اگر مالک کو حق پہنچ جائے تو پہنچانے والابری الذّمہ ہے

January 21, 2022

آپ کے مسائل اور اُن کا حل

سوال : مفتی صاحب، میں بچپن اور عالم شباب یعنی 30 سال پہلے تک دین سے ناواقف تھا، جس وقت میری عمر 18 یا 20 سال تھی،کبھی کبھی خالو کی جیب سے 10 روپے، کبھی 50، کبھی 20، اس طرح اکثر اٹھایا کرتا تھا یا کبھی مجھے کسی سودا سلف کے لیے بجھواتے تو ان میں سے بھی 10یا20 اٹھا لیتا، اس کے علاوہ خالو کے بینک سے 8 ہزار نکلوائے۔اب خالو اس دنیا میں نہیں ہیں، ان کی بیوہ حیات ہیں اور بچے بھی ہیں ۔اب برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں کہ میں ان کی ادائیگی کیسے کروں ؟تاکہ آخرت میں رسوائی اور مواخذے سے محفوظ رہوں ۔

نوٹ۔ ان کی بیوہ اور بچوں کو پتہ بھی نہیں چلے کوئی تجویزدے دیں۔(ع۔ آدم خیل، چمن)

جواب: اللہ پاک سے معافی مانگیں اورخالو کی جورقم بینک سے نکلوائی اور جتنی آپ نے وقفے وقفے سے اٹھائی ،ان سب کااندازہ لگاکرخالو کے ورثاء کو واپس کردیں۔ورثاء کے سامنے یہ وضاحت ضرروی نہیں ہے کہ یہ رقم آپ کس مدمیں ان کو واپس کررہے ہیں ۔اگربراہِ راست واپس دینا مشکل ہوتو کوئی ایسی تدبیر اختیار کرلیں کہ یہ رقم اصل حق داروں کو پہنچ جائے، مثلًا ان کے نام پر ارسال کردیں۔

اپنے دینی اور شرعی مسائل کے حل کے لیے ای میل کریں۔

masailjanggroup.com.pk