دہشت گردی کی نئی لہر

January 20, 2022

طویل عرصہ کی نسبتاً خاموشی کے بعد ملک میں دہشت گردی کی نئی لہر شروع ہو گئی ہے۔ منگل کو تخریب کاری کے سات واقعات ہوئے جن میں سے زیادہ تر کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی) نے قبول کر لی ہے۔ جن واقعات کی ذمہ داری نامعلوم افراد پر ڈالی گئی ہے قیاس ہے کہ ان کے پیچھے بھی ٹی ٹی پی کا ہی ہاتھ ہے۔ اسلام آباد میں گزشتہ شب کراچی کمپنی کے پاس چوری یا ڈکیتی کی جو واردات سمجھی جا رہی رہی تھی، وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کے مطابق وہ بھی دہشت گردی تھی اس میں دو دہشت گرد مارے گئے اور ایک پولیس اہلکار شہید ہوا۔ وفاقی دارالحکومت میں اس سال کا یہ پہلا واقعہ تھا جس کے بعد یہاں الرٹ جاری کر دیا گیا ہے۔ ٹی ٹی پی نےحملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ وزیر داخلہ کے مطابق دارالحکومت میں دہشت گردوں کے سلیپر سیلز موجود ہیں۔ بلوچستان میں سبی کے قریب جعفر ایکسپریس کو ٹریک پر بم دھماکے کے ذریعے اڑانے کی کوشش کی گئی۔ شمالی وزیرستان میں سیکورٹی فورسز کے آپریشن میں دو دہشت گرد ہلاک ہوئے۔ بھاری مقدار میں اسلحہ اور گولہ بارود پکڑا گیا۔ دہشت گردی کے دوسرے واقعات میر علی، بڈھ پیر، حیات آباد اور جندول میںہوئے جن میں حملہ آوروں کا جانی نقصان ہوا اور دو پولیس اہلکار شہید ہوئے۔ پاک فوج نے آپریشن ضرب عضب اور آپریشن ردالفساد کے دوران دہشت گردی کی کمر توڑ دی تھی طالبان حکومت آنے کے بعد ٹی ٹی پی اور پاکستانی حکام میں مذاکرات بھی ہوئے تھے جو ناکام ہو گئے اور ٹی ٹی پی نے دوبارہ تخریبی سرگرمیاں شروع کر دیں۔ پاک فوج تو پہلے ہی سے چوکس ہے۔ دوسرے مسلح اداروں کو بھی صورتحال کنٹرول کرنے کیلئے ہمہ وقت چوکنا رہنا ہوگا۔ اس کے ساتھ ہی حکومت کو کابل کی طالبان حکومت سے بھی بات کرنا ہو گی کہ وہ اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی کیلئے استعمال نہ ہونے دیں۔