آسماں گیر ہوا نعرۂ مستانہ ترا

May 21, 2022

سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے اپنے اکثریتی فیصلے میں کہا ہے کہ ’’ایوان میں کسی پارلیمانی پارٹی کے رکن کا ووٹ اگر اس کی پارٹی کی ہدایت کے برعکس ڈالا جائے، جیسا کہ آرٹیکل 63A کی شق (1) کے پیرا (b) میں بیان کیا گیا ہے، تو اس کی گنتی نہیں کی جائے گی اور وہ مسترد کردیا جائےگا، قطع نظر اس کے کہ ایسی ووٹنگ کے بعد پارٹی قائد اس پر کارروائی کرتا ہے، یا اس سے گریز کرتا ہے کہ اس رکن نے پارٹی پالیسی سے انحراف کیوں کیا۔‘‘یہ فیصلہ صدرِ مملکت کے ایک ریفرنس کے جواب میں آیا جس میں آرٹیکل 63A کی تشریح کیلئے سپریم کورٹ سے رائے طلب کی گئی کہ کیا انحراف کی بنیاد پر رکن کی نااہلی ہوسکتی ہے؟ انحراف کے بعد نااہلی کی مدت کا تعین کرنے سے گریز کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے بنچ نے کہا کہ ’’اگر چہ اس معاملے پر قانون سازی کرنا پارلیمنٹ کا کام ہے، لیکن کہنا پڑے گا کہ ضروری ہے کہ اس وقت ہماری قانون کی کتاب میں اس بابت قانون موجود ہو۔ اگر ایسی قانون سازی کی جاتی ہے تو یہ محض رسمی سی بے ضررتادیب نہیں ہونی چاہیے بلکہ اس خرابی کے خاتمے اور اسے جڑ سے اکھاڑنے کیلئے بہت کڑی سزا دی جائے‘‘۔

مجھ جیسے شہریوں کے لیے جو اس قومی بندوبست میں اخلاقیات کو مرکزی کردار ادا کرتے دیکھنے کے خواہش مند رہے ہیں، کے لیے یہ فیصلہ ایسے ادارے کی طرف سے آنے والا تازہ ہوا کا جھونکا ہے جس سے میں مایوس ہوچلا تھا۔ یہ کہنا بیجا نہ ہوگا کہ اس نے پاکستانی جمہوریت کی داغ دار تاریخ کا ایک نیا صفحہ پلٹا ہے، ورنہ ہمارے ہاں جمہوریت ایسے افراد کے ہاتھوں یرغمال رہی ہے جو ہمہ وقت برائے فروخت رہتے ہیں۔ یہ منفرد صورت حال، جسے فاضل عدالت نے ایک ’’برائی‘‘ قرار دیا، کا مظاہرہ عمران خان حکومت کے خلاف عدم اعتماد کے ووٹ کے مختلف مراحل پر دیکھنے میں آیا جب اراکینِ پارلیمنٹ کی وفاداری کو مختلف اقسام کی ترغیبات اور مراعات کے بدلے خریدا گیا۔ستم ظریفی یہ ہے کہ جس عدالت نے یہ روشن فیصلہ سنایا ہے، وہی اس وقت صدارتی ریفرنس پر درکار فوری اقدامات کرنے میں ناکام رہی تھی۔ اس کے نتیجے میں معاملہ ترجیحات کے ذیل میں بہت پیچھے چلا گیا اورپھر اراکینِ پارلیمنٹ کی کھلے عام خریدو فروخت کا بازار گرم ہوگیا۔ اور یہ افسوس ناک ڈرامہ حکومت کے انہدام پر منتج ہوا۔

ممکن ہے کہ اراکینِ پارلیمنٹ کی ہارس ٹریڈنگ کے نتیجے میں مرکز میں قائم ہونے والی حکومت کے مستقبل کے بارے میں کچھ شکوک و شبہات پائے جاتے ہوں لیکن اس فیصلے کے بعد پنجاب کی صوبائی حکومت کا یقینی طورپر بوریا بستر گول ہوجائے گا کیوں کہ اس کاوجود تو تحریکِ انصاف کے منحرف ہونے والے اراکین کے ووٹ پر تھا جنھیں اب سپریم کورٹ کے فیصلے نے آرٹیکل 63A کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے گنتی سے باہر کردیا ہے۔ صوبائی حکومت کو اب ایوان میں اکثریت کی حمایت حاصل نہیں۔ اس کے باوجود صوبے میں آئینی جمود کی وجہ سے اس کا اقتدار سے ہٹایا جانا مشکل ثابت ہوسکتا ہے۔ کچھ لوگ اداروں کے نقطۂ نظر میں تبدیلی کے بارے میں قیاس آرائیاں کرتے ہوئے نتیجہ نکالنے کی کوشش میں ہیں کہ آخر اس فیصلے کا محرک کیا ہے؟ ان اندازوں اور قیاس آرائیوں میں جائے بغیر میں یہ کہوں گا کہ جب سے جمہوری حکومت کو ہٹایا گیا، تب سے زمینی حقائق میں بنیادی نوعیت کی تبدیلی آئی ہے۔ اس ملک کے لوگ غیر ملکی سازش اور اس کے مقامی سہولت کاروں کے ہاتھوں حکومت کی تبدیلی کے خلاف عمران خان کی مزاحمت کا ساتھ دینے کیلئے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ یہی وہ چیلنج ہے جس کا اب تمام اداروں کو سامنا ہے۔

سازشیوں کے گرد گھیرا تنگ ہوتا جا رہا ہے، اور اس سے کوئی بچ نہیں سکتا۔ لوگوں کے جذبات کھول رہے ہیں۔ ان کی امیدیں عمران خان کی ذات سے مضبوطی سے وابستہ ہیں۔ اوریہ والہانہ پن اب تبدیل نہیں ہوگا، بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ اس میں مزید شدت آئے گی اور یہ نعرہ پورے ملک کے طول و عرض میں گونجے گاجب اسلام آباد کی طرف مارچ کا بلاوا آئے گا تاکہ غلامی کے چنگل سے حقیقی آزادی حاصل کی جا سکے۔ وہ غلامی جس نے یکے بعد دیگر ے قائم ہونے والی بہت سی حکومتیں گرائی ہیں، اور جس نے اپنے ذاتی مفادات کے تحفظ اور فروغ کے لیے پاکستان پر اپنی توہین آمیز پالیسیاں مسلط کی ہیں۔ لوگوں کا سمندر ہر طرف سے بلاوے کا انتظار کر رہا ہے۔ میرے دوست کی حیثیت سے، جنون گروپ کے شہرت یافتہ سلمان احمد نے مجھے کچھ دن پہلے لکھا: ’’میں کل رات سیالکوٹ کے جلسے کے بعد عمران خان کی گاڑی میں تھا۔ ہمیں ہوائی اڈے تک پہنچنے میں تین گھنٹے لگے کیونکہ سڑکوں پر لوگوں کا ایک سمندر موجزن تھا۔ یہ ایک صوفی اجتماع کی طرح تھا جس میں سماجی تقسیم کی لکیروں سے بے نیاز ہوکر مرد، خواتین، جوان اور بوڑھے کھنچے چلے آتے ہیں۔ یہ احساس الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ اتحاد کی یہ شمع صرف عمران خان ہی روشن کرسکتے تھے‘‘۔

یہ کوئی تخیل نہیں، حقیقت ہے۔ یہ سب کچھ ہماری نظروں کے سامنے ہورہا ہے۔ سلمان اور لاکھوں دوسرے اسے دیکھ رہے ہیں اور جادو کے پیچھے مقصد، الفاظ کے پیچھے مقصدیت، اور آزادی کی پکار کے پیچھے سچائی سے متاثر ہو رہے ہیں۔ خان صاحب کوئی عام لیڈر نہیں۔ وہ پاکستان اور اس کے عوام کو غلامی کی زنجیروں سے نجات دلانے کے مشن پر ہیں جسے وہ کئی دہائیوں سے ایسے لیڈروں کی وجہ سے پہنتے رہے ہیں جو اس کا بھاری معاوضہ وصول کرتے تھے۔ لیکن اب کلینڈر کا وہ صفحہ پلٹا جا چکا۔ یہ ایک ایسی تبدیلی ہے جو بہت زمانوں کے بعد آتی ہے۔ ہم خوش قسمت ہیں کہ اپنی آنکھوں سے اس کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ صدا آرہی ہے کہ نیا پاکستان اپنی شکل اختیار کر رہا ہے اور لوگوں کی نہ ختم ہونے والی قطاریں امید کے کارواں میں شامل ہونے کی منتظر ہیں۔