صاحبِ طرزِ ادیب ’شاہد احمد دہلوی‘

June 29, 2022

محمد ذکی دہلوی

شاہداحمد دہلوی، ڈپٹی نذیر احمد کے پوتے اور بشیرالدین احمد کے صاحبزادے تھے۔ ان تینوں کو قدرت نے علم کی دولت سے نوازا تھا اسے قدرت خداوندی کا ایک نمونہ ہی کہا جائے گا کہ تین پشتوں تک یہ میراث چلی ورنہ عموماً ایک، دو پشت کے بعد ہی ختم ہوجاتی ہے۔

شاہد احمد 22؍مئی 1906ء کو دہلی میں پیدا ہوئے چونکہ گھر کا ماحول علمی تھا، انٹرمیڈیٹ کرنے کے بعد میڈیکل کالج لاہور میں داخلہ لیا مگر طبیعت کو اس کام سے مناسبت نہیں تھی لہٰذا 1925ء میں میڈیکل چھوڑ کر بی۔اے آنرز کیا۔ ادبی ذوق نے مضمون نگاری کی جانب مائل کیا اور 1930ء میں جب عمر 24؍سال تھی، ’’ساقی‘‘ جیسا بلند معیار ادبی پرچہ نکالا اور نہ صرف یہ بلکہ اس کے معیار کو کبھی گرنے نہیں دیا بلکہ اس کے ذریعے بہت سے لوگ ادیب بن گئے۔

شاہد صاحب نے صحافت کے ساتھ ساتھ موسیقی کی جانب بھی توجہ کی اور بطور فن اس میں اتنی مہارت بہم پہنچائی کہ یہی چیز پاکستان میں ان کا ذریعہ معاش بھی بنی اور عزت و شہرت کا ذریعہ بھی! ایک جگہ انہوں نے خود لکھا ہے کہ ’’دہلی میں جب میں اس فن کو نہایت لگن سے سیکھ رہا تھا، اس وقت کبھی کبھی میرے دل میں یہ خیال آتا تھا کہ خاندان میں کوئی ایک بھی تو گویا نہیں ہوا تو پھر میرے پیچھے یہ روگ کیسے لگ گیا؟ دہلی میں رہتے ہوئے تو یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ پاکستان آکر جب اس کی وجہ سے ریڈیو میں ایک اچھی ملازمت مل گئی تو احساس ہوا کہ قدرت مجھے یہاں کیلئے تیار کررہی تھی۔‘‘

شاہداحمد دہلوی کی پہلی شادی تو ان کی طالب علمی کے زمانے ہی میں ہوگئی تھی مگر جب ان کی بیوی کا انتقال ہوگیا تو دوسری شادی 1938ء میں کی۔پاکستان کے قیام کے کچھ ہی عرصے بعد دہلی سے ہجرت کرکے لاہور آگئے تھے۔ وہاں سے مئی 1948ء میں کراچی آکر اسی سال ستمبر میں یہاں سے ’’ساقی‘‘ کا دوبارہ اجرءا کیا لیکن وہ بات پیدا نہ ہوسکی جو دہلی میں تھی مجبوراً ریڈیو پاکستان میں ملازمت کی۔ جنوری 1959ء کو ’’رائٹرز گلڈ‘‘ کی بنیاد رکھی۔ اسی سال اپریل میں یونیسکو کی طرف سے تھائی لینڈ اور فلپائن کا ثقافتی دورہ کیا۔ 1963ء میں ادبی خدمات کے صلے میں صدارتی انعام ملا۔ 27؍مئی 1967ء کو خالق حقیقی سے جا ملے۔

شاہداحمد دہلوی صحافت کے علاوہ تصنیف و تالیف اور تراجم کے میدان میں بھی بہت کام کیا۔ تصانیف کی تعداد تو کم ہے، تراجم بہت ہیں لیکن ان کے طرزنگارش نے تراجم کو بھی تصانیف کا درجہ دے دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ شاہد صاحب ایک بڑے اچھے صاحب طرز ادیب تھے۔ دلی کے واقعات کو جن سے انہیں پوری واقفیت تھی، دلی کی ٹکسالی زبان میں لکھ کر انہوں نے نہایت بلند مقام حاصل کرلیا ان کے طرز تحریر میں زبان کے چٹخارے کے ساتھ ساتھ بڑی دلکشی اور جاذبیت ہے۔

دلی کے مخصوص محاورے بڑی بے تکلفی سے استعمال کیے، اس کے ساتھ ساتھ مزاج اور شوخی کا رنگ چڑھتا جاتا اور ادبی چاشنی پیدا ہوتی جاتی ہے۔ ان سب کے امتزاج سے شاہد صاحب کا ایک ایسا لطیف اور دلکش طرز تحریر بن گیا ، جس میں کوئی ان کا مدمقابل نہیں ہے۔ ذیل میں مزاح اور ظرافت خوش طبعی اورزندہ دلی کے اظہار کے چند نمونے ملاحظہ کریں۔

نام زنگی کافور…

شاہد صاحب کی جوش ملیح آبادی سے ملاقات حیدرآباد میں ہوئی تھی۔ جوش شراب پی رہے تھے، محفل جمی ہوئی تھی، دور چل رہا تھا۔ جوش نے شاہد صاحب سے کہا۔ آپ بھی پیجئے۔ شاہد صاحب نے انکار کیا اور ان کا اصرار بڑھا۔ جب ادھر سے اصرار اور ادھر سے انکار بڑھا تو جوش نے اپنے مخصوص انداز میں کہا؎

’’ساقی‘‘ کے ’’مدیر‘‘ اور نہیں ہیں مخمور

برعکس نہنسد نام زنگی کافور

٭…٭…٭

سوتیلی بیوی…

’’ساقی‘‘ جب کراچی سے نکالا تو ’’ساقی‘‘ کے پرانے منشی بھی یہیں کام کرنے لگے۔ شاہد صاحب ان سے باتیں کرتے، مزے لیتے، کام کرتے جاتے، فقرے کستے جاتے۔ ایک دن شاہد صاحب، منشی جی اور ڈاکٹر جمیل جالبی ایک ہوٹل میں چائے پی رہے تھے، منشی جی اپنی بیوی سے بیزاری کا اظہار کررہے تھے۔ بڈھے آدمی ہیں لیکن اس کے برے سلوک کے ایسے شاکی کہ ان کی باتیں سن کر حیرت ہوتی تھی۔ شاہد صاحب بہت دیر تو سنتے رہے پھر ایک دم بولے۔ ’’کیوں بھئی! تمہاری ’’سوتیلی بیوی‘‘ ہیں؟‘‘ اور پھر ہنسنے لگے۔

٭…٭…٭

قرب قیامت ہے…

شاہد صاحب جب کراچی آئے تو مارٹن روڈ پر سرکاری کوارٹر میں قیام رہا۔ یہ کوارٹر سب کے سب ہم شکل اور یکساں تھے۔ ایک دن شام کو گھر لوٹ رہے تھے، غلطی سے کسی اور مکان گھس گئے۔ بلاتکلف اندر کمرے میں آگئے، شیروانی اتاری اور کھونٹی پر لٹکانے کیلئے ہاتھ بڑھایا، کھونٹی وہاں نہ تھی۔ کسی کو آواز دی۔ ایک عورت کمرے میں آئی۔ غیر مردوئے کو دیکھ کر اس کی چینخ نکل گئی۔ جلدی سے شیروانی لئے اور دونوں ہاتھوں سے دستار تھامے باہر نکلے۔ اندر سے عورتیں چیخنے چلانے لگیں۔ انہوں نے معذرت چاہی اور کہنے لگے۔ جمیل صاحب!(ڈاکٹر جمیل جالبی) قرب قیامت ے، ہر چیز ہم شکل ہونے لگی اور پھر زور سے ہنسنے لگے۔

٭…٭…٭

زیتون کا تیل نہیں پھیرتے؟…

شاہد صاحب ایک دن سرکاری افسروں کا ذکر کررہے تھے۔ کہنے لگے۔ ’’یہ سالے ہر وقت ہر جگہ افسر ہی رہتے ہیں، انسان کبھی نہیں ہوتے۔ ایسے ایسے لائق افسر پڑے ہیں کہ جو جس کام پر لگایا گیا ہے، بس وہی کام اسے نہیں آتا۔‘‘ ایک محکمے کے ایک بڑے افسر کا ذکر کرنے لگے۔ وہ طباعت کے نگراں، ایک صاحب ان کے پاس گئے۔ ان کے گہرے دوستوں میں سے تھے۔ بڑے مسخرے اور ہنس مکھ! ان سے کہنے لگے۔ ’’صاحب! آپ کی سرکاری طباعت میں لفظوں میں ذرا بھی چمک نہیں ہوتی شاید آپ کتابت کے بعد سطر پر زیتون کا تیل نہیں پھرواتے؟‘‘ یہ بات نہایت سنجیدگی سے کہی گئی تھی۔ انہوں نے فرمایا۔

’’نہیں تو!‘‘ ’’یہی وجہ ہے کہ الفاظ چکنے نہیں ہوتے۔‘‘ ’’یہ تو کاتب کا کام ہے کہ وہ کتابت کے بعد مسطر پر تیل کا پچارا پھیر دے۔‘‘ وہ غصے میں بھر گئے۔ فوراً انچارج کاتب کو بلایا، ڈانٹا اور کہا۔ ’’عجیب بات ہے کہ آپ اپنے تجربے کا اتنا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں لیکن زیتون کا تیل تک مسطر پر کتابت کے بعد نہیں پھیرتے۔‘‘ کانب صاحب سناٹے میں آگئے۔ کہنے لگے۔ ’’صاحب…!‘‘ ’’صاحب واب کچھ نہیں، آئندہ سے خیال رہے۔‘‘ کاتب صاحب چلے گئے۔ وہ صاحب ہنسنے لگے۔ ’’یار!میں تو مذاق کررہا تھا۔‘‘

٭…٭…٭

میں اپنی سند واپس کردوں گا…

ہنسی مذاق شاہد صاحب کی فطرت میں شامل تھا۔ میاں، بیوی میں بڑے خوشگوار تعلقات تھے۔ سب کی موجودگی میں بیگم کا مذاق اڑاتے اور اس کی ہمت شکنی کرتے رہتے۔ پانچ بچوں کی ماں، کوئی بیس سال بعد انہیں شوق ہوا کہ وہ بی۔اے کا امتحان دیں۔ تیاری شروع کردی۔ امتحان قریب تھا۔

ڈاکٹر جمیل جالبی پہنچ گئے۔ وہ ان سے انگریزی شاعروں کے متعلق کچھ پوچھنے لگیں۔ شاہد صاحب بولے۔ ’’جمیل صاحب! اگر یہ پاس ہوگئیں اور انہیں بی۔اے کی سند مل گئی تو میں اپنی سند واپس کردوں گا۔‘