کیا افغانستان میں اسلامی نظام نافذ ہے؟

May 25, 2022

اگر آپ کو ایک سوال نامہ دیا جائے جس میں پوچھا گیاہو کہ کیا افغانستان میں اسلامی نظام نافذ ہے، ہاں یا ناں میں جواب دیں، تو آپ کا جواب کیا ہوگا ؟ ہوسکتا ہے کہ کچھ لوگ ناں میں جواب دیں تاہم مجھے یقین ہے کہ ہمارے مذہبی طبقے سے تعلق رکھنے والے دوستوں کا جواب ہاں میں ہی ہوگا۔ وجہ اِس کی یہ ہے کہ جس قسم کے اسلامی نظام کی ترویج ہمارےیہ دوست پاکستان میں کرتے ہیں کم از کم ویسا ماڈل طالبان نے افغانستان میں ضرور نافذ کردیا ہے۔ اُس کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ افغانستان میں فحاشی اور عریانی کا نام و نشان تک نہیں، دوسری یہ کہ وہاں کفار کی ایجاد کردہ مغربی جمہوریت کی بجائے خلافت پر مبنی نظام حکومت رائج ہے اور تیسری بڑی نشانی یہ ہے کہ وہاں سود کی ممانعت ہے۔ اس کے علاوہ پورے ملک میں کوئی سنیما گھر، تھیٹر یا کلب نہیں ہے، کسی قسم کے شراب یا جوئے خانے نہیں ہیں، کوئی عورت بغیر برقع کے گھر سے باہر نہیں نکل سکتی، ٹی وی پر خبریں پڑھنے والی عورتوں کے لیےبھی نقاب اوڑھنا ضروری ہے، لڑکیوں کے اسکول بھی تقریباً بند ہیں، خواتین ڈرائیونگ نہیں کر سکتیں، بغیر محرم کے سفر نہیں کر سکتیں جبکہ مردوں کو چار شادیوں کی اجازت ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ تمام باتیں وہی ہیں جن کا ہمارے مذہبی زعما پاکستان میں پرچار کرتے ہیں اور اِس بات پر تاسف کا اظہار کرتے ہیں کہ اسلام کے نام پر حاصل کیے گئے ملک میں اب تک اسلامی نظام نافذ نہیں ہوسکا۔یہاں تین سوال پیدا ہوتے ہیں۔ پہلا، کیا واقعی یہ اسلامی نظام کا ماڈل ہے ؟ دوسرا، اگر یہ اسلامی نظام کی درست تصویر کشی نہیں تو پھر ہمارے مذہبی زعما اِس کا پرچار کیوں کرتے ہیں اور تیسرا، اگر یہ درست تصویر ہے تو پھر اِس کے ثمرات کہاں ہیں ؟

پہلے سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اُن چیدہ چیدہ کتابوں اور تحریروں کی پڑتال کریں جو اسلامی نظام کے خدو خال سے متعلق ہمارے ملک میں لکھی گئی ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ کام ہزار لفظوں کے اِس کالم میں تو نہیں سمیٹا جا سکتا، صرف اپنی رائے ہی دی جا سکتی ہے۔ میری رائے میں اسلامی نظام سے متعلق تحریروں کے بھی دو حصے ہیں، ایک حصہ تو وہ ہے جو خالصتاً اُن معاملات سے متعلق ہے جن کا پرچار شدو مد سے ملک میں کیا جاتا ہے یعنی فحاشی، عریانی، مخلوط تعلیم، ناچ گانا، فلم، تھیٹر، شراب جوا، سود پر پابندی وغیرہ۔ اِن معاملات میں ہمارے مذہبی زعما کے نظریات تقریباً وہی ہیں جیسے طالبان کے، فرق صرف اتنا ہے کہ جب طالبان نے لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی لگائی تو مفتی تقی عثمانی نے انہیں پیار سے خط لکھ کر سمجھایا کہ اچھے بچے ایسا نہیں کرتے۔ دوسرے معاملات وہ ہیں جو سماجی و معاشی انصاف کی فراہمی، جمہوریت، طرز حکمرانی ، محصولات کی وصولی اور ایک فلاحی معاشرے کے قیام سے متعلق ہیں۔ اِن معاملات میں ہمارے علما کے درمیان اختلاف قدرے زیادہ ہے، لیکن قطع نظر اِس اختلاف کے، اصل مسئلہ یہ ہے کہ دنیا کے جن ممالک میں فلاحی معاشرتی نظام قائم ہے وہ سب غیر مسلم ہیں۔ وہاں مغربی جمہوریت رائج ہے، بیوروکریسی جدید خطوط پر کام کرتی ہے، خواتین کو مکمل آزادی حاصل ہےاور ریاست اپنے تمام شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کی ذمہ دار ہے۔ کیا افغانستان میں ایسے نظام کا نفاذ ہونے کا امکان ہے ؟ اِس سوال کا جواب چاہیے تو واپس 1996میں چلتے ہیں جب افغانستان کی باگ ڈور ملا عمر کے ہاتھ میں تھی، پانچ سال تک وہ بلا شرکت غیرے افغانستان کے حکمران رہے، کیا اُس وقت یہ ملک ایک ماڈل اسلامی ملک بن سکا تھا ؟ اگر نہیں تو اب کس طرح بنے گا؟ اب تو وہاں بھو ک اور غربت کا یہ عالم ہے کہ مائیں اپنی بچیاں فروخت کرنے پرمجبور ہیں اور حکومت کی ترجیح یہ ہے کہ خواتین اینکرز نقاب اوڑھ کر خبریں پڑھیں !

جہاں تک دوسرے سوا ل کا تعلق ہے تو میری رائے میں اسلامی نظام کا ماڈل وہ نہیں ہے جو افغانستان میں رائج ہے۔ اسلامی نظام کے داعی، چاہے پاکستان میں ہوں یا افغانستان میں، آ جا کر اُن کی تان عورت، فحاشی اور سود پر ہی ٹوٹتی ہے، اُن کے نزدیک تمام مسائل کا حل فحاشی اور سود کے خاتمے اور عورت کے پردے میں پوشیدہ ہے۔ آپ سوال کریں معاشرے میں جرائم کیوں بڑھ رہے ہیں، جواب ملے گا فحاشی کی وجہ سے، آپ اُن سے پوچھیں کہ لوگ غربت کا شکار کیوں ہے، جواب آئے گا سودی نظام کی وجہ سے !بالفرض محال اگر ہم یہ استدلال درست مان بھی لیں توافغانستان نے تو عملاً یہ ماڈل نافذ کردیا ہے، وہاں غربت کا خاتمہ کیوں نہیں ہوا ؟تیسرے سوال کا جواب بھی اسی سے جڑا ہے۔ اگر اسلامی نظام وہی ہوتا جو افغانستان میں 1996سے 2001 تک رائج تھا یا جو طالبان نے اب نافذ کیا ہے تو اُس کے ثمرات پوری دنیا کے سامنے ہوتے، جبکہ حقیقت حال یہ ہے کہ پورا ملک کھنڈر بنا ہوا ہے، بھوک اور افلاس کا وہاں راج ہے، بیاسی فیصد خاندانوں کا روزگار ختم ہوچکا ہے ، نوّے لاکھ لوگ خوراک کی کمی کا شکار ہیں، تقریباً اڑھائی کروڑ افراد فوری انسانی امداد کے منتظر ہیں اور عالمی خوشحالی کے کسی اشاریے میں افغانستان کا نام دور دور تک شامل نہیں۔

اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے مذہبی زعما نے اسلام کی وہ تشریح کر رکھی ہے جو اُس کی روح کے ہی منافی ہے، رسول اللہﷺ نے جب مکہ میں تبلیغ کا آغاز کیا تو وہاں کی اشرافیہ آپ ﷺ کے خلاف صف آرا ہوگئی کیونکہ آپ ﷺ نے غلام کو اُن کے برابر لا کھڑا کیا اور کہا کہ سب انسان برابر ہیں، کسی کو اگر کوئی برتری ہے تو فقط تقویٰ کے سبب۔ یہ وہ سماجی اور معاشرتی انقلاب تھاجو اسلامی نظام کی اساس ہے۔ جبکہ ہمارا ’اسلام‘ عورت کے نقاب سے شروع ہوتا ہے اور ٹخنوں سے اونچی شلواریں پہننے پہ ختم ہوجاتا ہے۔ آج مغرب میں جہاں جہاں فلاحی ریاستیں قائم ہیں وہ سماجی انصاف کے اسی اصول پر کھڑی ہیں ، وہاں ہر شخص قانون کے سامنے برابر ہے اور ہر کوئی آزادی سے اپنی زندگی گزارنے کا حق رکھتا ہے۔چلیے ہم یہ نہیں کہتے کہ اگر آپ افغانستان کے اسلامی ماڈل سے متاثر ہیں تو وہاں ہجرت کر جائیں لیکن کم از کم اُس ماڈل کا یہاں پرچار تو نہ کریں، کیونکہ اگر آپ اُس ماڈل کا پرچار کریں گے تو لا محالہ اِس کا یہی مطلب ہوگا کہ آپ کے نزدیک اسلامی نظام وہی ہے جو افغانستان میں نافذ ہے۔ افغانستان میں جو نظام نافذ ہے وہ سب کچھ ہو سکتا ہے مگر اسلامی نہیں ہوسکتا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)