارق جمالی، انوشہ رام چند نوولانی شامل تھے۔

گورنر ہائوس کے احاطے میں ہونے والی نمائش بھی اپنے فن پاروں کی وجہ سے یادگار رہی تھی، جس کا کریسنٹ آرٹ گیلری نے کیا تھا۔ اس نمائش میں ماسٹرز کا کام رکھا گیا، جن میں چترا پریتم، مشکور رضا، ایم اے بخاری، تصدق سہیل، اقبال حسین شامل تھے۔ صوبائی محکمہ ثقافت ،سندھ کے تحت چار روزہ تصویری نمائش میں سمبارا آرٹ گیلری کی طرف سے اہتمام کیا گیا، جس میں سندھ کی ثقافت کے تناظر میں تصاویر کی نمائش تھی۔ معروف نقاد، مصور اورماہر تعلیم قدوس مرزا کی پینٹنگز کی نمائش بھی ’’ونس آپائون مینی ٹائمز‘‘ کے عنوان سے ہوئی، جس میں انہوں نے اپنی مصورانہ صلاحیتوں کا بے حد تخلیقی انداز میں اظہار کیا تھا۔

ایرانی انقلاب کی بیالیسویں سالگرہ کے موقع پر آرٹس کونسل آف پاکستان، کراچی کی احمد پرویز آرٹ گیلری میں تین روزہ ایرانی ثقافتی نمائش ہوئی، جس میں آرٹ کی مختلف اقسام کو نمائش کے لیے پیش کیا گیا۔ یہ نمائش ایرانی ثقافتی مرکز خانہ فرہنگ کے تحت منعقد کی گئی تھی۔ اسی طرح فرانسیسی ثقافتی مرکز کے تحت بھی بہت ساری نمائشوں کا اہتمام کیا جاچکا ہے، جبکہ مختلف آرٹ اسکولوں کے تحت بھی انفرادی اور اجتماعی طورپر مختلف نمائشوں کا اہتمام کیاجاتا ہے اور تدریسی شعبے میں بھی آن لائن تدریس میں خاصا وقت گزرا۔

معروف ڈراما نگار اور مصور انور مقصود نے بھی کورونا کے شب و روز میں پینٹنگز بنائیں اور مصوری کے پہلوسے کافی جہتوں میں کام کیا۔ نوجوان نسل کی آرٹسٹوں کے انتخاب میں، مغربی دنیا کے معروف عالمی جریدے’’فوربز‘‘ نے پاکستانی آرٹسٹ’’میشاجاپان والا‘‘ کو ایشیا کے 30 نوجوان نسل کے فنکاروں اور ہنرمندوں کی فہرست میں شامل کیا، اس فہرست میں مزید 13پاکستانی شامل تھے، جن میں سے ایک’’میشاجاپان والا‘‘ تھیں۔ آرٹ چوک گیلری میں’’امید کی کرن‘‘کے عنوان سے نمائش ہوئی، جس میں مصوری کے مستقبل کے لیے مثبت امیدوں کا اظہار کیا گیا۔ موجودہ کراچی کے نمایاں فنکاروں میں، جنہوں نے رواں سال کافی توجہ حاصل کی، ان میں نادرہ، محمدذیشان، سمیرا راجا، عابد مرچنٹ و دیگر شامل ہیں۔

ملک کے مختلف شہروں میں بھی آرٹ کی نمائشوں کا اہتمام ہوا، نمونے کے طورپر لاہور میں’’آرٹسوچ کنٹیمپریری‘‘ گیلری کے تحت’’وژن ویوورز‘‘ کے عنوان سے نمائش ہوئی، جس میں پورے ملک سے 26 مختلف فنکاروں کاکام نمائش کے لیے پیش کیا گیا، اس میں تجریری اور دیسی آرٹ، ورثے کا تحفظ اور سماجی مسائل کے عنوانات پر نمائش تھی۔ پاکستان کے تاریخی ادوار عظیم تہذیبی ورثے کے تناظر میں مغل اور گندھارا تہذیوں پر بھی عمدہ کام پیش کیا گیا، اس نمائش میں پورے پاکستان کے فنکاروں کی عکاسی ہوئی۔

اسلام آباد میں پاک آرٹ کلیکٹیو کے تحت 20 نئے مصوروں کی پینٹنگز کی نمائش کا اہتمام کیا گیا، اس طرح کی نمائشوں سے نئے آرٹسٹوں کے لیے بھی نئے در وا ہوتے ہیں۔ بہاولپور کی اسلامیہ یونیورسٹی میں ہاکڑا آرٹ گیلری کے تحت جنوبی پنجاب کے فنکاروں کا کام نمائش کے لیے پیش کیا گیا، یہ آرٹ گیلری جنوبی پنجاب میں سب سے بڑی گیلری ہے، جہاں مصوری، مجسمہ سازی اور دیگر آرٹ کے شعبوں میں جدت طرازی سے کام کیا جا رہا ہے۔ اس آرٹ گیلری کی طرز تعمیر میں دراوڑ قلعہ کے ماڈل کو مدنظر رکھا گیا ہے۔

پورے ملک میں آرٹسٹ اب بھی اپنے اپنے کینوس پر رنگوں کی زباں تخلیق کر رہے ہیں، امید کرتے ہیں، گزرتے وقت کے ساتھ معاشرت اپنے معمول کی طرف لوٹ آئے گی اور رنگ و نور کی یہ بہاریں ہمارے لیے ذوق کی تسکین کا سامان کرتی رہیں گی۔ آرٹ پڑھانے والے اسکول، کالجز، جامعات اور اکادمیوں میں آرٹ کی تدریس پاکستان میں مصوری کے مستقبل کے لیے بھی نئے ہنرمند مہیا کرے گی۔

کینوس پر اُلجھی ہوئی لکیروں اور رنگوں کے مختلف انداز

مصوری کے فن میں مصور اپنے اپنے خیالات کا اظہار مختلف انداز میں کرتے ہیں، کیونکہ ہر ایک کا زاویہ نگاہ مختلف ہوتا ہے۔ جہاں ان کا طرزِ فن مختلف ہے، وہیں یہ اپنے خیالات کے اظہار کے لیے مختلف میڈیمز کا انتخاب کرتے ہیں، جن کے ذریعے وہ اپنے احساسات کو باریک بینی اور مہارت سے کینوس پر تخلیق کرسکیں۔ مصوری کی اصناف میں مقبولِ عام صنف آئل پینٹنگ ہے، جس میں تجریدی اور تجسیمی دونوں طرح سے مصور اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہیں، تجریدی انداز میں خیالات، کینوس پر الجھی ہوئی لکیروں اور رنگوں سے پیش کیا جاتا ہے، جس کی تفہیم ذرا مشکل سے ہوتی ہے، لیکن اکثر بڑے اور اچھوتے خیالات کے لیے اس انداز کو مصوری کی دنیا میں بہترین تسلیم کیا جاتا ہے، جبکہ دوسرے انداز میں، جس کو تجسیم کہتے ہیں۔

اس میں پینٹ کرتے ہوئے اس کی ظاہری شکل و صورت کو مدنظر رکھا جاتا ہے، مثال کے طور پر اگر کسی شخص کا پوٹریٹ ہے تو وہ ویسا ہی ہونا چاہیے جیسا کہ وہ دکھائی دیتا ہے، اسی طرح مختلف فطری مناظر، جانوروں اور چرند و پرند کی تصویریں بھی ہوبہو دکھائی دینی چاہیں، اس اندا زکوعام و خاص پسند کرتے ہیں۔ رواں برس اس حوالے سے جن فنکاروں نے نمایاں کام کیا، ان میں محمد عمران قریشی ہیں، جن کو 2021 میں حکومت پاکستان نے ستارہ امتیاز سے نوازا، انہوں نے اپنے فن کے ذریعے دہشت گردی، قتل و غارت گری اور اس سے جڑی نفسیات کو اپنے فن پاروں میں تجریدی انداز سے پیش کیا۔

نئے آرٹسٹوں میں مہرین رضا کا کام بھی ایک مثال ہے، انہوں نے سیدھے سادھے انداز میں تصاویر کو پینٹ کرکے آرٹ کے ناقدین کی توجہ اپنی طرف دلوائی ہے۔ اسی طرح ایک بہت ہی ہنرمند مصورہ فائزہ خالد نے بھی اپنے فن سے سب کو حیران کر دیا ہے، وہ کافی کی مدد سے پینٹنگز بناتی ہیں، اب تک درجنوں تاریخی عمارات کی تصاویر بنا چکی ہیں۔ وہ پاکستان کی پہلی خاتون ہیں، جو کافی سے مصوری اور خطاطی کر رہی ہیں۔ رواں برس بھی انہوں نے پاکستان کی کئی مشہور تاریخی عمارتوں کی تصاویر بنائیں اور خطاطی کے فن کا بھی مظاہرہ کیا۔ اسی سال مصوری کے تناظر میں ایک اہم کتاب شائع ہوئی، جو ملتان سے تعلق رکھنے والے معروف مصور زوار حسین کی ہے، اس کتاب کا نام’’جدیدفنِ مصوری‘‘ ہے، جس میں متعلقہ مصور کے مضامین کو یکجا کیا گیا ہے اور اس کو جمیل شاہ نے مرتب کیا ہے۔ اس فنکار کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ عبدالرحمن چغتائی بھی کسی حد تک زوار حسین سے متاثر تھے۔

رواں برس میں ہی الحمرا آرٹ میوزیم میں پاکستان کے کئی بڑے مصوروں کے فن پاروں کو نمائش کے لیے پیش کیا گیا، جن میں 118 مصوروں کے 300 سے زائد فن پارے شامل ہیں ۔ ان میں شامل مصوروں میں عبدالرحمن چغتائی، استاد اللہ بخش، صادقین، شاکر علی، ایس صفدر، حنیف رامے، احمد پرویز، کولن ڈیوڈ، اسلم کمال، جمی انجینئر، میری کترینا، کامل خان ممتاز، مولیکا احمد، سعید اختر، زبیدہ آغا، خالد اقبال و دیگر شامل ہیں ، نوجوان نسل کے فنکار ان فن پاروں سے استفادہ کر رہے ہیں۔

خطاطی

پاکستان میں مصوری کے شعبے میں خطاطی کرنے والے مصوروں میں کچھ ایسے بھی گزرے ہیں، جن کو اس فن میں بے حد شہرت ملی، ان میں صادقین، گل جی، اسلم کمال، محمد علی زاہد، احمد خان، پروفیسر عارف خان اورحنیف رامے سمیت کئی نام ہیں۔ خطاطی کے شعبے میں سابق امریکی صدر بارک اوباما نے کہا تھا کہ خطاطی وہ شعبہ ہے، جس میں دنیا بھر سے مسلمانوںنے کلیدی انداز میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ گزرتے برس بھی اس حوالے سے کئی نمایاں نام ہیں، جنہوں نے کام کیا،رواں برس دبئی ایکسپو میلے میں پاکستانی آرٹسٹوں نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا، جن میں سب سے نمایاں کام پاکستان کے عالمی شہرت یافتہ آرٹسٹ شاہد رسام کا ہے۔

انہوں نے مصوری کے جدید میڈیم کے تحت دنیا کے سب سے بڑے سائز کے قرآن مجید کو متصور کیا جس کے حروف سونے اور المونیم سے کندہ کیے گئے ہیں۔ اس منصوبے کو مکمل کرنے کے لیے ان کو پانچ برس لگے۔ 550 بڑے صفحات اور 80 ہزار الفاظ پر مشتمل، یہ دنیا کا سب سے بڑا قرآن مجید ہے، پوری اسلامی دنیا میں اس کام سے پاکستان کانام فخر سے بلند ہوگیا ہے۔

اسی طرح خطاطی کے شعبے میں ایک اہم نام محمد علی زاہد کا ہے، انہوں نے سال 2021 میں خطاطی کا معروف بین الاقوامی مقابلہ’’البرکہ ‘‘ جیتا اور پہلے پاکستانی بن گئے۔ یہ مقابلہ ترکی میں ہوا تھا، جس میں وہ فاتح قرار پائے۔ ملتان سے تعلق رکھنے والے معروف ملتان سے تعلق رکھنے والے پاکستانی خطاط محمد مختاط علی بھی اس ضمن میں کافی کام رہے ہیں اور اس سال بھی انہوں نے بہت سے فن پارے تیار کیے، جن کو مختلف ثقافتی و ادبی اداروں اور انفرادی حیثیت سے مختلف افراد نے ان سے حاصل کیا، پاکستانی خطاطی میں محمد مختارعلی ایک اہم نام ہیں۔