• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شجر کاری: صدقہ جاریہ، ایک باعث اجر و ثواب عمل

ڈاکٹر سیّد عطا ء اللہ شاہ بخاری

یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ کائنات کا حُسن وجمال اس کی قدرتی و فطری آب و ہوا میں ہے اور انسان کے فطرت سے سرِموانحراف کی صورت بھی زمین و آسمان میں فساد و بگاڑ پیدا ہوسکتا ہے۔ 

یہ اللہ تعالیٰ کی شانِ ربوبیت ہی کا ایک مظہر ہے کہ جہاں انسانوں اور دوسرے جان داروں کو اور بہت سی نعمتیں دی گئی ہیں، وہیں اُن کو سازگار ماحول بھی عطا کیا گیا ہے۔ کئی ایسی چیزیں پیدا کی گئی ہیں، جو کثافتوں کو جذب کرلیتی ہیں اور ماحول کو مختلف النّوع آلودگیوں سے بچاتی ہیں۔ 

لیکن انسانی زندگی اور انسان کو مطلوب جان دار و بے جان وسائل کی حفاظت کے لیے ضروری ہے کہ انسان خود بھی ماحولیات کے تحفّظ کا اہتمام کرے اور ایسے امور سے بچے، جن سے فضا، زمین یا پانی وغیرہ کے آلودہ ہونے کے امکانات ہوں۔

کیوں کہ یہ حقیقت ہے کہ جنگلات کی بے تحاشا کٹائی، دریاؤں میں فضلات کے بہاؤ، پُرشور سواریوں اور مشینوں کے استعمال اور اسی طرح کی مختلف سرگرمیوں ہی کی وجہ سے ماحولیات میں عدم توازن پیدا ہورہا ہے۔ آلودگی بڑھ رہی ہے اور طرح طرح کی بیماریاں جنم لے رہی ہیں۔

یہ قدرت کا عجیب نظام ہے کہ اس کائنات میں جہاں ماحول کو آلودہ کرنے والے غیر قدرتی عوامل پائے جاتے ہیں، وہیں ربِ کائنات نے ماحولیاتی کثافتوں کو جذب کرنے والے اہم ترین ذرائع بھی پیدا کر رکھے ہیں۔ 

زمین میں اللہ تعالیٰ نے ایسی صلاحیت رکھی ہے کہ وہ ساری غلاظتوں کو اپنے سینے میں دفن کرلیتی ہے۔ ذرا سوچیں، مرنے والے انسان اور دیگر جانور اگر زمین میں دفن نہ کیے جائیں، تو سارا ماحول کس قدر متعفّن ہوکر رہ جائے۔ اسی طرح کوڑا کرکٹ کی شکل میں موجود مَنوں ٹنوں غلاظت بھی زمین ہی اپنے سینے میں اتار کر تحلیل کردیتی ہے۔

اسلام دین فطرت اوردینِ انسانیت ہے ،اس لحاظ سے اللہ کا آخری دین،یعنی اسلام محض عقائد و عبادات کے مجموعے کا نام نہیں، بلکہ یہ ایک مکمل اور جامع نظام حیات ہے۔ اس میں انسانی زندگی کے ہر پہلو اور ہر رخ کے لیے ابدی ہدایات اور احکام موجود ہیں، ان احکام کی روشنی میں جو معاشرہ تشکیل پاتا ہے، اسے حسن کردار کا مظہر، انفرادیت اور اجتماعیت کا نہایت حسین امتزاج کہا جاسکتا ہے۔ اسلامی تعلیم کا بنیادی مقصدانسانی معاشرے اور ماحول کی اصلاح کرنا ہے، کیوں کہ ماحول کااثر انسان کی جسمانی بناوٹ، رہائش، طرزِ حیات، غذا اور دیگر سرگرمیوں پر پڑتا ہے۔

درخت اللہ تعالیٰ کی نعمت عظمیٰ ہے، جس کے ساتھ دنیا میں بھی رفاقت ہے اور جنت کی تو پہچان ہی باغات اور درختوں کے ساتھ ہے۔ اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ درخت جنت کا بھی ساتھی ہے، درخت انسان، جانور چرند وپرند بلکہ درندوں کی بھی حقیقی ضرورت ہیں۔ 

درندوں کی تو زندگی ہی جنگلات اور درختوں کی مرہون منت ہے۔ جب سے جنگلات کا خاتمہ شروع ہوا، یہ درندے معدوم النسل ہوتے جارہے ہیں، جبکہ درخت انسانی آکسیجن، سایہ، پھل اور ٹھنڈک کا بھی ذریعہ ہیں۔ محققین کے مطابق درختوں کی بدولت انسان سانس لیتے ہیں۔ درخت آکسیجن فراہم کرتا ہے۔

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے درختوں اور درختوں کے مختلف الگ ذائقوں کو اپنی نشانی قرار دیا ہے ملاحظہ ہو: ’’ اور زمین میں مختلف قطعے ہیں جو پاس پاس واقعے ہوئے ہیں اور انگور کے باغ اور کھیتیاں اور کھجور کے درخت ہیں، جن میں سے کچھ دہرے تنے والے ہیں، اور کچھ اکہرے تنے والے۔ سب ایک ہی پانی سے سیراب ہوتے ہیں، اور ہم ان میں سے کسی کو ذائقے میں دوسرے پر فوقیت دے دیتے ہیں۔

یقیناً ان سب باتوں میں ان لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو عقل سے کام لیں‘‘۔ (سورۃ الرعد) دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے درختوں کو اپنی نعمتوں میں سے ایک نعمت قرار دیا ہے، ارشاد فرمایا:’’ بھلا وہ کون ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، اور تمہارے لیے آسمان سے پانی اتارا ؟ پھر ہم نے اس پانی سے بارونق باغ اگائے، تمہارے بس میں نہیں تھا کہ تم ان کے درختوں کو اُگا سکتے۔ 

کیا (پھر بھی تم کہتے ہو کہ) اللہ کے ساتھ کوئی اور خدا ہے؟ نہیں! بلکہ ان لوگوں نے راستے سے منہ موڑ رکھا ہے‘‘۔(سورۃ النمل) قیامت تک انسانیت کی رہنمائی کرنے والے دینِ اسلام نے جہاں موجودہ دَور کے دیگر مسائل کا حل پیش کیا ہے، وہیں اس کی تعلیمات میں ماحولیاتی آلودگی کا حل بھی موجود ہے۔

محسن انسانیت حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ شجر کاری کو فروغ دینے کے لئے ایمان والوں پر شجر کاری کو صدقہ قرار دیا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا ’’جو مسلمان دَرخت لگائے یا فَصل بوئے ،پھر اس میں سے جو پرندہ یا اِنسان یا چوپایا کھائے تو وہ اس کی طرف سے صَدقہ شُمار ہوگا ۔ (صحیح بخاری )

آپ ﷺ نے شجر کاری کو اتنی اہمیت دی کہ اس عمل کو قیامت تک جاری رکھنے کا حکم فرمایا۔ ارشادِ نبویؐ ہے: ’’اگر قیامت کی گھڑی آجائے اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں پودا ہے اور وہ اسے لگا سکتا ہے تو لگائے بغیر کھڑا نہ ہو۔(مسند احمد ) آپ ﷺ کی تعلیمات میں نہ صرف درخت لگانے کے متعلق احکام ملتے ہیں، بلکہ درخت، پودے لگا کر اس کی حفاظت کے بھی واضح احکام ملتے ہیں۔

(ترجمہ)جو کوئی درخت لگائے ،پھر اس کی حفاظت اور نگرانی کرتا رہے یہاں تک کہ وہ درخت پھل دینے لگے ،وہ اس کے لئے اللہ کے یہاں صدقہ کا سبب ہوگا۔(مسند احمد ) عرب میں بالعموم ببول یا بیری کے درخت ہوا کرتے تھے، نبی کریمﷺ نے بیری کے درخت کے بارے میں فرمایا: جو بیری کا درخت کاٹے گا، اسے اللہ تعالیٰ اوندھے منہ جہنم میں ڈالےگا۔(سنن ابو داؤد)

آپ ﷺ نے جہاں عام دنوں میں درخت کاٹنے کی ممانعت فرمائی، وہاں دورانِ جنگ بھی، نہروں کو آلودہ کرنے اور درختوں کو کاٹنے کی ممانعت فرما کر نہ صرف آبی ذخائر کی حفاظت کی تعلیم دی، بلکہ ماحول کو آلودہ ہونے سے بھی بچایا۔ 

سیدنا علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں حضور نبی اکرم ﷺجب اسلامی لشکر کو مشرکین کی طرف روانہ فرماتے تو یوں ہدایات دیتے: کسی بچے کو قتل نہ کرنا، کسی عورت کو قتل نہ کرنا، کسی بوڑھے کو قتل نہ کرنا، چشموں کو خشک و ویران نہ کرنا، درختوں کو نہ کاٹنا ۔(بیہقی)

حضرت جابر ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، ’’جو مسلمان درخت لگاتا ہے، پھر اس میں سے جتنا حصّہ کھالیا جائے، وہ درخت لگانے والے کے لیے صدقہ ہوجاتا ہے، اور جو اس میں سے چوری کرلیا جائے، وہ بھی صدقہ ہوجاتا ہے۔

یعنی اس پربھی مالک کو صدقے کا ثواب ملتا ہے اور جتنا حصّہ اس میں سے چرند کھالیتے ہیں، وہ بھی اس کے لیے صدقہ ہوجاتاہے، اور جتنا حصّہ اس میں سے پرند کھالیتے ہیں، وہ بھی اس کے لیے صدقہ ہوجاتاہے، (غرض یہ کہ) جو کوئی اس درخت میں سے کچھ بھی پھل وغیرہ لے کر کم کردیتا ہے، تو وہ اس درخت لگانے والے کے لیے صدقہ ہوجاتا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم)۔ درختوں کی اسی افادیت کے پیشِ نظر آپﷺ نے ایسے درخت وغیرہ جن سے لوگوں کو فائدہ پہنچتا ہو، کاٹنے یا برباد کرنے سے سختی سے منع فرمایا ہے۔

درج بالا احادیث کی روشنی میں شجر کاری کو فروغ دینے کی اہمیت پر زور دیا جارہا ہے، شجر کاری نہ صرف ایک صدقہ و ثواب کا ذریعہ ہے، بلکہ اس کے ذریعے گلوبل وارمنگ، ہیٹ اسٹروک جیسے سنگین مسائل سے بھی نمٹا جاسکتا ہے۔ تحقیقات سے پتا چلا ہے کہ اگر گلوبل وارمنگ کو روکا نہیں گیا تو یہ دنیا کو صفحہ ہستی سے مٹا سکتا ہے اور اس کا حل ہے تو صرف اور صرف درخت۔ درخت سے گلوبل وارمنگ کو زیر کیا جاسکتا ہے ، مگر افسوس آج بھی ہماری آنکھیں نہیں کھلی ہیں۔

آج پوری دنیا میں ماحولیات کے حوالے سے جتنے بھی مسائل ہیں، قرآن و حدیث میں اُن سب کا حل موجود ہے۔ ضرورت صرف اس امَر کی ہے کہ دنیا بھر کے انسانوں میں درختوں کی اہمیت و افادیت سے متعلق شعور بیدار کیا جائے، تو آئیں، ہم سب مل کر کوشش کریں، اپنے اپنے حصّے کا چراغ روشن کریں ور اپنی اپنی ذمّے داری پوری کریں تاکہ اپنے مُلک اور دنیا کو محفوظ بناسکیں۔

اقراء سے مزید