53 سالہ شخص نمازیوں سے خطاب میں تلوار سےجہادکی ترغیب کا مجرم پایا گیا

January 20, 2022

لندن ( پی اے ) ایک باپ جس کے دو بیٹے شام میں لڑتے ہوئے مارے گئے تھے، اپنی مقامی مسجد میں ایک تقریر کے دوران پرتشدد جہاد کی ترغیب دینے کا مجرم پایا گیا ہے۔53 سالہ ابوبکر دیگھیس نے برائٹن مسجد اور مسلم کمیونٹی سینٹر میں نمازیوں سے خطاب کرتے ہوئے’’تلوار کے ذریعے جہاد‘‘ کا پرچار کیا تھا۔مدعا علیہ، جس کا اصل تعلق لیبیا سے ہے، اس نے تقریباً 50 لوگوں سے اپنی تقریر کے دوران دہشت گردی کی حوصلہ افزائی کرنے کے الزام سے انکار کیا ، اس کا خطاب سننے والوں میں بچے اور نوجوان بالغ بھی شامل تھے۔بدھ کو اولڈ بیلی کی ایک جیوری نے اسے اس الزام کا قصوروار پایا۔اب یہ اطلاع دی گئی ہے کہ دیگھیس کے دو بیٹے شام میں اسلام پسندوں کے لیے لڑتے ہوئے مارے گئے تھے اور وہ ایسٹ سسیکس شہر میں چھرا گھونپے جانے کے واقعے میں اپنے تیسرے بیٹےسے محروم ہو گیا تھا۔ عبدل جو منشیات کے دھندے میں ملوث ہوگیا تھا ، اسے 22 سال کی عمر میں 2019 میں ایک ڈیلر نے قتل کر دیا تھا - وہ عبداللہ کا جڑواں بھائی تھا، جو 18 سال کی عمر میں 2016 میں شام میں لڑتے ہوئے مارا گیا ۔ان کا ایک اور بھائی 17 سالہ جعفر 2014 میں بشار الاسد کی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کرتے ہوئے مارا گیا تھا۔ اس کا ایک اور بیٹا عامرفنانس کا سابق طالب علم، جس نے شام کا سفر بھی کیا، اس کے بارے میں خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ وہ اس مقصد کے لیے لڑائی جاری رکھے ہوئے ہے۔ اولڈ بیلی ٹرائل کے دوران، ججوں کو اتوار 1 نومبر 2020 کو مسجد میں دیگھیئس کے خطاب کی ویڈیو چلا کر دکھائی گئی۔ اس میں وہ جہاد کے بارے میں بات کرتے ہوئے چھرا گھونپنے کا اشارہ کرتے ہوئے دیکھا گیا۔اس نے عبادت گزاروں سے کہا کہ ہم سے زیادہ طاقت کس کی ہے؟ اللہ تم سے زیادہ طاقتور ہے۔ تم، بیوقوف. کافر بیوقوف ہے۔ وہ بیوقوف ہے۔ اس نے مزید کہا کہ جہاد، جہاد، جہاد۔ جہاد فرض ہے۔ جہاد تلوار سے لڑنا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ جہاد آپ پر فرض ہے، جہاد منہ سے نہیں بلکہ جہاد قیامت تک لازمی رہے گا۔ پراسیکیوٹر بین لائیڈ نے ججوں کو بتایا کہ تقریر ’’معصومی یا بے تکلفی‘‘سے نہیں کی گئی۔انہوں نے کہا کہ استغاثہ کا معاملہ واضح ہے۔ مدعا علیہ اپنے الفاظ اور اشاروں سے لوگوں کو پرتشدد جہاد کی ترغیب دے رہا تھا۔مدعا علیہ کی تقریر اس کے اسلامی شدت پسند ہونے کا ثبوت دیتی ہے۔ وہ ایساشخص ہے جو اسلام کے مقصد میں تشدد کے استعمال پر یقین رکھتا ہے۔ایسٹ سسیکس میں سالٹڈین کے مدعا علیہ نے غلط کام سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ وہ تلوار سے جہاد کا مطلب اپنے دفاع کے طور پر بیان کر رہا تھا۔اس نے دعویٰ کیا کہ اس نے جو اشارہ کیا وہ ’’بلیڈ کا رقص ‘‘ تھا۔اس نے وزیر اعظم بورس جانسن کا بھی حوالہ دیا کہ وہ مسلم خواتین کو ’’ لیٹر بکس‘‘ کے طور پر بیان کرنے کے بعد اب چہرے کو ڈھانپ رہے ہیں۔جیوری کو دیگھیس کے خاندانی پس منظر کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا۔ 2017 میں، ایک سنگین کیس کے جائزے میں دیگھائیس کے بیٹوں کو شام میں مارے جانے سے پہلے بنیاد پرست ہونے سے روکنے کے لیے ضائع ہونے والے مواقع کی نشاندہی کی گئی۔