تجارت و معیشت میں برکت کے ذرائع و اسباب

January 07, 2022

مولانا نعمان نعیم

اسلام ایک کامل و مکمل دین اور ابدی ضابطۂ حیات ہے،یہ دینِ انسانیت ہے،اس کی تعلیمات پر عمل دین و دنیا کی کامیابی اورآخرت کی ابدی اور لافانی زندگی میں نجات اور فلاح کی ضمانت ہے۔ اللہ تعالیٰ کا احسان ہےکہ اس نے ہمیں ایک ایسے دین سے وابستہ کیا جس نے اپنے ماننے والوں کو زندگی گزارنے کے لیے عمدہ اصول بنائے، جسے مدِنظر رکھ کر ہر آ دمی اطمینا ن اور سکون کے ساتھ اپنی زندگی کی کشتی کو کنا رے لگا سکتا ہے، لہٰذا یہ ممکن نہیں ہو سکتا کہ اسلام نے ہمیں ایسے طریقے نہ بتا ئے ہوں جس سے ہماری تجارت میں برکت نہ ہو۔

ارشادِ ربانی ہے: ’’جو شخص تقو یٰ اختیار کرے تو اللہ اس کے لئے ہر مصیبت اور پریشانی سے نکلنے کی سبیل نکال دیتا ہے ‘‘۔پتاچلا کہ اگرہم بھی اپنی تجارت میں ہونے والی پریشانی سے نکلناچا ہتے ہیں تو سب سے پہلے متقی یعنی اللہ سے ہر حال میں ڈ رنے والے بن جا ئیں، اب تقو یٰ کسے کہتے ہیں ،تو جان لیجیے کہ اللہ کی چاہت اور مر ضی پرچلنے کو، اورنامرضیات سے بچنے کو، لہٰذا اگر ہم اپنی تجارت میں کذب بیانی، جھوٹ، دھوکا دہی، جھوٹی قسم، سودخوری، رشوت خوری ،ظلم ،غصب، چوری ،خیانت ،حرام چیزوں کی خرید و فروخت سے اجتناب کرتے ہیں، تو ہماری تجارت میں خو د بخود برکتیں نازل ہونے لگیں گی۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے(ترجمہ)’’اگر تم شکر گزاری کروگے تو میں ضرور بالضرور نعمتوں میں اضافہ کروں گا ‘‘۔ اس آیت سے اللہ یہ بتانا چاہتا ہے کہ انسان جب تجارت کرے اور تجارت کے بعد جو کچھ بھی نفع مل جائے ،اس پر اللہ کا شکر ادا کیا جائے، تو اللہ تجارت میں برکتوں کو نازل کرے گا،لہٰذا جوبھی تھوڑا بہت ہاتھ لگے ،اس پر اللہ کا شکر بجا لائے آپ کی تجارت میں خود بخود نفع بڑھنے لگے گا۔

ایک مقام پر فرمایا گیا (ترجمہ)اللہ رب العزت سود کو ملیا میٹ کر دیتا ہے اور صدقات میں بڑھوتری کرتا ہے ۔ اس آیت سے پتا چلتا ہے کہ سود کے ذر یعے اگرچہ ظاہر ی نظر سے مال میں بڑھو تر ی نظر آتی ہے، لیکن حقیقتاً وہ بڑھوتری اور اضافہ نہیں ہوتا ،بلکہ کمی ہوتی ہے، کیونکہ سود کے سبب مال اور جان پر جو پریشانیاں پے در پے آتی رہتی ہیں اور وہ حرام مال کے ساتھ دوسرا مال بھی اس کے پیچھے خرچ ہوتا ہے۔

اللہ ہم سب کو سود جیسی تباہ کن بیماری سے محفوظ فرمائے۔پھر آگے ارشاد فرمایا: اللہ صدقات کو بڑھو تری دیتا ہے، اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ صدقہ خیرات دینے سے ظاہراً اگرچہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ مال میں کمی ہوگئی، لیکن حقیقت میں مال میں اضافہ ہوتاہے کیونکہ اللہ رب العزت صدقے کی برکت سے مال میں برکتوں کو ڈال دیتا ہے، اور مالی پریشانی اور رزق میں تنگی کو دور کردیتا ہے یہ تو دنیا کا معاملہ ہے اور آخرت میں صدقہ کی نیکیاں پھر الگ ہوں گی۔

حضرت عثمان ابن عفان ؓ نے اللہ کے راستے میں بے دریغ اور بے حساب مال خرچ کیا تو ان کے مال میں اضافہ ہی ہو تا گیا ۔اسی طرح حضرت عبدالر حمٰن بن عوف ؓ نے اللہ کے راستے میں بے تحاشا مال خرچ کیا تو ان کے مال میں بھی کبھی ہم نے کمی کے بارے میں نہیں پڑھا،بلکہ یہ مقدس شخصیات ایسی تھیں کہ ان کی دنیا بھی سنور گئی اور آخر ت میں بھی اللہ کی جانب سے خوشنودی کا سرٹیفکیٹ مل گیا۔

اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا : اے ایمان والو، کیا میں تمہاری ایسی تجارت کی طرف رہنمائی کروں جو تمہیں دردناک عذاب سے بچالے ۔ اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان لے آوٴ اوراللہ کی راہ میں اپنے مال و جان سے جہاد کرو، اگر تم یہ سمجھو، یہ چیز تمہارے حق میں بہتر ہے۔ اس آیت میں اللہ نے ارشاد فرمایا کہ انسان کی بہتری اسی میں ہے کہ اللہ اوراس کے رسولﷺ پرایمان لے آؤ اور پھر اپنی جان ومال کو اس کے راستے میں کھپا دو، پتا چلا کہ ایمان میں پختگی اور ثبات قدمی، جہاد فی سبیل للہ سے بھی انسانی حا لات درست ہوجاتے ہیں اور رزق میں برکتیں نازل ہوتی ہیں۔

قرآن کریم میں فرمایا گیا: صالحین تو وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ کے ذکر کرنے اور نماز پڑھنے اور زکوٰۃ دینے سے نہ تو سوداگری اورنہ ہی خرید و فروخت غافل کرتی ہے، وہ ڈرتے ہیں اس دن سے جب دل (خوف اور گھبراہٹ ) کے سبب الٹ جائیں گے، آنکھیں (اوپر چڑھ جائیں گی )تاکہ اللہ رب العزت انہیں ان کے اعمال کا بہتر ین بدلہ دے اور اپنے فضل سے زیادہ بھی کردے، اور اللہ رب العزت جسے چاہتا ہے، بے حساب رزق عطا فر ماتا ہے ۔ ہماری زند گی کا مقصد دین ، تقویٰ ،عبادت اور ذکراللہ، نہ دنیا نہ مال نہ عیش وعشر ت جیسا کہ قرآن کی یہ آیت بتارہی ہے یعنی تجارت وخرید و فروخت انہیں اللہ کے ذکر سے (جو مقصود موٴمن ہے )غافل نہیں کرتی ۔

اکثر مسلمانوں نے تجارت کو مقصد اصلی بنا لیا جس کے نتیجے میں محبت کے رشتے کمزور ہوگئے اور جھگڑوں اور فتنوں کا ایک طوفان برپا ہوگیا ۔مگر آج کل اکثر مسلمانوں کی خصو صاً مغرب زدہ اور یورپ سے متأثر تعلیم یافتہ لوگوں کے شب وروز حرکات وسکنات افعال وکردار اقوال واعمال سے ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا ہی انہیں محبوب ہے اور وہی ان کا مقصد ہے ،مذہب کو محض اس لئے اختیار کرتے ہیں ،تاکہ اس کے ذریعے مصالح دنیا محفوظ رہیں۔

باقی دین کواصل حیثیت میں اختیار نہیں کرتے ،اگر ایسا ہوتا تو دینی امور کوازخود اختیار کرتے اور انہی کو پسند کرتے دوسری قوموں یعنی یورپی اقوام کی تقلید نہ کرتے اور ان کی طرف نہ دیکھتے، پس ان لوگوں کی بڑی غلطی یہ ہے کہ یہ لوگ دنیا کو اصل مقصد اور دین کو تابع فرما دیتے ہیں۔ جب انسان اپنے آپ کو دین کا پابند اور تابعدار بناتا ہے تو اس پر رزق کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔ کیونکہ اللہ نے ایک قانون بیان کیا جوپابندی سے صوم و صلوٰۃ کرے، اور فریضہٴ زکوٰۃ ادا کرے، اور اللہ سے ڈرتا رہے، تو اللہ ربّ العزت اسے بہترین بدلہ دیتا ہے ۔

سورۂ نوح میں اللہ رب العزت حضرت نوح علیہ السلام کاان کی قوم کو نصیحت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے: میں نے اپنی قوم سے کہا کہ تم اس پروردگار سے استغفار کرو، یعنی گناہوں کی بخشش طلب کرو،بےشک، وہ بہت زیادہ بخشنے والا ہے،(استغفار کی برکت سے) تم پرموسلادھار بارش برسائے گا،مال اور اولاد کے ذریعے تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے لئے باغات کی ریل پیل کردے گا اور نہروں کو جاری کردے گا۔

قرآن کریم کی اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ استغفار سے رزق میں برکات اترتی ہیں اور اولاد میں بھی برکت ہوتی ہے، کیونکہ ایک ایسا جلیل القدر نبی جس کی دعوت ساڑھے نو سو سال رہی، وہ نبی اپنی قوم کو یہ بات کہہ رہا ہے اور پھر قرآن جیسی عظیم کتاب اسے نقل کررہی ہے، پتا چلا کہ یہ ایک لازمی امر ہے کہ استغفار سے رزق میں برکات اور انوار کا ورود ہوتا ہے۔

قرآن کریم نے اسے دوسری جگہ اس طرح فرمایا :اللہ رب العزت آپ کے ان کے درمیان ہوتے ہوئے انہیں عذاب نہ دے گا، اور وہ استغفار کر رہے ہوں، تب بھی اللہ انہیں عذاب دینے والا نہیں۔ اس آیت سے معلو م ہوا کہ اگر کسی قوم کے افراد برابر استغفار میں لگے رہے تو ان پر قہر خدا وندی نہیں اتر تا ،چا ہے وہ قحط کی صورت میں، چاہے وہ تنگی رزق کی صورت میں ہو یا چاہے وہ طاعون، سارس اور مہلک امراض کی صورت میں ہو۔ بہرحال استغفار کی برکت سے آدمی اپنے رزق میں برکت نازل کرو ا سکتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ اور بھی ان گنت فائدے اس کے ضمن میں پاسکتا ہے ۔

صبح کا وقت بڑا با برکت وقت ہے ۔ اس میں بہت زیادہ برکتیں اور رحمتیں ہیں، لہٰذا تاجر کو چاہئے کہ وہ جلد از جلد بستر کو چھوڑ دے اور ہو سکے توتہجد پڑھے ورنہ فجر کی نماز کا ضرور اہتمام کرے ،پھر کچھ دیر قرآن کی تلاوت میں صرف کرے اور کچھ دیر ذکر خداوند ی میں صرف کرے اور پھر بجائے دوبارہ سونے کے اگر اشراق کا وقت ہوجائے تو اشراق کی کم سے کم دو رکعت ہی ادا کر ے۔

نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا: اے ابن آدم! تو میرے لیے دو رکعت دن کے ابتداء حصہ میں پڑھے،میں دن کے آخری حصے تک تیرے لیے کا فی ہو جاؤں گا ۔اسی لیے نبی کریم ﷺ یہ دعا فرماتے تھے: اے اللہ! میرے دن کےآغاز کو نیک عمل کا حصّہ بنا کہ مجھے نیک عمل کی توفیق ہو جائے، تاکہ سارادن اللہ کی نصرت اور مدد میرے ساتھ رہے۔

ایک حدیث میں ہے ۔نبی کر یم ﷺنے ارشاد فرمایا ”بارک اللہ لامتی فی بکورھم“ یا پھر یہ الفاظ ہیں ”اللّٰھم بارک لامتی فی بکورھم“ یعنی اللہ تعالیٰ نے میری امت کے لیے صبح سویرے میں برکت رکھی ہے یا اے اللہ میری امت کے صبح کے وقت میں برکتیں نازل فرما۔ یہ بات آپﷺ نے صرف ذکر یا عبادت کی حد تک نہیں فرمائی، بلکہ ایک شخص جو تاجر تھے۔ ان سے آپ ﷺ نے یہ جملہ ارشاد فرمایا کہ تم صبح سویرے اپنی تجارت کے کام کو انجام دیا کرو، وہ صحابیؓ فرماتے ہیں ،حضور اقدس ﷺ کے یہ ارشاد سننے کے بعد میں نے اس پر عمل کیا اور صبح ہی اول وقت میں تجارت کا عمل شروع کیا کر تا تو اللہ نے مجھے اس کی برکت سے اتنا مال عطافرمایا کہ لوگ مجھ پر رشک کرنے لگے ۔

اب ہمارے یہاں ساری قدریں الٹ ہوگئیں دن کے گیارہ یابارہ بجے تک بازار بند رہتا ہے۔ اس کے بعد کاروبار شروع ہوتا ہے۔ گیارہ بجے کا مطلب دوپہر گویا دن کا ایک پہر تو بیکار نیند اور غفلت کی حالت میں گزر گیا۔ نہ نماز، نہ ذکر ،نہ تلاوت ،بلکہ گناہوں میں گزرگیا، کہیں فلم دیکھنے میں، کہیں گانے سننے میں، کہیں گپ شپ میں، پھر ہر شخص کی زبان پر یہ رونا کہ کاروبارتباہ ہے۔ کہا ں سے کاروبار چلے ۔

نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا: اللہ رب العزت ہی رزق میں فراخی اور کشادگی کرنے والا ہے، وہی کاروبار میں مندی ڈالنے والا، وہی قسمتوں کو متعین کرنے والا اور رزق دینے والا ہے۔ اب جب ہم نے ہی اپنے تعلقات کو اپنے رب کے ساتھ کمزور کردیا، جب کہ کاروبارمیں ترقی دینا اسی کے قبضۂ قدرت میں ہے تو پھر وہ بھی ہم پر کیوں برکتوں کو نازل کرے گا، لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ اپنے رب سے تعلق کو قائم کیا جائے اور اس کے رسولﷺ کے بتائے ہوئے راستے کو اپنایا جائے اور صبح سویرے نماز، ذکر، تلاوت وغیرہ سے فارغ ہوکر اپنی تجارت کا آغاز کیا جائے، پھر دیکھیں کیسے برکتیں نازل ہوتی ہیں۔