آپ کے مسائل اور ان کا حل
سوال: میری بیوی کی عمر 60 سال ہے، اس کے ذمے فرض حج باقی تھا، اس سال گنجائش ہونے کی وجہ سے اس نے حج کی درخواست جمع کروائی ہے، اور جب حج کی پالیسی آئی تھی، اس میں عورتوں کو محرم کے بغیر سفر حج کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔
کچھ لوگوں کا کہنا یہ ہے کہ بغیر محرم کے حج کرنے میں بجائے ثواب کے گناہ ہوگا۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ محرم کی ضرورت اس زمانے میں تھی جب سفر بہت لمبا، مشکل اور پیدل ہوا کرتا تھا، اس کے علاوہ دیگر مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑتا تھا، اور فی زمانہ سفر بہت آسان ہے، جہاز کے ذریعے تقریباً چار گھنٹوں میں وہاں پہنچنا ممکن ہوچکا ہے، اور مردوں اور عورتوں کا الگ الگ انتظام ہوتا ہے۔
جب کہ ایک مفتی صاحب سے پوچھنے پر بھی یہی معلوم ہوا کہ محرم کا ہونا ضروری ہے۔ دونوں باتوں میں درست کیا ہے؟ آپ رہنمائی فرمائیں، وہ بڑی پریشان ہے، تمام پیسے جمع کرا کے اب کیا کرے؟
جواب: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہےکہ رسولِ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھنے والی عورت کے لیے یہ بات جائز نہیں ہے کہ وہ تین راتوں کی مسافت (48 میل) کے بقدر سفر کرے، مگر یہ کہ اس کے ساتھ اس کا محرم ہو ۔ (صحیح مسلم، کتاب الحج، 1 /433، ط: قدیمی)
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا کہ آپ ﷺ فرمارہے تھے ’’ کوئی عورت کسی مرد سے تنہائی میں نہ ملے اور نہ کوئی عورت بغیر محرم کے سفر کرے۔
حاضرین میں سے ایک آدمی (یہ سن کر) کھڑا ہوا اور اس نے کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ! میں نے فلاں جہاد کے سفر میں جانے کے لیے اپنا نام لکھوایا ہے، جب کہ میری بیوی حج کرنے جارہی ہے! تو آپ ﷺ نے فرمایا: جاؤ اپنی بیوی کے ساتھ حج کرو۔‘‘(صحیح بخاری، کتاب الجھاد والسير، باب: من اکتتب فی جيش فخرجت امرأتہ حاجۃ،1094/3،ط:دار ابن کثير)
رسول اللہﷺ کے مذکورہ ارشادات اس بارے میں صریح اور واضح ہیں کہ عورت کے لیے شرعی مسافت کا کوئی بھی سفر محرم یا شوہر کے بغیر جائز نہیں ہے، خواہ وہ سفر حج کا ہو، عورت تنہا سفر کرے یا عورتوں کے قافلے کے ساتھ، خواہ عورت جوان ہو یا بوڑھی، بہرصورت عورت کے لیے محرم کے بغیر شرعی مسافت کے بقدر سفر کرنا جائز نہیں۔
لہٰذا آپ کی اہلیہ اگر محرم کے بغیر حج کے سفر پر جاتی ہیں تو اگرچہ ان کا فرض حج ادا ہوجائے گا، لیکن بغیر محرم سفر کرنے کی وجہ سے گناہ گار ہوں گی، اس لیے محرم یا شوہر کے حج کا انتظام کرکے اس کے ساتھ حج پر جانے کی ترتیب بنائیں۔
یہ بھی ملحوظ رہے کہ حج کے اسباب مہیا ہونے کی صورت میں عورت پر حج فرض ہونے کے بعد بھی، ادا کرنا اس وقت فرض ہوتا ہے جب اس کے ساتھ حج پر جانے کے لیے محرم یا شوہر میسر ہو، اگر محرم یا شوہر اپنے خرچ پر حج کے لیے تیار ہو تو عورت پر حج ادا کرنا لازم ہوجاتا ہے، لیکن اگر محرم یا شوہر اپنے خرچ پر ساتھ جانے کے لیے تیار نہ ہو تو عورت پر حج کی ادائیگی فرض ہونے کے لیے اپنے حج کے اخراجات کے ساتھ شوہر یا محرم کے حج کے اخراجات كا نتظام ہونا بھی شرط ہوگا، اگر اس کا انتظام نہ ہو تو حج ادا کرنا فرض نہیں ہوگا، البتہ موت سے پہلے ایسی عورت پر حج بدل کی وصیت کرنا لازم ہوگا، تاکہ لواحقین اس کی طرف سے حج ادا کرلیں۔
رہا آپ کا یہ سمجھنا کہ محرم کی ضرورت اس زمانے میں تھی جب سفر بہت لمبا اور مشکل ہوتا تھا، جب کہ فی زمانہ سفر بہت آسان ہے، اور مردوں اور عورتوں کا الگ الگ انتظام ہوتا ہے، اس حوالے سے فرصتِ عاجلہ میں چند اُصولی باتیں لکھی جاتی ہیں، ذہن نشین کرلیجیے، امید ہے کہ ان شاء اللہ مفید ثابت ہوں گی: (1) رسول اللہ ﷺ نے مسلمان عورتوں کو محرم / شوہر کے بغیر شرعی مسافتِ سفر کے بقدر سفر کرنے سے عمومی الفاظ میں منع فرمایا ہے، اس لیے یہ حکم عام اور قیامت تک کے لیے ہے، یعنی اگر عورت صحرا میں سفر کرے، جہاں انسان موجود نہ ہو، تب بھی اسے شرعی مسافت کے بقدر سفر، محرم یا شوہر کے بغیر نہیں کرنا چاہیے، لہٰذا آج کے زمانے میں کچھ سفری سہولیات مہیا ہونے کی بناء پر یہ حکم ختم یا موقوف نہیں ہوگا۔ مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے حکم کی علت و مصلحت سمجھ میں آئے یا نہیں، بہرصورت اس پر عمل کی پوری کوشش کرے۔
(2)شریعت کے احکام کی علتیں بھی ہوتی ہیں اور حکمتیں و مصالح بھی، لیکن احکام کی علت و مصلحت سمجھنا اور اس پر مدار رکھتے ہوئے احکام کا استنباط کرنا اور مشروعیت کے اسباب بیان کرنا، اجتہاد کے باب میں مشکل ترین مرحلہ ہے، فطری اور بدیہی بات ہے کہ مسائل کا استنباط ہر شخص کی قدرت میں نہیں ہے، لہٰذا جن ائمۂ مجتہدین نے اپنی پوری زندگیاں دین کی خدمت کے لیے وقف کرکے، نصوص میں خوب غور و فکر کرکے شرعی احکام مستنبط کیے ہیں، عام مسلمان کے لیے ان پر اعتماد کرنے میں ہی عافیت ہے، گہرے اور پختہ علم کے بغیر مسائل کی علتیں اور مصلحتیں سوچنا خود کو تھکانے کے ساتھ، بعض مرتبہ دین کے احکام پر اعتماد کو کمزور کرنے کا سبب بھی بن سکتا ہے۔
(3)جیساکہ ابھی ذکر ہوا کہ شرعی احکام کی علتوں اور مصالح سے بحث ہر کہ و مہ کا کام نہیں ہے، اس لیے مذکورہ حکم کی علت و مصلحت کی بحث سے صرفِ نظر کرتے ہوئے، یہ عرض ہے کہ موجودہ دور میں کچھ سہولیات پیدا ہونے کی وجہ سے سفر کا دورانیہ گو کم ہوگیا ہے، لیکن بعض دیگر وجوہ سے خطرات مزید بڑھ چکے ہیں، عرب لوگ تو جاہلیت میں بھی حج اور عمرے کے قافلوں کا احترام کرتے تھے، ان پر حملے اور لوٹ مار نہیں کرتے تھے، اور قریش کے قافلوں کے امن کی ضمانت قرآنِ کریم کی نصِ قطعی سے ثابت ہے، اس پر مستزاد رسول اللہ ﷺ کی پاکیزہ تعلیمات کے بعد صحابۂ کرامؓ اور صحابیات مکرمات ؓ کی جماعت میں حج کے سفر میں کون سا خطرہ باقی رہ جاتا ہے؟ لیکن گزشتہ سطور میں مذکور حدیث ذرا ملاحظہ کیجیے کہ میاں بیوی دونوں کے اسفار کتنے مبارک تھے، شوہر کا نام حضور ﷺ کے لشکر میں بطور مجاہد لکھا جاچکا ہے، اور بیوی حج کے مبارک سفر پر قبیلے کی مسلمان عورتوں کی ہم راہی میں ہیں، اور واقعہ رسول اللہ ﷺ کے پاکیزہ دور کا ہے، لیکن آپ ﷺ نے شوہر کا نام مجاہدین کے لشکر سے نکال کر ان کی بیوی کے ساتھ حج پر روانہ فرمایا، تاکہ اہلیہ کا سفر (گو حج کا سفر تھا) محرم کے بغیر نہ ہو۔
لہٰذا آپ کوشش کیجیے کہ اہلیہ کے ساتھ ان کے کسی محرم یا آپ کے جانے کی ترتیب بن جائے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ آپ کے لیے راستے نکالے، اور تمام مسلمانوں کو اپنے اور اپنے رسول ﷺ کے احکام کی کامل اتباع نصیب فرمائے۔ (آمین)
اپنے دینی اور شرعی مسائل کے حل کے لیے ای میل کریں۔
iqra@banuri.edu.pk