گرمی کو کیسے مات دی جائے؟

May 03, 2022

موسم گرما میں گرمی کی شدت کے باعث غیرضروری طور پر باہر نکلنا صحت کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ سورج کی شعاعیں جِلد کے لیے بھی نقصان کا باعث ہوتی ہیں۔ گرمیوں میں پسینا خارج ہونے کے باعث جسم کے لیے پانی کی ضرورت دُگنی ہوجاتی ہے۔ ایسے میں اگر پانی کی کمی پوری نہ کی جائے تو جسم ’ڈی ہائیڈریشن‘ کا شکار ہوجاتا ہے، جس کے باعث انسان میں بیماریوں کا مقابلہ کرنے کی قوت کم ہونے لگتی ہے۔

یہی چیز آگے چل کر ہیٹ اسٹروک اور دیگر جان لیوا امراض کا سبب بنتی ہے۔ ان تمام بیماریوں سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ موسم گرما کی منصوبہ بندی بہتر انداز میں کی جائے مثلاً کچھ ایسی تدابیر اختیار کی جائیں، جو موسم گرما کے دوران سود مند اور صحت مند رکھنے میں مددگار ثابت ہوسکیں۔

گرمی میںکیا پہنا جائے؟

گرم دن کا مقابلہ کرنے کے لیے پہلی بنیادی چیز آپ کا پہناوا ہے۔ یہ جتنا آرام دہ ہوگا، آپ گرمی کو اتنی ہی آسانی سے مات دے پائیں گے۔ چنانچہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ کا پہناوا موسم گرما کی مناسبت سے ہو۔

ہلکے رنگ کے کپڑے: آپ نے اکثر ٹی وی کمرشل، ڈراموں یا فلموں میں دیکھا ہوگا کہ ساحلِ سمندر پر عکس بندی کے دوران اداکار یا ماڈل عموماً سفید رنگ کے کپڑے پہنے نظر آتے ہیں۔ ایسا اس لیے کرتے ہیں کہ سفید رنگ گرمی کا مقابلہ کرنے کے لیے بھی بہترین تصور کیاجاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق گہرے رنگ کے کپڑوں میں زیادہ گرمی محسوس ہوتی ہے، اس کے برعکس ڈھیلے ڈھالے اور ہلکے رنگ کے کپڑوں میں پسینہ جلدی خشک ہوجاتا ہے اور انسان خود کو آرام دہ محسوس کرتا ہے۔

دھوپ کے چشمے: موسم گرما میں آنکھوں کو سورج کی مضر شعاعوں سے محفوظ رکھنے کے لیے سن گلاسز کا استعمال کیا جاتاہے۔ گرمیوں میں آنکھوں کوآلودگی اور سورج کی الٹراوائلٹ) (UV شعاعوں سےمحفوظ رکھنے کے لیے ایسے سن گلاسز کا انتخاب کریں، جو 90 سے 100فیصد UVشعاعیں روکنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔

سمر کیپ: موسم گرما میں گھر سے باہر نکلتے ہوئے کیپ کا استعمال کیجیے۔ یہ کیپ آپ کے چہرے کو سورج کی مضر شعاعوں سے محفوظ رکھنے کا ذریعہ بنے گی، جو بعد میں مسام کھل جانے یا جھریوں کی صورت نقصان دہ اثرات نمایاں کرتی ہیں۔

سن اسکرین: چلچلاتی دھوپ میں سورج کی الٹراوائلٹ شعاعوں سے محفوظ رہنے کے لیے ڈرماٹولوجسٹ ابتدائی عمر سے ہی سن اسکرین کے استعمال کا مشورہ دیتے ہیں۔ سن اسکرین خصوصی طور پر سورج کی تیز اور جلادینے والی تپش سے چہرے سمیت جسم کے دیگر حصوں کو محفوظ بنانے کے لیے استعمال کی جاسکتی ہے۔

گرمی میںکیا پینا چاہیے؟

گرمی میں آپ کو پسینہ زیادہ آتا ہے اور یہ آپ کے جسم کو ٹھنڈا رکھتا ہے لیکن اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی وجہ سے جسم سے ضروری مادے(مثلاً پوٹاشیم اور سوڈیم) بھی زیادہ مقدار میں خارج ہونے لگتے ہیں۔ ان مادوں کی کمی پٹھوں اوردماغی فنکشن کی فعالیت پر اثر انداز ہوتی ہے، لہٰذا اس موسم میں خود کو ہائیڈریٹ رکھنے کے کچھ طریقے ہیں، جن کا ذکر ذیل میں کیا جارہا ہے۔

پانی: گرمیوں میں پانی پینے کے لیے پیاس لگنے کا انتظار نہ کریں۔ اس موسم میں خود کو ڈی ہائیڈریشن سے محفوظ رکھنے کے لیے پانی کا زیادہ سے زیادہ استعمال یقینی بنائیں۔ روزانہ کم از کم 3 لیٹر پانی لازمی پئیں۔

جوس: گرمی کے موسم میں تمام قدرتی پھلوں کے رس کا استعمال بڑھادیں اور ان میں چینی کا استعمال ہرگز نہ کریں۔ پھلوں میں موجود قدرتی مٹھاس آپ کے جسم کو ضروری غذائیت بہم پہنچانے کے لیے کافی ہے۔

چائے اور کیفین سے پرہیز: طبی ماہرین کے مطابق شدید گرم موسم میں گرم اشیا (چائے اور کافی) سے پرہیز کریں، ساتھ ہی الکوحل اور کیفین والے دیگر مشروبات سے بھی گریز کیا جائے۔ اس کے برعکس پانی، لسی اور دیگر دیسی مشروبات (ستو، لیموں پانی وغیرہ)کا استعمال فائدہ مند رہتا ہے ۔

گرمی میںکیا کھائیں؟

گرمی کے موسم میں مختلف غذاؤں کا استعمال بھی آپ کو صحت مند رکھ سکتا ہے۔ اپنی خوراک میں درج ذیل غذاؤں کو شامل کریں۔

پھل اور سبزیاں: پھل اور سبزیاں بآسانی ہضم ہوجاتی ہیں، ساتھ ہی ان میں پانی کی وافر مقدار بھی پائی جاتی ہے جسے موسم گرما کی اہم ضرورت تسلیم کیا جاتا ہے۔ موسم گرما میں سلاد بناتے ہوئے اس میں ایسے پھل اور سبزیاں شامل کریں، جو آپ کو گرمی میں ہائیڈریٹ رکھ سکیں۔

مسالے دار غذائیں: گرم موسم میں مسالے دار غذاؤں کا استعمال پسینہ کے اخراج میں اضافہ کرتا ہے اور یہ آپ کی توانائی میں کمی کا باعث بنتا ہے۔

کم چربی والا گوشت: مضرِ صحت چربی انسانی جسم کے لیے خطرنا ک ہوتی ہے۔ یہ جسم میں نمک کی مقدار بڑھانے کا سبب بھی بنتی ہے۔ خصوصاً امراض قلب کے مریض چربی والا گوشت، گردے، مغز، سری پائے اورکلیجی وغیرہ استعمال نہ کریں کیونکہ ان میں موجود فیٹ جسم میں کولیسٹرول کی سطح بڑھا دیتا ہے جو کہ ان مریضوں کے لیے بے حد خطرناک ہے۔

مندرجہ بالا باتوں اور احتیاط پر عمل کرتے ہوئے آپ جسم میں پانی کی کمی اور صحت میں گرانی سے بچ سکتے ہیں۔ ان ہدایات پر خود بھی عمل کریں اور اپنے گھر والوں کو بھی اس بارے میں ترغیب دیں۔