• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اصلاحِ معاشرہ اور کردار سازی کی اہمیت

مولانا محمد راشد شفیع

آج کا انسان مادی ترقی کی دوڑ میں اس قدر مشغول ہو چکا ہے کہ اس کی روحانی اور اخلاقی بنیادیں متزلزل ہو چکی ہیں۔ جھوٹ، فریب، خود غرضی، بے حیائی، بددیانتی اور بدظنی جیسے امراض ہمارے معاشرے میں اس تیزی سے سرایت کر چکے ہیں کہ ان کا احساس تک ختم ہوتا جا رہا ہے۔ اخلاقی اقدار جو کبھی ہمارے بزرگوں کی پہچان تھیں،اب دقیانوسیت سمجھ کر نظرانداز کی جا رہی ہیں۔ 

والدین کی نافرمانی، اساتذہ کی بے ادبی، پڑوسیوں کے حقوق سے غفلت اور دوسروں کی حق تلفی اب عام روش بن چکی ہے۔ ہر فرد صرف اپنی ذات، مفاد اور خواہشات کے گرد گھومتا ہے۔ دلوں میں احساس، آنکھوں میں حیا اور زبان پر سچائی کا فقدان ہے۔ میڈیا، سوشل میڈیا اور مغربی تہذیب نے ہماری نئی نسل کو بے راہ روی کا شکار کر دیا ہے۔ 

لباس، گفتگو، رویّے اور معمولات سب کچھ اس بات کی چغلی کھا رہے ہیں کہ ہم کس تیزی سے زوال کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ دین سے دوری، علم سے بے رغبتی، اور اصلاحی محنتوں سے بیزاری نے اس اخلاقی انحطاط کو مزید بڑھا دیا ہے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ ہر شخص دوسروں کو برا سمجھتا ہے ،لیکن اپنے کردار کی طرف نظر نہیں کرتا۔ ایسے حالات میں خاموشی مزید تباہی کو دعوت دیتی ہے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ معاشرتی اصلاح کی سنجیدہ اور مسلسل جدوجہد کی جائے۔

درج ذیل اخلاقی کمزوریاں ہمارے معاشرے کا حصہ بنتی جارہی ہیں، اور اسلامی معاشرے کو کھوکھلا کررہی ہیں مثلاجھوٹ کا عام ہونا، وعدہ خلافی، امانت میں خیانت ،بد زبانی اور بدکلامی، والدین، اساتذہ اور بڑوں کی نافرمانی، فحاشی و عریانی کا فروغ، حقوق العباد میں غفلت، حسد، بغض، غیبت اور چغلی، رشوت اور کرپشن کا رواج، نوجوانوں میں بے راہ روی، معاشرتی بے حسی، دینی احکام سے بیزاری، تجارت میں دھوکا دہی، سوشل میڈیا پر بد تہذیبی۔

درج بالا اخلاقی پستیوں کا پہلا سبب دینی تعلیم سے دوری ہے کہ جب قرآن و سنت کی تعلیم اور علمِ دین سے عوام اور خصوصاً نئی نسل دور ہو جاتی ہے، تو ان کی سوچ و عمل اخلاقی بنیادوں سے خالی ہو جاتا ہے،دوسرا سبب والدین کی تربیت میں کوتاہی ہے کیونکہ آج کے والدین دنیاوی تعلیم، لباس، سہولیات تو دیتے ہیں، مگر اولاد کے دل میں خوفِ خدا، ادب، سچائی اور شرافت نہیں ڈالتے جس کی وجہ سے گھر کی بنیاد ہی کمزور ہو جاتی ہے، تیسرا سبب غیر اسلامی میڈیا کا غلبہ ہے کہ نوجوان نسل میں ٹی وی، فلمیں، یوٹیوب، ٹک ٹاک، ڈرامے اور میوزک کا شوق پروان چڑھ رہاہے جس سے انسانی ضمیر مردہ ہوتا جارہا ہے اور فحاشی، حسد، انتقام، بے حیائی اور دنیا پرستی جیسے رجحانات عام ہو چکے ہیں، چوتھا سبب نظامِ تعلیم کا سیکولر ہوناہے کہ موجودہ سیکولر اسکول و کالج کا نظام اخلاقیات یا دین کے بغیر صرف مادی ترقی سکھاتا ہے۔ 

جس سے انسان کماتا تو ہے، مگر کردار کھو دیتا ہے،پانچواں سبب نوجوان نسل کا علماء اور دینی طبقات سے دوری کا ہونا ہے جس کی وجہ سے عوام کا علماء اور دینی حلقوں سے تعلق کمزور ہو چکا ہے، جبکہ میڈیا پر ملحد، مغرب زدہ یا بے دین افراد اثر انداز ہو رہے ہیں، چھٹا سبب دینی اجتماعات و اصلاحی مجلسوں سے غفلت ہے کہ نوجوان نسل نے ذکر، بیان، درسِ قرآن و حدیث جیسی روحانی مجلسیں چھوڑدیں جس سے دل سخت ہوگئے اور گناہ کا احساس ختم ہونے لگا ہے، ساتواں سبب نوجوانوں کو بے ہدف چھوڑ دینا ہے کہ اگر نوجوانوں کی ذہنی و دینی رہنمائی نہ کی جائے تو وہ خود ساختہ رول ماڈلز، سوشل میڈیا اسٹارز اور گمراہ افکار کے پیچھے چلنے لگتے ہیں، جس سے ان کی اسلامی تربیت نہیں ہوسکتی۔

اصلاحی جدوجہد میں سب سے پہلا کام قرآن و سنت کی طرف رجوع کرنا ہے کہ اصلاح کی بنیاد اللہ کے کلام اور نبی ﷺ کی سنت پر ہے۔ جب تک ہم اصل مرکز کی طرف نہیں لوٹیں گے، ہماری کوششیں سطحی رہیں گی۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے"بے شک ،فلاح پا گیا وہ جس نے اس (نفس) کو سنوار لیا، اور ناکام ہوگیا وہ جس نے اسے خاک میں ملا چھوڑا۔" (سورۃالشمس: 9-10)

دوسرا کام گھریلو سطح پر اخلاقی تربیت کی ضرورت ہے کہ ہر ماں باپ کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کو سچ بولنا، بڑوں کا ادب، امانت داری، حیا، دیانت اور صبر سکھائیں۔ گھر ہی پہلی درسگاہ ہے، تیسرا کام نوجوانوں کومدارس اور علماء کی اصلاحی تحریکیوں سے جوڑنے کا ہے کہ مدارس صرف تعلیمی ادارے نہیں ہیں بلکہ دعوت و اصلاح کے مراکز ہیں، چوتھا کام اسکول اور کالجز کی تعلیم میں اخلاقی نصاب شامل کرنا ہے کہ ان اداروں میں نصابی طور پر اخلاقیات کو لازمی مضمون بنایا جائے اور دینی ماحول پیدا کیا جائے تو اخلاقی پستی کا زوال ختم ہوسکتا ہے۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’مجھے (اللہ تعالیٰ نے) صرف اس لیے مبعوث فرمایا ہے کہ میں عمدہ اخلاق کو مکمل کر دوں۔‘‘(مسند احمد ، موطأ امام مالک) دوسری روایت میں نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جس کا اخلاق سب سے اچھا ہو۔‘‘(صحیح بخاری،صحیح مسلم)

اسی طرح ایک اور روایت میں ہے کہ’’قیامت کے دن میزان (ترازو) میں حسنِ اخلاق سے زیادہ وزنی کوئی چیز نہ ہو گی۔‘‘(ترمذی) ایک اور مقام پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تم میں سے جو کوئی برائی دیکھے تو اسے چاہیے کہ اسے ہاتھ سے روکے، اگر طاقت نہ ہو تو زبان سے روکے، اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو دل سے برا جانے، اور یہ ایمان کا سب سے کمزور درجہ ہے۔‘‘(صحیح مسلم)