’مسجد‘ دین کا بنیادی شعار

January 14, 2022

مولانا کامران اجمل

’’مساجد‘‘ شعار اسلام میں سے ہیں ، او ر شعار عربی زبان کا لفظ ہے جو مختلف معانی میں استعمال ہوتا ہے، اس کے کسی بھی معنی کو لیں، اس کی اہمیت کا اندازہ ہوجاتا ہے ، چاہے اس شعار کا تعلق مذہب سے ہو ، اقوام سے ہو ، یا علاقے سے ، اگر اس شعار کی خلاف ورزی کی جائے تو قتل قتال تک نوبت پہنچ جاتی ہے ، ذیل میں کچھ معانی کو ذکر کیا جاتا ہے جس سے اندازہ ہوجائے گا کہ شعار کسی بھی قوم ومذہب میں کس قدر اہمیت رکھتا ہے ، شعار کے معنی درج ذیل ہیں :

۱۔ ’’ وہ کپڑا جو انسان کے بدن سے لگا ہوا ہو‘‘ ، اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ انسان کے بدن سے خارجی چیزوں میں سے سب سے آخر میں جدا ہونے والی چیز اس کے وہ کپڑے ہیں جو اس کے بدن سے لگے ہوئے ہوں ، اہل عرب شعار کے لفظ کو کسی کی اہمیت کے اظہار کے لیے استعمال کرتے ہیں ،چناںچہ خود رسول اللہ ﷺنے ایک روایت میں فرمایا :’’الانصار شعاری ‘‘ انصار صحابہؓ میرے لیے شعار اندرونی کپڑوں کی طرح ہیں ، اس روایت میں سب جانتے ہیں کہ آپ علیہ السلام انصار صحابہؓ کی فضیلت بیان فرما رہے ہیں ، جس سے ایک طرف حضرات صحابہ کرامؓ کی فضیلت معلوم ہوتی ہے تو دوسری طرف ’’شعار ‘‘ کی اہمیت بھی معلوم ہوتی ہے کہ تشبیہ دینے کے لیے اسے ذکر کیا گیا ۔

۲۔’’ ملک وقوم کا علامتی اور امتیازی نشان ‘‘ (Symbolic and distinguishing mark of country and nation) میرا خیال کسی بھی ملک و قوم کے علامتی اور امتیازی نشان کو بیان کرنے کی ضرورت بھی نہیں ہے کہ ہر فرد جانتا ہے کہ کسی قوم کے علامتی نشان کی توہین کو صرف اس نشان وغیرہ کی توہین نہیں سمجھا جاتا ، بلکہ وہ اس قوم کی توہین سمجھتی جاتی ہے ۔

۳۔’’نعرہ‘‘(slogan)جنگ کے دوران سپاہیوں کے آپس کے کوڈ ورڈ کو کہتے ہیں ، اور یہ اصول ہے کہ سپاہیوں میں سے کسی کو اگر اس کوڈ ورڈ کا پتہ نہ ہو یا وہ اسے بھول جائے تو فوج داری نظام میں ایسے شخص کو جینے کا حق نہیں ہوا کرتا ، بلکہ اگر رات کی تاریکی میں کسی نے یہ کوڈ ورڈ آنے والے سے پوچھا اور وہ سامنے والے کو پتہ نہ ہوا تو اس مارنے والے سے پوچھا نہیں جاتا ،بلکہ مرنے والے کی غلطی سمجھی جاتی ہے ، کیونکہ اپنے کوڈ ورڈ کو بھول جانا موت کی ہی علامت سمجھا جاتا ہے ۔

۴۔ ’’موٹو‘‘ کسی بھی فیملی یا جگہ کا وہ خاص جملہ جو اعتماد کی بحالی کے لیے استعمال کیا جائے ، چاہے وہ جملہ ہو یا کوئی لفظ وغیرہ اور ظاہر سی بات ہے کہ اگر کسی کو اپنا فیملی موٹو یاد نہ ہو اور وہ دروازے پر کھڑا رہے ، چاہے سردی میں ٹھٹھر رہا ہو ،اس کے لیے دروازہ نہیں کھولا جاتا ۔

۵۔’’جھنڈا ‘‘ کسی بھی ملک و قوم کے لیے سب سے اہم اس کا جھنڈا ہوا کرتا ہے ، اور اس بات کو صرف پڑھے لکھے نہیں، بلکہ وہ لوگ جنہوں نے کچھ نہ پڑھا ہو اور انہیں صرف اپنے جھنڈے کا پتہ ہو، وہ بھی اس کی قدر ومنزلت جانتے ہیں ،بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ اس کی عظمت پر جان دینے والے زیادہ اسی قسم کے لوگ ہوتے ہیں تو شاید بے جا نہ ہوگا ، اسی عظمت کا پاس ہونے کی وجہ سے جب کسی قوم وملت کی توہین احتجاجی مظاہروں میں کی جاتی ہے تو سب سے پہلے ان کے جھنڈے کو نذر آتش کیا جاتا ہے ، جو علامت ہوتی ہے ،اس قوم سے شدید نفرت کی ۔

۶۔’’بیج‘‘ کوئی بھی قوم اپنے بیج کو اپنے سینے پر تب سجاتی ہے جب اسے اپنے ملک و قوم پر فخر ہو اور وہ اپنی اس پہچان کو فخر کا باعث سمجھے ، اور اگر کوئی اس سے اس بیج کو اتار پھینکے تو غیرت مند قومیں اسے اپنی توہین سمجھتی ہیں اور اس توہین کو برداشت نہیں کیا کرتیں ۔

اس کے علاوہ مسجد کے لیے عربی زبان میں شعائر کا لفظ بھی استعمال کیا جاتا ہے جو شعیرۃ کی جمع ہے ، جس طرح سے مسجد کے لیے ’’شعار ‘‘ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے ، اسی طرح ’’شعائر ‘‘ کا لفظ بھی ذکر اوراستعمال کیا جاتا ہے اس کا معنی و مفہوم بھی ملاحظہ فرمائیں :

شعیرۃ : وہ مذہبی رسم (علامتی کام ) جسے انجام دینے کا شریعت نے حکم دیا ہو ، اس کی جمع شعائر آتی ہے ، یعنی مساجد ان علامات میں سے ہیں،جسے قائم کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے ۔اسی طرح شعائر بھی علامت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ۔

اس جگہ مقصود یہ تفصیل نہ تھی ،لیکن اس کے ذکر کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ اس بات کو اچھی طرح سمجھا جائے کہ چاہے شعار ہو یا شعائر ہو ،کسی بھی مذہب میں اس کی توہین کو برداشت نہ کیا جاتا ہے اور نہ کسی کو اس کی توہین کرنے کی عالمی قوانین میں اجازت ہے ، شعائر یا شعار کا تعلق صرف اسلام سے نہیں ہے کہ اسلام خدا نخوانستہ کوئی سخت گیری یا تنگ نظری سکھاتا ہے جس کی وجہ سے ان شعائر کی توہین کو برداشت نہیں کرتا ، دیگر مذاہب کا بھی یہی حال ہے، اگر مذہبی شعائر کی توہین کی جائے تو اس کی کسی شریعت میں اجازت نہیں ہے ،بلکہ مسلمان فاتحین کی تو یہ خاصیت ذکر کی جاتی ہے کہ انہوںنے ہند وسندھ کو فتح کرکے اس میں مسلمانوں کے شعائر کو قائم کرنے کے ساتھ ساتھ غیر مسلموں کے شعائر تک کو نہیں چھیڑا جس کی وجہ سے بہت سے غیرمسلم مسلمان ہوگئے تھے ۔

سابقہ تفصیل سے یہ بات تو بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ شعار کا تعلق نہ صرف مذاہب سے ہے ،بلکہ اس کا بہت گہرا تعلق فوجدار ی نظام اور دیگراقوام کی خصوصیات سے بھی ہے جو اگرچہ مذہب سے متعلق نہ بھی ہو ،پھر بھی اس کی توہین ، اس کے توڑنے کو برداشت نہیں کیا جاتا ، نہ کسی ایسے فرد سے رعایت برتنے کو صحیح سمجھا جاتا ہے اور جو قومیں اپنے شعار کو بھلادیں تو وہ قومیں مر مٹنے ہی کے لائق ہیں، انہیں جینے کا حق نہیں ،یہی وجہ ہے کہ دنیا کے اطراف و اکناف میں کسی بھی مذہب کے دینی شعائر کی توہین کی صورت میں پوری دنیا میں شور وغوغا شروع ہوجاتا ہے ، اور عالمی قوانین کی رو سے بھی کسی فرد کو کسی کی دل آزاری کی اجازت نہیں ہوتی ، اگر کوئی فرد اس کا مرتکب ہوجاتا ہے تو اسے باقاعدہ معافی مانگنے پر مجبور کیا جاتا ہے ، خصوصاً توہین شدہ مذہب کا تعلق اسلام سے نہ ہو تو، کیونکہ اگر اسلام کی توہین ہو تو عوامی احتجاج یا چند اسلامی ممالک کے سربراہوں کے علاوہ بقیہ سب حکمران خاموش رہتے ہیں ، نہ جرأت کرسکتے ہیں نہ ہی اپنا سر اٹھا سکتے ہیں، اس لیے توہین اسلام یا شعائر اسلام کی توہین پر غیروں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی ، یہاں اگر کسی چیز کی توہین ہوتی ہے وہ یہی مساجد ومدارس ہیں، جنہیں غیرقانونی قرار دے کر گرانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔حالانکہ یہاں گردوارے ، مندر اور دیگر چرچ وغیرہ کے لیے ہمدردانہ جذبات کا اظہار کیا جاتا ہے۔ان سے وعدے کیے جاتے ہیں اور دنیا کی نظر میں اچھا بننے کے لیے باقاعدہ طور پر ان کے ساتھ مالی تعاون کیا جاتا ہے ۔

لیکن یہ بات عقل وخر د کے بھی خلاف ہے کہ کسی ایسے ملک میں شعار اسلام کو منہدم کرنےکا حکم دیا جائے ،جہاں مسلمان دینی جذبات رکھتے ہوں، اور دین کے لیے مرمٹنے کا عزم رکھتے ہوں۔ جہاں لوگ خود کو اور اپنے بچوں کو دین کے لیے قربان کرنے کے لیے تیار ہوں ، جہاں حکم خداوندی کے سامنے کسی طاغوتی طاقت کو مکھی کے پر کے برابر بھی حیثیت نہ دی جاتی ہو ،جہاں اپنے اعمال کو تو شاید اس قدر حیثیت نہ دی جائے، لیکن دین اسلام اور اس کے لیے مرمٹنے کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہو، ایسے ملک میں مساجد کو منہدم کرنے کے تصورات کسی بھی طرح درست نہیں ۔

شریعت مطہرہ میں بھی یہ حکم ہے کہ اگر اسلامی ریاست میں کوئی جگہ سرکاری ہو اور اس پر مسجد بنادی گئی ہو اور اس پر سرکاری اداروں کے اجازت نامے بھی موجود ہوں تو ایسی جگہ تو تا قیامت گرانا یا کسی اور کام میں استعمال کرنا جائز نہیں ہے ، کیونکہ مسجد جب ایک بار تعمیر ہو جائے تو پھر زمین سے لے کر فوق الثریا سے بھی اوپر تک مسجد ہی کے حکم میں ہے اور بعض روایتوں کے مطابق تو قیامت کے دن زمین کے وہ ٹکڑے جن پر مساجد ہوں قیامت کے دن یکجا کرکے اٹھائے جائیں گے ، مساجد کے اسی حکم کی بنیاد پر مسجد کا ہر گوشہ اور ہر حصہ مقدس اورلائق تکریم ہے۔

مسجد ایک مرتبہ تعمیر ہونے کے بعد دین کا بنیادی شعار ہے۔جس کی حفاظت ایک عام مسلمان سے لے کر اسلامی ریاست کے سربراہ تک ہر فرد کی ذمے داری ہے۔ اس لیے کہ مسجد دین کا شعار ہے اور شعار کا تحفظ دنیا کے ہر مذہب بالخصوص دین اسلام میں سب سے زیادہ مقدم اورسب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ اس لیےبھی کہ مسجد اللہ کا گھر، بندگی کا مظہر اور تجلیات ربانی کا مرکز ہے۔