• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پروفیسر خالد اقبال جیلانی

اسلام کے بنیادی اور لازمی اصولوں میں سے ایک اوّلین اور بنیادی اصول یہ ہے کہ مسلمان امّتِ واحدہ یعنی ایک امت اور آپس میں بھائی بھائی ہیں، جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد فرمایاگیا ’’بےشک تم امّتِ واحدہ یعنی سب ایک ہی امت کے افراد ہو‘‘(سورۂ انبیاء 112) اس اتحاد و یکجہتی کے ماتحت ایمان والے، امت مسلمہ کے سب افراد آپس میں بھائی بھائی ہیں۔(سورۂ حجرات 10)

ان احکام قرآنی پر رسول اللہ ﷺ کا ارشاد مبارک ’’سونے پر سہاگہ‘‘ کی مانند ہے کہ ’’ مومن مومن کا بھائی ہے، بالکل جسدِ واحد کی طرح ‘‘ ( حدیث مبارکہ) قرآن و حدیث میں تمام مسلمانوں کو ایک امت، بھائی بھائی جسدِ واحد کہا گیا ہے، لیکن ہم نے اسلام کے اس اولین، بنیادی اور اصولی حکم کو یکسر فراموش کردیا اور پوری امت کو مسلکی عصبیت، لسانی تعصب اور فرقہ وارانہ گروہوں میں تقسیم کردیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت امت مسلمہ، مسلمان پوری دنیا میں ذلت، رسوائی، شکست و ہزیمت تباہی و خوںریزی کا شکار اور مغلوب ہیں۔

مسلمانوں کو حکم تو یہی دیا گیا تھا کہ وہ مرکزیت ، جامعیت اور وحدت کو کمزور نہ ہونے دیں، مگر اس کے باوجود آج امت کا شیرازہ منتشر ہے۔ اس وقت اتحاد، عالم اسلام اور مسلمانوں کا اہم ترین مسئلہ ہے اور تما م ضرورتوں و ترجیحات پر برتری اور اہمیت رکھتا ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ اسلامی ممالک، مسلمان حکمران اور امت مسلمہ عالم اسلام کے اتحاد کی اہمیت و ضرورت کو نہیں سمجھ رہے، حالانکہ موجودہ دور میں مسلمانوں کا اتحاد، عالم اسلام کی وحدت متحد ہو کر ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونا نا گزیر اور ناقابل انکار ضرورت ہے۔

یہ ایک ایسی ضرورت ہے جو فرقہ وارانہ تنگ نظری، گروہی تعصب اور قومی و نسلی امتیازات کو فراموش اور پس پشت ڈال کر فوری طور پر رو بہ عمل لائی جائے اور پوری امت تمام مسلمان ممالک اور عالم اسلام کو متحد کیا جائے، اس میں کوئی شک نہیں کہ سامراجی ملکوں اور طاغوتی قوتوں کی سازشیں اور ریشہ دوانیاں اس وقت مسلمانوں کو متحد ہونے سے روکنے کا موثر ترین سبب ہیں۔ لیکن اب وہ وقت آگیا ہے کہ مسلمان حکمران امت مسلمہ کی بقا کی فکر کریں۔

بلاشبہ، امت مسلمہ کی شکست و زوال کا سبب اتحاد امت کی جانب مسلمانوں کی عدم پیش رفت ہماری پسماندگی اور فرقہ وارانہ اختلافات ہیں، تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جب دوسرا عیسوی ہزارہ شروع ہوا تھا تو مسلمان علمی اور سائنسی لحاظ سے تمام اقوام اور مذاہب عالم سے آگے اور ترقی یافتہ تھے۔

ان کے شہر علم و سائنس اور تجارت و صنعت کا مرکز سمجھے جاتے تھے۔ مسلمان علماء کو اس زمانے کا راہنما و مفکر سمجھا جاتا تھا۔ عالم اسلام سیاسی، اقتصادی اور علمی و سائنسی سرگرمیوں کا مرکز سمجھا جاتا تھا۔ آج عالم اسلام کی اس شوکت و عظمت کو کیا ہوا؟ مسلمانوں کی وہ یکجہتی کہاں گئی؟ 

مسلمانوں کی عظمت، عزت، سربلندی قوت و طاقت، سطوت، ہیبت، رعب و دبدبہ، سب کچھ اختلافات کی نذر ہوگیا، فرقہ واریت کا سیلاب بلاخیز سب کچھ خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے گیا۔ اگر مسلمان تعلیمات وحی پر کار بند رہتے، تفرقہ بازی سے محفوظ رہ کر قرآن و سنت کو اجتماعی طور پر مضبوطی سے تھامے رکھتے، اپنے سیاسی و سماجی اتحاد کی حفاظت کرتے تو ان کا آج یہ حشر نہ ہوتا۔

آج بھی امت متحد ہو کر عالم اسلام کے ایک پرچم تلے اکٹھے ہو جائے اور اپنے اختلافات پر بے سود وقت ضائع کرنے کے بجائے تھوڑا سا وقت امت کی فلاح و بہبود اور اتحاد کے لئے نکالے تو آج بھی ہم شکست آمیز اور ہزیمت زدہ ماحول سے نکل سکتے ہیں اور بدر و اُحد اور خیبر و حنین کی سی ایک عظیم طاقت کے طور پر نمایاں ہو کر کفر کو شکست و ذلت سے دوچار کر سکتے ہیں۔ ایسے حالات میں علماء اور محراب و منبر کا فریضہ ہے کہ وہ مسلمانوں کو اتحاد و یکجہتی کی اہمیت سے آگاہ کریں۔

اتحاد و اتفاق کسی بھی قوم کی ترقی اور اعلیٰ اہداف کے حصول نیز سربلندی اور کامیابی میں کلیدی کردار ادا کرتاہے۔ آج عالم اسلام کے دشمن متحد ہیں اور مسلمانوں کے درمیان تفرقہ ہے۔ اسلام دشمنوں کا اتحاد ثلاثہ (عیسائی، یہودو ہنود) اسی ایک نکتہ کی افادیت سے بخوبی آگاہی پر مبنی ہے اور انہوں نے اسلام و مسلمانوں کو اپنا مشترکہ دشمن قرار دے کر اسے اپنے سامراجی طاغوتی اہداف کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھا ہے اور اسی بناء پر دشمنوں نے اپنے تمام تر نظری، نسلی، علاقائی، سیاسی اور مذہبی اختلافات کو پس پشت ڈال کر ایک دوسرے کے نزدیک ہو کر اسلام اور مسلمانوں کو مٹانے کی کوششیں نام بنام علیٰ الاعلان ببانگ دھل جاری رکھی ہوئی ہیں۔

مثال کے طور پر عیسائیوں اور یہودیوں نے اپنے تمام تر بڑے شدید مسلکی اختلافات بھلا کر مسلمانوں کے خلاف متحد ہو کر کام کرنے کی حکمت عملی اپنائی ہے اور آپس میں متحد ہو کر مسلمانوں اور اسلام کے خلاف میدان میں کود پڑے ہیں۔

یہ ایک قابل تردید حقیقت ہے کہ تمام امت اور اسلامی فرقوں کے درمیاں بنیادی و اعتقادی قدریں مشترک ہیں، اسلامی عقائد کا سارا نظام انہی مشترکہ بنیادو ں پر استوار ہے۔ سب مسلمان توحید و رسالت وحی اور کتب سماوی کے نزول، آخرت کے انعقاد، ملائکہ کے وجود، حضور ﷺ کی ختم نبوت، نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ کی فرضیت وغیرہ جیسے مسائل پر یکساں ایمان رکھتے ہیں۔ اگر کہیں کوئی اختلاف ہے تو صرف فروعی حد تک اور وہ بھی ان کی علمی تفصیلات اور کلامی شرو حات متعین کرنے میں ہے۔ کیونکہ اس سے عقائد اسلام کی بنیادوں پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ 

جب کوئی اثر نہیں پڑتا تو آخر کیا وجہ ہے کہ ایک اللہ، ایک نبی، ایک کتاب، ایک دین اور ایک قبلہ کے ماننے والوں کے درمیان دین کی سر بلندی، اسلام کے غلبے، مسلمانوں کی فتح کے لئے اتحاد و یگانگت کے لا زوال رشتے قائم نہ کئے جاسکیں اور ملت واحدہ کا تصور ایک زندہ جاوید حقیقت نہ بن سکے۔

قرآن کریم مسلسل مسلمانوں کے ضمیر کو جھنجھوڑ رہا ہے کہ تم ایک ملت اور ایک ہی دین کے لئے منتخب کئے گئے ہو۔ خالق کائنات نے تمہارے لئے وہی دین مقر ر کر دیا ہے جس کے قائم کرنے کا اس نے نوح علیہ السلام کو حکم دیا تھا اور (جو بذریعہ وحی) ہم نے تمہاری طرف بھیج دیا ہے اور جس کا تاکیدی حکم ہم نے حضرات ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ علیہم السلام کو دیا تھا کہ اس دین کو قائم رکھنا اور اس میں پھوٹ نہ ڈالنا۔‘‘

افسوس یہ ہے کہ مسلمان اتنی ہدایتوں کے باوجود حصوں فرقوں میں تقسیم ہو کر رہ گئے۔ جس کا سبب یہی ہے کہ ہم مسلمان تو ضرور ہیں، لیکن صحیح معنوں میں اسلام کو سمجھے ہی نہیں، اگر سمجھ گئے ہوتے تو اس کے نافذ کردہ قوانین پر عمل پیرا ضرور ہوتے اور اس طرح فرقوں میں نہ بٹتےاور اس کے قوانین سے ہرگز ہرگز سرتابی نہ کرتے، اس لئے کہ جب اللہ کے رسول ﷺنے ایمان والوں کو رشتۂ اخوت میں باندھ دیا تھا تو پھر اس سے فرار کیسا۔

’’اتحاد ‘‘ ایسی چیز ہے کہ نہ صرف عالم انسانیت بلکہ اگر اسے پوری کائنات سے چھین لیا جائے تو اس وسیع کائنات کا نظام درہم برہم ہوکر رہ جائے گا۔ آپس میں اختلاف پیدا کرنا گویا ایک شخص کا زہر کو کھا لینے کی مانند ہے، یہ جاننے کے بعد کہ زہر اعضاء کو پارہ پارہ کردیتا ہے اور زندگی کوموت کی آغوش میں پہنچا دیتا ہے۔

اسی طرح مسلمان امت ِواحدہ یا اتحادِ امت سے واقف نہیں یا پھر واقف ہونے کے باوجود اسلام دشمن عناصر کی دسیسہ کاریوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور قرآن و سنت کے پیغام سے سرتابی اور غفلت برتتے ہوئے مسلمانوں کے درمیان انتشار و افتراق کو ہوا دینے لگتے ہیں، تقویٰ اور اخوت دو ایسے اصول ہیں جن کی پیروی میں امتِ مسلمہ کی نجات مضمر ہے۔تقویٰ اور اخوت دونوں حق کا لازمہ ہیں اور افتراق کا تعلق باطل سے ہے۔ 

ان دونوں یعنی تقویٰ اور اخوت سے انحراف گمراہی کا باعث ہے۔ صدر اسلام میں فکری و ذہنی اختلاف کے باوجود سب کا مرکز اطاعت اور محور عقیدت رسول اللہﷺ کی ذات اقدس تھی جس کی بنیاد پر مٹھی بھر مسلمان ہزار ہا دشمنان اسلام پر حاوی تھے۔ مختصر یہ کہ اتحادِ امت وقت کااہم ترین تقاضا اور ناگزیر ضرورت ہے۔