اس طرح کہتے کہ سخنور سہرا

January 20, 2022

ہمارے وزیر اعظم کے چہیتے وزیر اعلیٰ نے دو ہزار انکم ٹیکس دیا ہے، مجھ جیسی پنشنر کوہزاروں میں زبردستی ٹیکس دینا پڑتا ہے ۔ کہہ دیا کہ پنشن پر بھی ٹیکس ہے۔مرتےکیا نہ کرتے، دینا پڑا مگر چیف منسٹر صاحب نے دوہزارروپے کس مد میں دیے ہیں جبکہ باقی سارے وزیروں نے لاکھوں انکم ٹیکس میں دینے کا اعتراف کیا ہے۔ مجھے یاد آیا، یوسفی صاحب نے لکھا تھا کہ اعدادوشمار، بس ہندسوں کا پھیر ہے۔ یہ پھیر بھی انہیں ہی آتا ہے جو کروڑوں میں کھیلتے، اربوں کماتے اور دوسروں کی زمینوں پر قبضہ کرکے، اپنی شامیں آباد کرتے اور دھیان رکھتے ہیں کہ کس وقت کس پارٹی میں جانا ہے۔ 75سال کی تاریخ شاہد ہے کہ آج کے پارسا،کل کے کیا تھے،لاہور میں سلطان کی سرائے بھی میں نے دیکھی ہوئی ہے اور میرے بزرگوں نے75سال پہلے کے لوگوں کو کندھے پر لنڈے کے کوٹ بیچتے دیکھا تھا۔ پھر فیکٹریوں پر فیکٹریاں کھلتی گئیں۔ چاروں جانب پراپرٹی ڈیلرز کو کوارٹر سے اٹھکر بنی گالہ کے ایکڑوں میں پھیلے فارم کے مالک بنتے دیکھا ہے۔ سچ کہتے ہیں وزیر اعظم کہ انہوںنے ساری دنیا دیکھی ہے اور ہر رنگ ونسل کے خواتین وحضرات کے ساتھ تصویریں، کمپیوٹر اور یوٹیوب کے زمانے سے پہلے اتروائی ہیںاب کوئی ان تصویروں سے انہیں بلیک میل کرنا چاہے تویہ اسکا خمیر۔ ورنہ علامہ اقبال کی بھی تو پرانی تصویریں نکالنے والے ہم نے دیکھے ہیں اور انکو بھی دیکھا ہے جو قائد اعظم کی اپنے کتے کے ساتھ تصویر شائع کرنے سےگریز کرتے تھے جو والپرٹ کی کتاب میں ایک لائن کاٹنے پر اصرار کرتے رہے۔لیکن مجھے آغا حشر پر رشک آتا ہے کہ کس محبت سے اور عزت کے ساتھ مختار بیگم کو اپنایا۔ جیسے طاہرہ سید کے والد، شاہ صاحب،ملکہ پکھراج کو سنتے ہوئے نیچے بیٹھ جاتے تھے۔ جیسا کہ عطیہ ، علامہ اقبال اور دیگر عالموں کو اچھی لگی تھیں، جیسا کہ فلم اسٹار ثریا کے حسن کو دیکھ کر،اس زمانے کا مشہور امریکی فلم اسٹار، شادی کرنے آیاتھا۔ مگر ثریا کے ابا نے اجازت نہیں دی۔ اسکے مرنے کے بعد، لاکھوں کا سونا اور رقم پر قبضہ کرنے کے لیے کئی رشتہ دار پیدا ہوگئے تھے جیسے فلم اسٹار رانی کے مرنے کے بعد، ایک کرکٹر بھی اسکی دولت پہ قبضہ کرنے کو لندن سے بھاگے آئے تھے۔یہ افسانہ کچھ زیادہ طویل ہوگیا۔ ورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا۔

سنا بھی تھا اور آنکھوں دیکھا بھی تھا کہ ایک لاکھ روپے دیں تو ڈاکٹریٹ کا مقالہ لکھوالیں۔ پہلے یہ ریٹ پچاس ہزار تھا اب ہرچیز کی قیمت کے ساتھ تحقیقی مقالہ لکھنے والوں کے ریٹ بھی بڑھ گئے مگر ایچ۔ ای۔ سی ہی بتاتی ہے کہ پاکستانی اسکالرز کے 250سے زائد پیپر انٹرنیشنل سطح پر مسترد کردیے گئے ہیں۔ بھلا کیوں۔ دوسروں کی تحقیق کو اپنے لفظوں میں اپنا کام کہہ کر پاکستانیوں کے سامنے تو سرخرو ہوجاتے ہیں۔ مگر عالمی سطح پرپول کھل جاتے ہیں۔ پھر بے شمار مثالیں یاد آرہی ہیں۔ جاپان نے ہم سے چاول منگوانے بند کردیے کہ ہم چاولوں کی بوری کے اوپر کے حصے میں عمدہ باسمتی رکھ دیتے تھے اور نیچے ٹوٹا یا اری چاول ویسے انڈیا والے شیخوپورہ کے باسمتی کی بوری پراپنا لیبل لگاتے ہوئے اتنے پکڑے گئے کہ ساری دنیا کو خبرہوگئی دھاگہ بنانے والے، نائیلون کی ملاوٹ کرنے لگے اور جب انکا بنایا ہوا دھاگہ یا کپڑا، اس بے ایمانی کے باعث واپس کردیا جاتا ہے تو ہم واویلا مچانے لگتے ہیں۔ یہی حال وزیر آباد، سیالکوٹ کے چھریاں بنانے والے، اچھا برا مال ملا کر بھیجتے اور دنیا بھر سے واپس آجاتا ہے۔ کوالٹی کنٹرول کہیں ہے ہی نہیں۔

اب ہمارے فلموں سے تعلق رکھنے والے لوگ شور مچا رہے ہیں کہ انڈین فلمیں بند کرنا، غلط تھا۔مقابلہ ہی نہیں رہا تو پھر چل سو چل،ویسے بھی اسمگلر فلم بنانے کو منافع کا ذریعہ سمجھیں تو پھر ہیر رانجھا فلم بنانے والے تو دستیاب ہی نہیں ہونگے۔ اس وقت نہ صرف کراچی بلکہ ملک کے مختلف حصوں میں لڑکے لڑکیاں، اپنے طور پر دستاویزی اور کمرشل فلمیں بنانے کی کوشش میں سرگرداں ہیں مگر سنسر شپ کالی بلی کی طرح راستہ کاٹ جاتی ہے۔ کوئی ہمارے وزیراعظم کو پاکستانی ادب پڑھا دے۔ ورنہ وہ اور فواد چوہدری نسیم حجازی کے ناولوں تک محدود رہ جائیں گے۔