تفہیم المسائل
سوال: میاں بیوی اپنے ڈیڑھ سالہ بچے کے ساتھ عمرے پر جارہے ہیں، نماز کے اوقات میں بچے کی نگہداشت کے لیے خاتون باجماعت نماز ادا نہ کرپائے تو کیاحکم ہے ؟ (محمد شفیق، لاہور)
جواب: ہم مطلقاً مسجد میں خواتین کے باجماعت نماز پڑھنے کا فتویٰ ان شرائط کے ساتھ دیتے ہیں کہ خواتین کی نماز کی جگہ مکمل باپردہ ہو اور آمد ورفت کا راستہ مردوں سے علیحدہ ہو، ستر وحجاب کی مکمل پابندی ہو۔ لیکن یہ فتویٰ عمرہ وحج کے لیے جانے والی خواتین کے حرمین طیبین میں باجماعت نماز پڑھنے کے لازم ہونے یا جماعت چھوڑ دینے کے بارے میں لکھا گیا ہے۔
سب سے پیش تر تو یہ کہ حرمین طیبین میں خواتین کے نماز پڑھنے کے لیے علیحدہ جگہ متعین ہے، علیحدہ دروازہ (باب النسآء) بھی مخصوص ہے۔ اُس جگہ خواتین کی جماعت میں شامل ہونا ممکن ہوتو باجماعت نماز پڑھ سکتی ہیں۔ لیکن اگر کوئی خاتون عین نماز کے وقت مردوں کی صفوں میں پھنس جائے اور نکلنا مشکل ہو تو اس وقت اس کو بغیر نماز کے جہاں بھی ہو خاموش بیٹھ جانا چاہیے اور جماعت میں ہرگز شامل نہ ہو کیونکہ مردوں کے برابر میں جماعت میں شامل ہونے سے دائیں بائیں کے ایک ایک مرد کی اور پیچھے کے ایک مرد کی نماز فاسد ہو جاتی ہے، لہٰذا جب امام نماز سے فارغ ہو جائے تو تنہا کسی مناسب جگہ پر حتی الامکان مردوں سے الگ ہو کر نماز ادا کر لے، مردوں کے ساتھ ہرگز کھڑی نہ ہو۔
نیز خواتین پر جماعت کا اہتمام کرنا لازم نہیں ہے، حدیث پاک میں ہے: ترجمہ: ’’حضرت اُمِّ حُمَید رضی اللہ عنہا نے نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کی: یارسول اللہ !مجھے آپ کے ساتھ نماز پڑھنے کا شوق ہے، آپ ﷺنے فرمایا: تمہارا شوق (اور دینی جذبہ) بہت اچھا ہے، مگر تمہاری نماز اندرونی کوٹھی میں کمرے کی نماز سے بہتر ہے اور کمرہ کی نماز گھر کے احاطہ کی نماز سے بہتر ہے اور گھر کے احاطے کی نماز محلہ کی مسجد سے بہتر ہے اور محلے کی مسجد کی نماز میری مسجد (مسجدِ نبوی) کی نماز سے بہتر ہے۔
چناں چہ حضرت اُمِّ حُمَید ساعدی رضی اللہ عنہا نے فرمائش کرکے اپنے کمرے کے آخری کونے میں جہاں سب سے زیادہ اندھیرا رہتا تھا، مسجد (نماز پڑھنے کی جگہ) بنوائی، وہیں نماز پڑھا کرتی تھیں، یہاں تک کہ اللہ عزوجلّ سے جا ملیں یعنی اُن کا وصال ہوگیا، (اَلتَّرغِیْب وَالتَّرہِیْب، جلد1،ص:225)‘‘۔
ترجمہ: ’’ اُمِّ حُمَید بیان کرتی ہیں: انھوں نے عرض کی: یارسول اللہ ! ہم آپ کے ساتھ (یعنی آپ کی اقتدا میں) نماز پڑھنا چاہتی ہیں، (مگر) ہمارے شوہر ہمیں منع کرتے ہیں، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تمہارا کمرے میں نماز پڑھنا، گھر کے احاطے (حویلی) میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے اور تمہارا گھر کے احاطے میں نماز پڑھنا جامع مسجد میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے، (السنن الکبریٰ للبیہقی :5371 )‘‘۔ یعنی خواتین کے لیے ستروحجاب کا اہتمام اور مردوں کے ساتھ عدمِ اختلاط اوّلین ترجیح ہے۔
فقہی اعتبار سے خواتین پر جماعت سے نماز پڑھنا واجب نہیں، انفرادی طور پر نماز پڑھیں۔ حج وعمرہ کے زائرین کی ہوٹلوں میں رہائش جغرافیائی اعتبار سے حدودِ حرم ہی میں ہے اور انھیں ہوٹل میں نماز پڑھنے پر بھی حرم میں نماز پڑھنے کا اجر ملے گا اور خواتین کے لیے مسجد میں جاکر باجماعت نماز ادا کرنے سے اپنی رہائش گاہ پر ہی نماز ادا کرنے میں زائد ثواب ہے۔
آج کل چونکہ حرمین طیبین میں بے حد ہجوم ہوتا ہے، اس لیے عورتوں کا مردوں کے ساتھ اختلاط سے بچنا کافی دشوار ہے اور اس میں انتظامیہ کے لیے بھی دشواریاں ہوتی ہیں، طواف کا تو متبادل کچھ اور نہیں ہے، اس لیے وہاں تو مجبوری ہے لیکن نماز میں عورتوں کے لیے احتیاط اسی میں ہے کہ وہ اپنی اقامت گاہ میں نماز پڑھیں یا حرم شریف میں اُن اوقات میں جب ہجوم نسبتاً کم ہو۔
وہاں لوگوں کو صفوں کے اتصال کا اہتمام کیے بغیر گلیوں وغیرہ، سڑکوں پر جہاں جگہ ملے جائے نماز بچھا کر نماز پڑھتے دیکھا ہے، اسی طرح اردگرد کے ہوٹلوں میں قبلہ رُخ ہوکر امامِ حرم کی اقتدا میں نماز پڑھتے دیکھا ہے، لیکن اسے اپنے لیے مثال نہ بنائیں، ہوسکتا ہے وہاں ہجوم کثیر کی وجہ سے اُن کے لیے عذر ہو، لیکن احتیاط اسی میں ہے کہ اتصالِ صفوف کا اہتمام کرتے ہوئے سنت کے مطابق امام کی اقتدا میں نماز پڑھی جائے۔
اپنے مالی وتجارتی مسائل کے حل کے لیے ای میل کریں۔
darululoomnaeemia508@gmail.com