پاکستانی مزاح کو ایکسپورٹ کریں

June 29, 2022

پہلا تعارف:کچھ عرصہ پہلے سوشل میڈیا پر ایک مزاحیہ ویڈیو میری نظر سےگزری ، وہ ویڈیو ایک خاتون نے بنائی تھی جس میں وہ ڈاکٹر بن کر خواتین کو مشورے دیتی ہے اور پھر مریض عورتوں کاروپ دھار کر اُن کی نقالی بھی کرتی ہے ،اِن میں شرمیلی کنواری لڑکی سے لے کر دیہات کی بے باک عورت تک سب شامل تھیں۔وہ ویڈیو کلپ جراثیم کی طرح پھیلا،گویابہت وائرل ہوا۔اُس کلپ میں ہمارے سماجی رویوں کی شاندار عکاسی کی گئی اور دکھایا گیا کہ مختلف طبقے کی عورتیں ایک لیڈی ڈاکٹر کے سامنے اپنےزنانہ امراض کو کس طرح خود ساختہ ’کوڈ ورڈز ‘ میں بیان کرتی ہیں۔پہلے تو لیڈی ڈاکٹر کو اُن کے تخلیق کردہ کوڈ ورڈ ز کی سمجھ ہی نہیں آتی اور جب سمجھ آتی ہے تو وہ کیا جواب دیتی ہے ،یہ سیچویشن دیکھنے کے لائق ہے ۔ یہ کلپ ایک ہی خاتون نے بنایا ، اسی نے تمام کردار نبھائے، مکالمے لکھے اور ایڈیٹنگ کرکے سوشل میڈیا پر ڈال دیا، خاتون کے گفتگو کرنے کا انداز اورپنچ لائنز اِس قدر شاندار ہیں کہ ہر جملے پر قہقہے لگانے کو دل کرتا ہے ۔اِس خاتون کا نام تمکنت ہے اور یہ حقیقی زندگی میں بھی ایک ڈاکٹر ہی ہیں ۔ اِن کی حسِ مزاح کے بارے میں مزید تبصرہ کرنے کی ضرورت نہیں ، آپ یوں سمجھیں کہ یہ چلتی پھرتی مزاح نگار ہیں اور ایسی بے باک گفتگو کرتی ہیں کہ مجھ ایسے بندے کے کان بھی سرخ ہوجاتے ہیں ۔

دوسرا تعارف:علی آفتاب سعید سے میری پہلی ملاقات اُس وقت ہوئی جب وہ جیو کے پروگرام چوراہا کے ہدایتکار تھے ، ٹی وی پر میری رونمائی بھی اسی پروگرام کے ذریعے ہوئی تھی ،علی آفتاب اُس وقت بھی ایک مختلف لڑکا اور آج بھی بالکل اپنے مزاج کا نوجوان ہے ، علی کی بنیادی وجہ شہرت گلوکاری ہے ، پہلے اُس کا گانا ’آلو انڈے ‘مشہور ہوا اور پھر ’یہ قوم بڑی جذباتی ہے ‘ نے مقبولیت حاصل کی۔علی کے گانے روایتی نوعیت کے نہیں ہوتےبلکہ اُن میں ایک خاص باغیانہ پن ہوتا ہے۔علی کو اِس باغیانہ پن کی قیمت چکانی پڑی ہے ، کوک اسٹوڈیو جیسی ملٹی نیشنل کمپنیاں علی آفتاب کواپنے پروگرام میں نہیں بلاتیں ،تاہم علی آفتاب پروا نہیں کرتا، اُس نے گلوکاری کے ساتھ ساتھ مزاح میں بھی ہاتھ ڈالا ہوا ہے اور طنز و مزاح پر مبنی وی لاگ بناتا ہے، اُس کا ایک وی لاگ تو ایسا ہے جو فیس بک پر پندرہ لاکھ سے زائد مرتبہ دیکھا جا چکا ہے۔ اب وہ باقاعدگی کیساتھ سوشل میڈیا پر حالاتِ حاضرہ پر طنزیہ تبصرے کرتا ہے ،اپنے یو ٹیوب چینل کیلئے مزاحیہ پروگرام کرتا ہے اور پچھلے کچھ عرصے میں بہت تیزی کے ساتھ نوجوانوں میں مقبول ہوا ہے۔

تیسرا تعارف: یہ نوجوان پیدا تو کراچی میں ہوا مگر پڑھائی لاہور میں کی، لمز سے قانون کی ڈگری حاصل کی اور کراچی واپس جا کر طنز و مزاح کے پروگرام کرنے شروع کردئیے، یہ نوجوان خود کو ’اسٹینڈ اپ کامیڈین‘ بلکہ بھانڈ کہنے میں بھی نہیں ہچکچاتا ، اخبارات میں طنزیہ کالم لکھتا ہے اور وہ بھی انگریزی میں ،اِن کالموں میں وہ اُن موضوعات پر نِشتر چلاتا ہے جن کے جواب میں یار لوگ تلوار نکال لیتے ہیں ۔اِس نوجوان کا نام شہزاد غیاث شیخ ہے۔ٹویٹر پر اکثر جب مجھے کسی شخص کی چہکاریں متواتر پسند آئیں تو میں اس کا تعاقب کرنا شروع کردیتا ہوں، شہزاد غیاث کو بھی میں نے اُس کی ٹویٹس کی وجہ سے ہی فالو کیا تھا ، اُس کی ٹویٹس ایسی ہوتی ہیں جیسے کوئی شخص چاقو سے گدگدی کررہا ہو۔ میں نے شہزاد غیاث کے مزاحیہ پروگرام دیکھے ہیں ، خدا کو جان دینی ہے مجھے ہنسانا مردے میں جان ڈالنے کے مترادف ہے، مگر شہزاد کے جملوں پر میں نےقہقہےلگائے ہیں۔ اُس کے جملے نہ صرف تخلیقی ہیں بلکہ اُن میں معاشرے کے دوغلے معیارات پر بھرپور طنز بھی ہے اور یہی بات اسے باقی کامیڈینز سے ممتاز کرتی ہے۔

اِن تین لوگوں کا تعارف کروانے کی ضرورت اِس لیے پیش آئی کہ اِن تینوں سے میری ملاقات گزشتہ ہفتےآئی بی اے کراچی کے سینٹر فار ایکسیلنس اِن جرنلزم میں ہوئی جہاں کی ڈائریکٹر عنبر شمسی نے ایک کانفرنس کا اہتمام کیاتھا ۔اِس کانفرنس میں عنبر نے نہ صرف پاکستان کے ممتاز صحافیوں اور کالم نگاروں کو مدعو کرکے اُن سے آزادی اظہار سےجڑی بندشوں اور پاکستان میں صحافت کے معیار پر رائے لی بلکہ سوشل میڈیا میں طنزو مزاح پر بھی ایک علیحدہ مجلس کا اہتمام کیا جس میں اِن تین نوجوانوں کے ساتھ یہ خاکسار بھی مدعو تھا۔ عنبر شمسی اِس کانفرنس کے انعقاد پر مبارکباد کی مستحق ہیں کہ انہوں نے حامد میر سمیت پاکستان کے کئی جید صحافیوں کو ایک چھت کے نیچے اکٹھا کرکے بٹھا دیا جن میں وہ لوگ بھی شامل تھے جو ٹی وی پروگراموں میں اکثر آپس میں جھگڑا کرتے نظر آتے ہیں ۔مزاح کے سیشن میں اِن تین نوجوانوں کے ساتھ ڈان کے کالم نگارشہزاد شرجیل بھی شامل تھے جنہوں نے کافی عالمانہ گفتگو کی۔علی آفتاب نے البتہ ’یہ قوم بڑی جذباتی ہے ‘ گا کر میلہ لوٹ لیا۔ شہزاد غیاث اور تمکنت سے یہ میری پہلی ملاقات تھی اور یہ میری دیانتدارانہ رائے ہے کہ اِن تینوں کو اکٹھے مل کر طنزومزاح کا کوئی باقاعدہ پروگرام کرنا چاہیے۔ ایسا نہیں ہے کہ پاکستان میں مزاح کے پروگراموں کی کمی ہے، یہ شاید واحد شعبہ ہے جس میں ہمارا ملک اِس قدر خود کفیل ہےکہ اگر مزاح کو ایکسپورٹ کرکے زرمبادلہ کمایا جا سکتا تو آج پنجاب پاکستان کی سیلیکون ویلی ہوتا۔سوشل میڈیا پر نا معلوم لوگ بھی حالات حاضرہ پر ایسی ایسی اعلیٰ جگت لگاتے ہیں کہ بندہ حیران رہ جاتا ہے کہ اِس قدر ٹیلنٹ کہاں چھپ کر بیٹھا ہے ۔

بھلا ہو سوشل میڈیا کا جہاں سے ہمارے اسٹینڈ اپ کامیڈینز اب اچھا خاصا کما رہے ہیں لیکن یہ کمائی اب بھی بھارتی کامیڈینز کے مقابلے میں بہت کم ہے ، کپل شرما اورامیت ٹنڈن نیٹ فلکس کیلئے پروگرام کر رہے ہیں جبکہ ہمارے اداکار صرف اسٹیج یا ہفتہ وار ٹی وی پروگرام تک محدود ہیں ۔اِس مسئلے کا ایک حل یہ ہے کہ کوک اسٹوڈیو کی طرز پر کوئی کمپنی اسٹینڈ اپ کامیڈی کاپروگرام شروع کرے جس میں نہ صرف پڑھے لکھے نوجوانوں کو سامنے لایا جائے جو اردو اور انگریزی ملا کر مقامی اور بین الاقوامی ناظرین کیلئےنیٹ فلکس کے معیار کاشو بنا کرپیش کریں بلکہ اسٹیج کے ان پڑھ مگر بے پناہ ٹیلنٹڈ اداکاروں کو بھی موقع دیا جائے ۔پاکستانی مزاح کو ایکسپورٹ کرنے کا یہی ایک طریقہ ہے ، اِس میں کمپنی کا سودا بھی بِک جائے گا اور گلشن کا کاروبار بھی چلتا رہے گا۔