آئرش زبان کے مقبول ترین ادیب ’’جیمز جوائس‘‘

January 19, 2022

براعظم یورپ میں واقع ’’آئرلینڈ‘‘ ایک ایسا ملک ہے، جس نے پچھلی صدی میں برطانیہ سے آزادی حاصل کی، بہرحال اس کا شمالی حصہ تاحال برطانیہ میں شامل ہے، جس کو شمالی آئرلینڈ کہا جاتا ہے۔ اس خطے میں آئرش زبان بولی جاتی ہے، اس زبان کے سب سے مقبول ادیب’’جیمز جوائس ‘‘ہیں، جن کو پچھلی صدی میں سو بااثر عالمی ادیبوں میں شامل کیا گیا، ہرچند کہ ان کے کچھ خیالات متنازعہ بھی رہے، اس کے باوجود پوری دنیا میں ان کی مقبولیت کا تناسب بڑھتا رہا۔ ان کی کئی کتابوں کے تراجم دنیا کی بڑی زبانوں بشمول اردو میں بھی منتقل ہوکر قارئین میں مقبولیت پاچکے ہیں۔

’’جیمز جوائس‘‘ ناول نگار اور افسانہ نویس ہونے کے ساتھ ساتھ شاعر اور ادبی نقاد بھی تھے۔ مغربی ادب میں متعارف ہونے والی تحریک’’جدیدیت‘‘ میں بھی اپنا مرکزی کردار نبھایا۔ ایک متمول گھرانے میں آنکھ کھولی اور اپنی ذہانت سے خود کو بہترین طالب علم ثابت کیا۔ فرانس میں ڈاکٹریٹ کی تعلیم حاصل کرنے گئے، مگر وہ ادھوری رہ گئی۔ ذاتی زندگی میں ایک سے زائد شادیوں اور بیٹی کی بیماری سمیت کئی معاملات پر پریشانی کا شکار بھی رہے۔

’’جیمز جوائس ‘‘کا سب سے مشہور ناول’’یولیسس‘‘ 1922 میں پہلی مرتبہ فرانس سے شائع ہوا۔ اس ناول کا نام، قدیم شاعر’’ہومر‘‘ کی طویل نظم’’اوڈیسی‘‘ کے ایک کردار پر رکھا گیا ہے۔ امریکا اور برطانیہ میں طویل عرصے تک اس ناول کی اشاعت ممنوع رہی، البتہ غیرقانونی طور پر اسمگل شدہ راستے سے وہاں پہنچتا رہا اور قارئین پڑھتے رہے، پھر 1930 میں یہ دونوں ممالک سے بھی شائع ہوگیا۔

ان کی دیگر کتابوں میں نظموں کی کلیات، تنقیدی اور رومانوی خطوط کے مجموعے شامل ہیں۔ ان کا شمار ایسے مشہور ادیبوں میں بھی ہوتا ہے، جن کو ادبی دنیا کے مقبول ترین اعزاز’’نوبیل انعام‘‘ سے محروم رکھا گیا۔ ان کی یاد میں آئرلینڈ سمیت کئی ممالک میں ’’بلومز ڈے‘‘ منایا جاتا ہے۔ آئرلینڈ میں کئی میوزیم ایسے ہیں، جہاں ان سے منسوب اشیا کا ذخیرہ نمائش کے لیے وقف ہے۔

’’جیمز جوائس‘‘ کی پہلی کتاب’’ڈبلنرز‘‘ افسانوں کا مجموعہ تھی، جبکہ تین ناول’’اے پورٹریٹ آف دی آرٹسٹ ایز ینگ مین‘‘ اور ’’فنیگینز ویک‘‘ کے علاوہ بے پناہ پسند کیا جانے والا ناول ’’یولیسس‘‘ شامل ہے۔ چار شعری مجموعے اور ایک تھیٹر کا کھیل’’ایگزائیلز‘‘ بھی چھپا، جبکہ ان کے لکھے ہوئے رومانوی خطوط کے تین مجموعوں کو بھی بہت پذیرائی ملی۔

یہاں ’’یولیسس‘‘ کا انتخاب کیا گیا ہے، جس کی کہانی میں’’شعور کی رو‘‘ کی تکنیک کو استعمال کیا گیا اور عالمی ادب میں جدیدیت کے تناظر میں ایک شاندار ناول تخلیق ہوا، دنیا کے کئی معروف ادیب ان سے فیض یاب بھی ہوئے۔ ’’ پولیسس‘‘ ایک فلسفیانہ اور تمثیلی انداز کا ناول ہے، جس کی تفہیم کے لیے ناقدین نے بہت کچھ لکھا ہے۔ ٹی ایس ایلیٹ نے ان کے لیے کہا’’وہ ملٹن کے بعد سب سے عظیم انگریزی زبان کا ماہر ہے۔‘‘

معروف ناول’’یولیسس‘‘ پر کئی فلمیں بھی بنائی گئیں، متذکرہ فلم کا نام بھی’’یولیسس‘‘ ہی ہے، جو1967 میں نمائش پذیر ہوئی۔ فلم کے ہدایت کار’’جوزف اسٹرک‘‘ ہیں، جو امریکی فلم ساز ہیں۔ انہوں نے اس فلم کے اسکرپٹ کو’’فریڈ ہینز‘‘ کے ساتھ مل کر لکھا تھا، جس کے لیے ان کی آسکر ایوارڈز میں’’بہترین ماخوذ اسکرپٹ‘‘ کے لیے نامزدگی بھی ہوئی تھی۔

اس مشہور زمانہ ناول کے پینتالیس سال بعد فلم بنا ئی گئی ، اس کی عکس بندی کے لیے آئرلینڈ کے شہر ڈبلن کا انتخاب کیا گیا، جہاں سے ناول کے کرداروں کا تعلق ہے۔ جیمز جوائس بھی اس شہر سے جذباتی وابستگی رکھتے تھے۔ ناول کی طرح فلم بھی کئی پہلوئوں سے متنازعہ مگر کامیاب ثابت ہوئی۔ اس میں آئرش اداکاروں کے علاوہ، اسکاٹش اور برطانوی اداکاروں نے بھی اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے اور فلم تکنیکی اعتبار سے بھی مقبولیت کے درجے پر فائز ہوئی۔

’’جیمزجوائس‘‘کے کئی اقوال زریں ہیں، جن کو عالمی ادب پڑھنے والے قارئین پسند کرتے ہیں، ان کے ہاں ہم دیکھتے ہیں کہ زبان و بیان دونوں پہلو ہی لاجواب ہیں، بالخصوص لسانی اعتبار سے زبان کا استعمال اور لفظیات کا برتائو قابل تحسین ہے۔ ان کے فن پاروں کی مقبولیت کے پیچھے، زبان کی یہ باریکیاں بھی کار فرما رہی ہیں، جنہوں نے قارئین کو اپنی طرف ایک طویل عرصے تک مبذول کیے رکھا، جہاں تک ان کی تحریروں میں افکار کی پرچھائیاں ہیں، توان کی تحریروں سے اقتباس شدہ، کچھ اقوال پڑھ لیجیے، تو ان کی ادبیات کا ذائقہ محسوس ہوجائے گا۔

ان کاایک قول’’غیر حاضری،حاضری کا اعلیٰ ترین درجہ ہے۔‘‘ اسی طرح ایک اور قول’’ذہین شخص کبھی غلطی نہیں کرتا، اس کی غلطیاں رضاکارانہ کاوش ہوتی ہیں، جو دریافت کے نئے در وا کرتی ہیں۔‘‘ مزید فرماتے ہیں’’پہلے ہم محسوس کرتے ہیں، پھر ہم غرقاب ہوتے ہیں۔‘‘ یوں ان کے اقوال، تحریروں اور تخلیقی فن پاروں کے ذریعے ہم محسوس کرسکتے ہیں کہ ایک بڑا ادیب کس طرح سوچتا ہے، یہ الگ بات ہے، انسان ہونے کے ناطے ان میں کچھ خرابیاں بھی تھیں، مگر ان کی خوبیاں، ان کی خامیوں پر حاوی ہیں، ان کی کتب پڑھ کر دیکھیں، تو آپ بھی یہی محسوس کریں گے۔

’’جیمز جوائس‘‘ کی شاعری ہو یا ناول نگاری، حتیٰ کہ خطوط نگاری بھی، ان میں پائی جانے والی رومانویت اور تخلیقی اُپج، دل میں گھر کرلیتی ہے۔ مرزا غالب کے خطوط کی طرح شہرت یافتہ جیمز جوائس کے خطوط بھی تخیل کی دنیا کے کئی حیرت انگیز در وا کرتے ہیں۔ ان کا ناول’’یولیسس‘‘ اور اس پر بننے والی فلم، دونوں اپنی اپنی جگہ کمال فن پارے ہیں۔ یہ ناول آج بھی دنیا کے 100 بہترین ناولوں میں شمار ہوتا ہے۔

معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے

ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکھیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔ خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔

ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔ ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔ تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکھیں بھی۔ نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ ہمارا پتا ہے:

رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر

روزنامہ جنگ، اخبار منزل،آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی