خام خلیات کے ذریعے علاج

January 17, 2022

آج کے تیز رفتار دور میں جہاں انسان نئی تخلیقی تحقیق میں آگے بڑھتا جا رہا ہے،ا س کے ساتھ ساتھ اُس تحقیق کا بڑا حصہ طب نے اپنی طرف متوجہ کیا ہوا ہے ۔نت نئی طریقے جس سے انسان اپنے اندر پیدا ہونے والی بیماریوں کا علاج کر سکے۔ اس شعبے میں پودوں، جانداروں اور کیمیائی دوا کا استعمال کیا جاتا رہا ہے لیکن اب اس جدید دور میں اور دیگر طریقے علاج کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔ ان میں سے ایک طریقہ ا سٹیم سیل کے ذریعے علاج کا ہے۔

خام یا غیر متشکل خلیے وہ خلیے ہوتے ہیں جو جسم کے کسی بھی مخصوص خلیے کو تشکیل دے سکتے ہیں۔ خام خلیے کو پانچ مختلف قسم کے خلیوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ سب سے پہلا خلیہ (زائگوٹ) جس سے کسی بھی جاندار کی زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ ایک کامل تفرقی خام خلیہ ہوتا ہے۔ یہ خلیہ کثیر تفرقی خلیے بناتا ہے جو متعدد تفرقی خام خلیوں میں تقسیم ہوتے ہیں۔

یہ خلیے محدود تفرقی خام خلیے بناتے ہیں جو کہ واحد تفرقی خلیے کو جنم دیتے ہیں۔ انیسویں صدی کے آخر میں خام خلیوں کے بارے میں پہلی دفعہ تحقیقی کام کا آغاز ہوا جو کہ بیسوی صدی کے درمیان سے تیزی سے آگے بڑھتا چلا گیا۔ اس دوران نہ صرف خون میں موجود خام خلیوں پر کام ہوا بلکہ جنین (ایمبریو) خام خلیوں پر بھی تحقیق کا کام شروع ہوا۔

جنین کثیر تفرقی خام خلیے ہوتے ہیں۔ ان خلیوں میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ یہ جسم کے کسی بھی اور طرح کے خلیے میں تبدیل ہو سکتے ہیں۔ جیسا کہ اب تک خام خلیوں کو بیس سے زیادہ بیماریوں اور خرابیوں کے علاج کے لیے پَرکھا جا رہا ہے۔ ان میں ذیابیطس ، دماغی بیماریوں کچھ موروثی بیماریاں اور زخم مندمل کرنے کی حالت شامل ہیں۔ اس وقت جو تحقیقی کام جاری ہے اس میں یہ دیکھا جا رہا ہے کہ ان خام خلیوں کو دماغی بیماریوں، دل کی بیماری اور ذیابیطس کے لیے تیار کر کے استعمال کیا جائے۔ اگر یہ کہا جائے کہ دور حاضر میں خام خلیوں کے ذریعے علاج معالجہ نے کافی توجہ سمیٹ لی ہے تو یہ غلط نہ ہوگا۔

تجربہ گاہ میں مختلف اخذ شدہ طریقوں اور مصنوعی غذا دار مائع کے ذریعے سے خام خلیوں کو کسی بھی اعضاء کے خلیوں میں بہت ہی ٹھیک طریقے سے تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ دنیا بھر میں خام خلیوں پر اس طرح کے سیکڑوں پروجیکٹس جاری ہیں۔ پاکستان میں بھی ان پر تحقیق جاری ہے جو کہ ملک میں موجود مختلف جامعات سر انجام دے رہی ہیں۔ پروٹیومکس سینٹر، جامعہ کراچی میں بھی ایک شعبہ اس تحقیقی میدان میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔ یہاں جاری ایک تحقیقی کام میں چوہے سے حاصل شدہ ہڈی کا گودا کچھ خاص قسم کے خام خلیوں کو نکالنے کے لیے استعمال کیا گیا۔

یہ خلیے۔ میان اَدمہ یا میان نہوفی خام خلیے (میزئین کائمل خلیات)کہلاتے ہیں۔ اس تحقیق میں یہ مشاہدہ کرنا مقصود تھا کہ آیا ان سے حاصل ہونے والے خام خلیات کو جگر کے خلیات میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ جب بھی کوئی جاندار ایک خلیے سے شروع ہو کر ایک مکمل جاندار بننے کے عمل سے گزر رہا ہوتا ہے تو اسی دوران مختلف حیاتیاتی عنصر بنتے رہتے ہیں، جس کے نتیجے میں اس جاندار کے جسم کے اعضاء تشکیل پاکر مکمل ہو جاتے ہیں۔ ایسے عناصر میں سے بعض کوافزائشی ہارمون کہا جاتا ہے۔

یہ ہارمون اس لحاظ سے بہت اہم ہوتے ہیں کہ ان کی غیر موجودگی کسی بھی جاندار کو غیر مکمل یا خراب کر سکتی ہے۔ جیسے جیسے یہ ہارموں اور دیگر نفل عناصر ظاہر ہونا شروع ہوتے ہیں ویسے ہی مختلف جسمانی اعضاء بننے اور نشونماء پانے لگتے ہیں۔ ان میزئین کائمل خام خلیات کو پَرکھنے کے بعد اس تحقیقی مطالعہ میں دو کیمیائی ادویات کے اثرات کا مشاہدہ کیا گیا یہ ادویات ویلبپروک ایسڈ اور سوڈیم بیوٹا ریڑ تھیں جو کہ ایف ڈی اے کی تصدیق شدہ ادویات ہیں اور مختلف بیماریوں کے علاج میں استعمال کی جاتی ہیں، ان دونوں کیمیائی دواؤں نے میزئین کائمل خام خلیات کو جگر کے خلیات میں تبدیل کرنے کا عمل شروع کر دیا اور نئے بننے والے خلیات جگر کے خلیات کی خصوصیات ظاہر کرنے لگے۔

اسی طرح کے ایک اور تحقیقی مطالعہ میں دوسرے عضو سے میزئین کائمل خام خلیات حاصل کیے گئے اور ان کی جانچ کی گئی۔اس تحقیق میں کچھ اور طرح کے کیمیائی مالیکیول مصنوعی غذا دار مائع میں شامل کر کے اوپر بیان کی گئی ادویات کا اثر دیکھا گیا ۔ جو مشاہدہ اس نتیجے میں حاصل ہوا وہ اس بات کی طرف اشارہ کر رہا تھا کہ دیکپروک ایسڈ کے زیر اثر یہ خام خلیات بھی جگر کے خلیوں میں تبدیل ہونا شروع ہوگئے اور وہ تمام خصوصیات ظاہر کرنے لگے جو کہ جگر کے خلیات میں ہوتی ہیں۔ ان دونوں مطالعات پر مزید تحقیقی کام جاری ہے۔ خام خلیات پر ہونے والی تحقیق اب ایک نیا رخ بھی اختیار کر رہی ہے۔

یہ سمجھنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ وہ خام خلیات جو کہ ایک انسان میں موجود رہتے ہیں اور زندگی بھر خون کے خلیات کو ،اعضاء کو اور نئے خلیات کو کیسے بناتے رہتے ہیں۔ ہم یہ دیکھتے ہیں ہمارے جسم کی کھال اور بال سے لے کر یہ خلیہ وقت کے ساتھ ساتھ پرانا ہو کر اختتام کی طرف جاتا ہے اور پھر اس کی جگہ نیا خلیہ لے لیتا ہے۔

خون میں موجود لال خلیے اکیسوبیس دن کے بعد نئے خلیوں سے تبدیل کر دیئے جاتے ہیں۔ یہ ایک انتہائی پیچیدہ مگر دلچسپ عمل ہے۔ حال ہی میں شائع ہونے والے ایک تحقیقی مکالے میں ماہرین نے اس بات کا پتہ لگانے کی کوشش کی ہےکہ کیسے خون کے خام خلیے اپنے آپ کو باقی رکھتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر وہ کیسے دیگر خونی خلیوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔

اس تحقیق کے مطابق ایک خاص قسم کا نقل عنصر جو کہ’’ ٹی ایف ای بی‘‘ کہلاتا ہے۔ نئے خونی خلیوں کے بننے یا خود خام خلیوں کی تعدیدی عمل میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہ خام خلیے کچھ غذا بخش عنصر ، لائسوسوم یا خامروں سے بھرا خلیوں کا عنصر اور کچھ اندرونی مالیکول کے اشاروں کے ملاپ سے اسی طرف مائل ہوتے ہیں کہ خام خلیہ تقسیم ہو کر کون سےخون کے خلیے بنانا شروع کرے۔ اس طرح کی تحقیق خام خلیوں کے بارے میں مزید معلومات فراہم کر رہی ہیں اور یہ سمجھنے میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں کہ کسی بھی جاندار کے جسم میں یہ خلیے کیسے کام کرتے ہیں ۔

دواؤں کے ذریعے سے اور دوسری طرف جسم کے کسی بیمار یا خراب عضوء کو نکال کر اس کی جگہ نیا عضو لگاناعلاج کے پرانے طریقے ہیں ،مگر جسم کے کچھ عضو کو تبدیل کرنا بہت زیادہ منہگا ہے۔ اس کے علاہ بعض دفعہ عضوء ٹرانسپلانٹ ہونے کے بعد جسم کا شدید رد عمل بھی سامنے آنے کا خدشہ ہوتا ہے۔ دوسری طرف دواؤں کے ذریعے سے علاج میں غیر ضروری ضمنی اثرات کے ساتھ ساتھ بیماری کا پھر سے ہو جانا بھی ایک مسئلہ ہوتا ہے جو علاج کے دوران سامنے آتا ہے۔ ان پہلوؤں کو سامنے رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو خام خلیوں کے ذریعے علاج ایک نئی راہ کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔

جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ خام خلیے خاص قسم کے اجزا کی موجودگی میں جو کہ ان کے ماحول میں موجود ہوتے ہیں ایک خاص طرح کی خلیوں کی قسم میں تبدیل ہو کر افزائش کرنے لگتے ہیں۔ اگر یہ معلومات حاصل کرلی جائیں کہ کونسے ایسے مالیکول ہیں کہ جن کی وجہ سے خام خلیے جگر یا ہڈی یا کھال اور دیگر جسمانی اعضاء کے خلیوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں تو مختلف بیماریوں میں ان کے ذریعے سے علاج ممکن ہو سکتا ہے۔

یہ علاج وقت کے ساتھ ساتھ سستا بھی ہوگا اور اسی کے ضمنی اثرات بھی نہ ہونے کے برابر ہوں گے۔ یہ مثبت پہلو خام خلیات پر ہونے والی تحقیق کو بہت تیز رفتاری کے ساتھ آگے بڑھنے کی طرف مائل کر رہا ہے۔ مستقبل کے جدید طریقہ علاج میں خام خلیات کے ذریعے سے علاج ایک پر کشش شعبہ بنتا جا رہا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی جہاں اور شعبہ جات میں اپنا کردار ادا کر ہی ہے وہیں خلیوں کی مصنوعی افزائش میں بھی اس کا کردار بہت اہم ہے۔ اب تجربہ گاہ میں نہ صرف غذا دار مائع کے ذریعے سے یہ کام سر انجام دیا جاتا ہے بلکہ تین جہتی بنے بنائے حیاتی اجزاء سے بنے ڈھانچے میں بھی خلیات کی افزائش ممکن ہے۔

اسی طرح کا کام اس وقت کیا جاتا ہے جب اس بات کا مشاہدہ کرنا مقصود ہو کہ یہ خلیات عمومی طور پر کسی بھی جاندار کے جسم میں کس طرح سے موجود ہوتے ہیں اور اپنا کام انجام دیتے ہیں۔ اس طر ح کے طریقے کارماہرین کی توجہ اس جانب مبذول کروا رہے ہیں کہ خلیا ت کی افزائش تجربہ گا ہ میں بھی ویسے ہی کی جائے جیسے وہ جسم کے اندر نشوونما پاتے ہیں۔ یہ تکنیک نہ صرف کامیاب ثابت ہو رہی ہے بلکہ با آسانی تجربہ گاہ میں نشونماء پانے میں مدد دے رہی ہے۔

اس طرح سے حاصل ہونے والے مشاہدات سے نئی معلومات بھی حاصل ہو رہی ہیں جو مستقبل کے تجربات کے لیے انتہائی اہم ثابت ہو سکتی ہے۔ مثال کے طور پر انسانی حیاتیاتی نمونے کے شعبے میں بھی کچھ تجربات کا تجربہ گاہ میں ہونا انتہائی مشکل ہوتا ہے ،کیوں کہ انسانی جسم سے حاصل ہونے والے نمونے یا عضوء کے بارے میں سخت قوانین موجود ہیں، جس کی وجہ سے خاص طور پر حیاتیاتی نموکے علم میں جنین کی نشونماء کے خاص مراحل کے بارے میں جو معلومات موجود ہیں وہ دراصل چوہوں یا دیگر چھوٹے جانداروں کے ایمبریوں پر کی جانے والی تحقیقی سے اخذ شدہ ہیں۔

تین جہتی بنے ڈھانچے میں خام خلیوں کی افزائش سے حاصل شدہ انسانی خام خلیے کے ماڈل نے یہ مسئلہ کافی حد تک حل کر دیا ہے۔ اب ان نمو پذیر مراحل کے خام خلیوں کے ماڈل موجود ہیں۔ ان ماڈل پر کیے جانے والے تجربات نے یہ ظاہر کیا ہے کہ انسانی حیاتیاتی نمو اور دیگر جانداروں کی نمو میں اگرچہ بہت سارے عوامل مشترکہ ہیں لیکن کچھ خاص عوامل صرف انسانی نمو میں ہی موجود ہیں جو کہ کسی بھی اور جاندار میں نہیں۔

طب کے شعبے میں جہاں اعضاء کی پیوند کاری یا تبدیل کرنا مقصود ہو وہاں خام خلیات بے پناہ استعداد رکھتے ہیں۔ خاص طور پر دماغ کی ناقابل علاج بیماریوں میں خام خلیات کے ذریعے علاج اہم کردار ادا کر سکتا ہے ۔ جہاں مریض سے ہی حاصل شدہ خام خلیات سے علاج کرنا ممکن ہو سکتا ہے۔ خام خلیات کے استعمال سے علاج کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ جب بھی دستیاب ہو گا ضمنی اثرات سے پاک اور کم قیمت ہوگااور انتہائی مہلک بیماریوں کے لیے ناقابل یقین حد تک بہتر ثابت ہوگا۔