کاربن اخراج میں کمی اور معیشتوں کو ترقی دینا

March 28, 2022

موسمیاتی تبدیلی کو محدود کرنے کے اقدامات کے طور پر کم کاربن ٹیکنالوجیز کو معمول بنانے کے لیے عالمی سطح پر ایک بے مثال تحریک کی ضرورت ہوگی۔ گزشتہ سال نومبر میں گلاسگو میں منعقد ہونے والی اقوام متحدہ کی 26ویں موسمیاتی تبدیلی کانفرنس، جسے عام طور پر COP26 کہا جاتا ہے، میں بدقسمتی سے یہ ظاہر ہوا کہ دنیا ایسی کسی تحریک کے لیے فی الحال تیار نہیں ہے۔ دنیا کے بہت سے رہنما اب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ کاربن اخراج کو کم کرنا اور اپنے ممالک کی معیشتوں کو ترقی دینا ہم آہنگ اہداف نہیں ہیں۔

اس کے باوجود بہت سے ممالک میں صاف توانائی کی ٹیکنالوجیز میں تبدیلی توقعات سے کہیں زیادہ کامیاب ہوئی ہے۔ 2010ء سے برازیل میں پَون توانائی کے ذریعے بجلی کی فراہمی 1فیصد سے بڑھ کر 10فیصد تک پہنچ گئی ہے اور 2019ء میں اس نے یورپی یونین کی بجلی کی طلب کا 15فیصد فراہم کیا ہے۔ شمسی توانائی کو 2014ء تک ’’کاربن کے اخراج کو کم کرنے کا سب سے مہنگا طریقہ‘‘ کے طور پر بیان کیا گیالیکن اب اس کی لاگت ایک دہائی پہلے کے مقابلے میں 85فیصد کم ہوچکی ہے اور یہ چیز اسے تیزی سے تاریخ کی سب سے سستی بجلی بنا رہی ہے۔

ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں، سستی توانائی تک رسائی کے پروگراموں نے اعلیٰ کارکردگی والے LED بلب کی فروخت کو 2012ء کے 30لاکھ یونٹس سے بڑھا کر 2018ء میں 67کروڑتک پہنچادیا جبکہ اس کی قیمتوں میں بھی 85 فیصد کمی واقع ہوئی۔ یہ تین ٹیکنالوجیز اب پوری دنیا میں بجلی یا روشنی پیدا کرنے کے سستے ترین طریقے پیش کررہی ہیں۔

اہم بات یہ ہے کہ ان تمام تبدیلیوں میں اہم حکومتی کارروائی شامل ہے۔ اس کے علاوہ، زیادہ تر ابتدائی معاشی اندازوں کے باوجود آگے بڑھے کہ بہت سے معاملات میں قابل تجدید ذرائع کو ڈویلپ کرنا اخراج کو کم کرنے کا خاص طور پر مہنگا طریقہ ہوگا۔ نئی ایجادات کے ذریعے لاگت کو کم کرنے کے لیے ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ پر انحصار کرنے کے بجائے (یا مسابقت کے ذریعے مارکیٹ کو خود ہی ایسا کرنے دیا جائے)، حکومتوں نے سبسڈیز اور پبلک پروکیورمنٹ پروگراموں کا استعمال کیا تاکہ اخراجات کو کم اور اس حوالے سے فہم میں اضافہ کیا جائے۔ یہ متاثر کن نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ اقتصادی تشخیص کے روایتی ماڈلز (لاگت اور فوائد کا حساب لگانا، گویا وہ کافی حد تک قابل پیش گوئی ہیں) توانائی، صنعت، ٹرانسپورٹ اور عمارتوں جیسے شعبوں میں حقیقی تبدیلی لانے کے لیے ناکافی ہیں۔

چیلنجز

عالمی سطح پر کم کاربن کی منتقلی میں ان شعبوں کو چلانے کے طریقوں میں متعدد غیر متوقع تبدیلیاں شامل ہوں گی۔ اور منتقلی کے چند اہم ترین فوائد جیسے کہ صاف ستھری ٹیکنالوجیز اور سپلائی چین، نئی ملازمتیں اور تازہ ہوا کو آسانی سے پیشگی طے کیا جا سکتا ہے۔ پَون توانائی، شمسی توانائی اور ایل ای ڈی کی قیمتیں ابتدائی طور پر موجود ٹیکنالوجیز (جیسے کوئلے اور گیس سے چلنے والی بجلی) کی نسبت بہت زیادہ تھیں۔

ان ٹیکنالوجیز نے ایک صدی سے زیادہ عرصے تک ڈویلپمنٹ سے فائدہ اٹھایا تھا لیکن موجودہ دور میں بڑی ابھرتی ہوئی معیشتوں کے ساتھ ساتھ یورپ میں بھی اب نئی ٹیکنالوجیز درحقیقت توانائی کے اخراجات کو کم کر رہی ہیں۔ تجزیہ سے پتہ چلتا ہے کہ، کم کاربن ٹرانزیشن کرنے کا فیصلہ کرتے وقت، لیڈروں کو روایتی لاگت سے فائدہ اٹھانے والے معاشی طریقوں سے آگے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس کے نتیجے میں ممالک کو درپیش خطرات اور مواقع کے بارے میں غیر یقینی صورتحال کو قبول کرنا چاہیے۔

رہنماؤں اور محققین کو یہ بھی شناخت کرنے کی ضرورت ہے کہ ’’ٹپنگ پوائنٹس‘‘ کیسے بنائے جائیں جو کم کاربن والی معیشتوں کی طرف تبدیلیوں کو متحرک کر سکیں۔ مثال کے طور پر، بیٹری ٹیکنالوجی میں مسلسل بہتری الیکٹرک گاڑیوں (EVs) کو پیٹرول والی کاروں کے ساتھ تیزی سے مسابقتی بنا رہی ہے۔

بہتر چارجنگ انفرااسٹرکچر بنانے اور EVs کی قیمتوں کو کم کرنے کی پالیسیاں ہمیں برقی نقل و حمل کے مستقبل کی طرف تیزی سے اشارہ دے سکتی ہیں۔ اس مستقبل کے فوائد میں صاف ستھرے شہر، تیل پر انحصار میں کمی اور ای وی بیٹریوں میں اضافی بجلی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت بھی شامل ہے، جس سے ضرورت پڑنے پر قومی گرڈ کو بجلی فراہم کی جاسکتی ہے۔

تاریخی طور پر، یہ بڑے پیمانے پر فرض کیا گیا ہے کہ کاربن اخراج کو کم کرنے کا مطلب ممالک کی معیشتوں کو نقصان پہنچانا ہے۔ اور کم کاربن کی منتقلی یقیناً سماجی اور اقتصادی چیلنجوں میں شامل ہوتی ہے۔ لیکن اچھی طرح سے ڈیزائن کی گئی پالیسیاں (جیسے کہ ہوا، شمسی اور ایل ای ڈی میں انقلابات لانے کے لیے استعمال ہونے والی پالیسیاں) تمام ممالک میں آب و ہوا کے لیے بہت زیادہ فوائد پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ اگر ہم موسمیاتی تبدیلی کو حل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں سب سے پہلے اپنی معاشی سوچ کو بدلنا ہوگا۔

ایسے ملکوں، ریاستوں، شہروں اور اداروں کی تعداد میںبتدریج اضافہ ہورہا ہے، جو رواں صدی کے وسط تک کاربن کے اخراج کو عملی طور پر صفر پر لانے کے لیے کوشاں ہیں۔ دنیا بھر میں گرین ہاؤس گیسز کے اخراج میں 40فیصد حصہ عمارتوں کا ہے۔ خوش قسمتی سے، جس طرح دنیابھر میں ماحولیاتی مسئلہ تیزی سے اُجاگر ہورہا ہے، کاربن کا صفر اخراج کرنے والی عمارتوں میں دلچسپی اور سرمایہ کاری دونوں ہی بڑھ رہی ہیں۔