• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’میں جنّت کی ضمانت دیتا ہوں ‘‘ کا اِدِّعا

تفہیم المسائل

سوال: ایک خطیب جوشِ خطابت میں فرمارہے تھے: ’’ میں جنّت کی ضمانت دیتا ہوں (اگر آپ یوں کریں)‘‘، سوال یہ ہے کہ ایک ایسا شخص جسے خود اپنے ٹھکانے کا علم نہیں ہے، وہ اپنے سامعین کو دھڑلے سے جنّت کی ضمانت دے سکتا ہے؟ (ڈاکٹر ابو حمیس، حیدرآباد)

جواب: قرآن کریم میں متعدد مقامات پر جنّت کی بشارتیں موجود ہیں، احادیث میں مخصوص اعمال کی انجام دہی اور منکرات سے اجتناب پر جنّت کی بشارات بیان کی گئی ہیں اور رسول اللہ ﷺ نے نیک اعمال کرنے اور برائی سے رکنے والے کے لیے جنّت کی ضمانت لی ہے ،مثلاً :

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (۱) ترجمہ:’’ جو شخص مجھے اپنے دونوں جبڑوں کے درمیان والی چیز (زبان) اور اپنی دونوں ٹانگوں کے درمیان والی چیز (شرم گاہ) کی حفاظت کی ضمانت دے دے، میں اُسے جنّت کی ضمانت دیتا ہوں،(صحیح بخاری:6474)‘‘۔

(۲)ترجمہ:’’میرے لیے چھ چیزوں کے ضامِن ہو جاؤ، میں تمہارے لیے جنّت کا ضامِن ہوں: بات کرو تو سچ بولو، وعدہ کرو، تو پورا کرو، تمہارے پاس امانت رکھی جائے تو ادا کرو، اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرو، اپنی نگاہوں کو پَست کرو اور اپنے ہاتھوں کو(خلافِ شرع دست درازی سے) روکو،(مستدرک للحاکم:8066)‘‘۔

(۳)ترجمہ: ’’ جس نے ناحق جھوٹ کو ترک کیا، اس کے لیے جنّت کے اطراف میں ایک محل تعمیر کیاجائے گا اور جس نے حق پر ہونے کے باوجود جھگڑا چھوڑ دیا تواس کے لیے جنّت کے وسط میں ایک محل تعمیر کیاجائے گا اورجس کے اخلاق اچھے ہوں گے، اس کے لیے جنّت کے اعلیٰ درجے میں ایک محل تعمیر کیا جائے گا، (سُنن ابن ماجہ:51)‘‘۔

(۴)ترجمہ:’’تم مجھے چھ چیزوں کی ضمانت دے دو میں تمہیں جنّت کی ضمانت دیتا ہوں۔ حضرت ابو ہریرہ ؓبیان کرتے ہیں۔ میں نے عرض کی : یارسول اللہﷺ! وہ چھ چیزیں کون سی ہیں، ارشاد فرمایا: نماز، زکوٰۃ، امانت، شرمگاہ، پیٹ اور زبان، (اَلْمُعجَم الاَؤسَط:4925)‘‘۔

(۵) ترجمہ:’’ جو حق پر ہونے کے باوجود جھگڑا چھوڑ دے ،میں اس کے لیے جنّت کے اطراف میں ایک گھر کا ضامن ہوں اور جو جھوٹ بولنا چھوڑ دے، خواہ مزاح کے طور پر ہو تو میں اس کے لیے جنّت کے وسط میں ایک گھر کا ضامن ہوں اور جس کے اخلاق اچھے ہوں ، میں اس کے لیے جنّت کے اعلیٰ درجے میں ایک گھر کا ضامن ہوں ،(سنن ابو داؤد:4800)‘‘۔ یہ حدیث ’’سنن أبوداود، سنن نسائی،سنن ابن ماجہ،مسند احمدبن حنبل ‘‘ اور دیگرکتبِ احادیث میں بھی الفاظ کے معمولی فرق کے ساتھ مذکور ہے۔

کسی بھی عالمِ دین کا اپنے وعظ ونصیحت میں جنّت کی بشارت یا جہنم کی وعید بیان کرنے کی بنیاد قرآن کریم اور رسول اللہ ﷺ کی احادیث میں بیان کی گئی ضمانت کے سبب ہے، ذاتی طور پر کوئی کسی کو جنتی یا جہنمی قرار نہیں دے سکتا۔ یہ مقام صرف سیّدالمرسلین سیّدنا محمد رسول اللہ ﷺ کو حاصل ہے، کسی عالم کو ایسا تعلّی والا دعویٰ نہیں کرنا چاہیے۔ 

علامہ شرف الدین حسین بن عبداللہ طیبی لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ پس کسی شخص کے لیے بھی یہ جائز نہیں ہے کہ کسی (دوسرے) شخص کے جنتی یا جہنمی ہونے کی گواہی دے، پس بندے کے بارے میں یہ احکام اللہ تعالیٰ کی مشیّت اور اس کی پہلے سے طے شدہ تقدیر(مبرم)کے تابع ہیں، (اَلْکاشِف عَن حَقَائق السُّنَن، جلد2،ص:535)‘‘۔

ابن تیمیہ لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ہم خاص دلیل کے بغیر کسی معین شخص کے تعلق سے جنّت یا جہنم کی گواہی نہیں دیتے ہیں، (مجموع الفتاویٰ لابن تیمیۃ، جلد35، ص:68)‘‘۔

آپ نے سوال میں یہ درج نہیں کیا کہ مذکورہ خطیب صاحب کس بات پر جنّت کی ضمانت دے رہے تھے، اُن کے جملے کیا تھے یا کلام کا سیاق وسباق کیا تھا، آیا ان کے دعوے کی اصل قرآن وحدیث میں ہے۔ لیکن اپنی ذات کی طرف منسوب کرکے یہ اِدّعاء کسی عالم کو زیب نھیں دیتا، یہ محض تعلّی ہے ،جو نامناسب ہے، البتہ حدیث بیان کرکے یہ کہہ سکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نےفلاں فلاں صفات کے حامل اصحابِ ایمان کو جنت کی ضمانت دی ہے۔

کوئی عالم، واعظ یا خطیب اپنے علم کی بنیاد پر کسی کے جنتی یا جہنمی ہونے کا فیصلہ قطعیت کے ساتھ نہیں کرسکتا، کیونکہ کسی کو نہیں معلوم کہ کس کا انجام کیسا ہوگا، حدیث پاک میں ہے: نبی کریم ﷺ نے ایک صاحبِ حیثیت شخص کو دیکھا، جو مشرکین کے ساتھ جنگ میں مصروف تھا اور مسلمانوں کا دفاع کررہا تھا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ترجمہ: ’’جو کسی جہنمی کو دیکھنا چاہتا ہے، وہ اس شخص کو دیکھے، پھر ایک شخص اس پر برابر نظر رکھے رہا، یہاں تک کہ وہ زخمی ہوگیا، اس نے (تکلیف سے نجات پانے کے لیے) چاہاکہ موت جلد آجائے، پس اس نے اپنی تلوار کی نوک کو اپنے دو پستانوں کے درمیان رکھ کر اپنا وزن اس پر ڈال دیا اور وہ تلوار اس کے شانوں کو چیرتے ہوئے نکل گئی (یعنی اس نے تکلیف سے جلد نجات پانے کے لیے خودکشی کرلی)، اس پر نبی ﷺ نے فرمایا: بندہ لوگوں کی نظر میں جنتیوں کے سے کام کررہا ہوتا ہے، حالانکہ درحقیقت وہ جہنمیوں میں سے ہوتا ہے اور اس کے برعکس ) ایک شخص لوگوں کی نظر میں جہنمیوں کے سے کام کررہا ہوتا ہے، حالانکہ وہ اہل جنت میں سے ہوتا ہے (اور آخر کار اس کا انجام خیر پر ہوتا ہے)، سو اعمال کا مدار خاتمے پر ہے ( کہ خاتمہ خیر پر ہوتا ہے یا شر پر)،(صحیح بخاری:6493)‘‘۔

پس کسی کے انجام کے بارے میں یقینی اور قطعی طور پر صرف صاحبِ وحی رسول اللہ ﷺ ہی بتاسکتے تھے۔ اس پر یہ اشکال وارد ہوسکتا ہے کہ خودکشی حرام ہے، گناہِ کبیرہ ہے اور گناہِ کبیرہ کا مرتکب آخر کار اللہ کے عفو وکرم سے یا اپنی سزا پاکر جنت میں جاسکتا ہے، اس شخص کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے جہنمی ہونے کا حکم کیونکر لگایا، تو اس کاسبب یہ ہوسکتا ہے کہ اُس نے یہ فعل حلال سمجھ کر کیا ہو اور اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولِ مکرم ﷺ کواس کی نیت پر مطلع فرما دیا ہو۔