زندگی دہلیز پر ہی سر رکھ کے مر گئی

August 11, 2022

75سالوں میں انسان جسمانی طور پر کمزور ہو جاتا ہے۔ مگر پچھتر سالوں میں قومیں زیادہ جوان زیادہ طاقتور، زیادہ متحرک ، زیادہ باشعور اور زیادہ کامیاب ہو جاتی ہیں۔ مگر شرط ہے ا یک اچھی صحت اور تعلیم۔ ہم جانتے ہیں کہ تندرستی ہزار نعمت ہے۔ جس طرح روٹی کپڑا اور مکان انسان کی بنیادی ضروریات ہیں اسی طرح تعلیم اور صحت انسان کا بنیادی حق ہے۔ یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ انسانوں کو تعلیم حاصل کرنے کا حق ملے اور ان کی صحت کا خیال رکھا جائے۔ کیونکہ ریاست ماں ہوتی ہے۔

اچھی صحت ہر معاشرے کی پہلی ترجیح ہوتی ہے۔ جس طرح تعلیم یافتہ مائیں اچھی قوم کی ضمانت ہوتی ہیں۔ اسی طرح صحت مند افراد کامیاب قوم کی ضمانت ہوتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ صحت مند اور طاقتور اقوام نے ہی دنیا میں حکمرانی کی ہے۔ ہم اس وقت تک ترقی یافتہ نہیں ہو سکتے جب تک ہم ذہنی جسمانی روحانی اور سماجی طور پر صحت مند نہ ہوں۔صحت دنیا کی سب سے بڑی نعمت ہے جس کی حفاظت ہم سب پر فرض ہے۔

آج وطن عزیز کو وجود میں آئے پچھتر سال ہو رہے ہیں ہمارا المیہ یہ ہے کہ ملک میں غربت، جہالت اور بیماری کا ایک طاقتور مثلث قائم ہے اور اس مثلث کا ہر زاویہ اتنا مضبوط ہے کہ ہم کسی ایک سائیڈ کو بھی کمزور نہیں کر سکے۔ آج بھی غربت، جہالت اور بیماری کی وجہ سے ہم مایوسی کے اندھیرے میں بے سمت زندگی گزار نے پر مجبور ہیں۔کیونکہ بیماریوں سے بچائو کیلئے جس شعوری تربیت کی ضرورت ہوتی ہے ہم اس سے ناآشنا ہیں۔

اسی لئے معلوما ت کی کمی اور آگہی نہ ہونے کی وجہ سے ہم علاج معالجہ کے جدید طریقوں سے استفادہ نہیں کر سکے۔ ایٹمی طاقت رکھنے والے اس مملکت ِ خداداد میں آج بھی ہم پولیو کو مکمل شکست نہیں دے سکے۔ ملیریا اور ڈینگی ہمیں ستانے کو ہر وقت تیار ہیں۔ نوزائیدہ بچوں کی اموات کو ہم کم نہیں کر سکے۔ بچوں کوجنم دینے والی مائیں اپنے بچوں کو اپنی آغوش میں لینے سے پہلے ہی موت کی آغوش میںچلی جاتی ہیں ناصاف آلودہ پانی کی وجہ سے ٹائیفائیڈ اور یرقان ہم پر حملہ آور ہو رہے ہیں۔

پاک وطن کے پچھتر سالوں پر صحت کے حوالے سے نظر ڈالیں تو آزادی کے وقت پاکستان کو صحت کی دیکھ بھال اور فراہمی کا جو نظام وراثت میں ملا وہ برطانوی عہدکا تھا۔ یہ نظام صحت عامہ کی خدمات اور کچھ علاج معالجہ کی شکل میں تھا۔ پاکستان میں صحت کی پالیسیاں بنانے اور منصوبہ بندی کا معاملہ وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے اور صوبوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان پالیسیوں کے نفاذ کو یقینی بنائیں۔ 18ویں ترمیم کے بعد صوبے پابند ہیں کہ وہ صحت کے شعبے میں کام کریں۔

آئین ِ پاکستان کے مطابق سوائے وفاقی حکومت کے زیرانتظام علاقوں کے صحت کی دیکھ بھال بنیادی طور پر صوبوں کی ذمہ داری ہے۔کورونا ایڈز پولیو اور کچھ دیگر توسیعی پروگراموں کے نفاذ کی اور حفاظتی ٹیکوں کے توسیعی پروگرام کی ذمہ داری بڑی حد تک وفاق کی ہے ملک میں صحت کی دیکھ بھال کا شعبہ نجی اور سرکاری شعبے پر مشتمل ہے اور نظام صحت کی حالت یہ ہے کہ نجی شعبہ آبادی کے تقریباً 70فیصد کی خدمت کرتا ہے۔

پاکستان کے ارباب ِ اختیار کی پہلی ترجیح کبھی بھی صحت نہیں رہی۔ آزادی کے وقت جو بھی حالات تھے ملکی وسائل بھی کم تھے مگر 75سال گزرنے کے باوجود آج بھی ’’پھنبا کجاکجا نہ ہم‘‘ والا معاملہ ہے۔ لوگوں کی تکالیف پر نظر ڈالیں تو آنکھیں دھندلاجاتی ہیں حلق نمکین ہو جاتا ہے۔

صحت کے حوالے سے اعدادو شمار انتہائی تکلیف دہ اورخوفناک ہیں۔ ملاحظہ کریں ایک نظر میں۔

٭٭٭

جولائی 2022ء میں کل ملکی آبادی 22کروڑ 96لاکھ 65ہزار ہے۔ ہم دنیا کی پانچویں بڑی آبادی والا ملک ہیں جس میں سالانہ 52 لاکھ افراد کا اضافہ ہو رہا ہے۔ ہمارے یہاں 2521بچے روزانہ پیدا ہو رہے ہیں۔ آبادی کا بم ایٹم بم سے زیادہ خطرناک ہے۔ اگر ہم پیچھے مڑ کر اپنی قومی زندگی کے پچھتر سالوں پر نظرڈالیں تو دُکھ تکلیف اور مایوسی کا شکار ہونے لگتے ہیں۔ ہمیں تسلیم کرنا ہوگا کہ ان تمام سالوں میں تعلیم اور صحت ہماری اولین ترجیحات میں سامل ہی نہیں تھیں۔ ہر سالانہ بجٹ میں ایک قلیل رقم صحت کے نام پر مختص کردی جاتی ہے۔

اقوام متحدہ کے مطابق جی ڈی پی کا 5 فیصد صحت پر خرچ ہونا چاہئے۔ 1947ء سے 1958ء تک ملک میں کوئی مستحکم سیاسی حکومت ہی قائم نہ ہو سکی۔1958ء میں سیاسی دور کا خاتمہ ہوا ملک میں مارشل لاء نافذ کردیا گیا۔ 1960ء میں ملک میں پہلے فوجی ڈکٹیٹر ایوب خان نے ایک ارب 59کروڑ 96لاکھ روپے کا بجٹ پیش کیا اور اس میں صحت کیلئے صرف 7کر وڑ روپے رکھے گئے۔ 1964-65میں بجٹ کی کل مالیت 2؍ارب 97کروڑ 37لاکھ روپے تھی۔ جس میں صحت کیلئے 15کروڑ 30لاکھ روپے رکھے گئے۔

ایوب خان کے دور کا آخری بجٹ 1968ء میں پیش کیاگیا جو 16؍ارب 20 کروڑ 90لاکھ روپے مالیت کا تھا۔ اس میں صحت کے لئے صر ف15کروڑ 90لاکھ روپے رکھے گئے۔ غور کریں تو 1960-61سے 1968-69تک سالانہ بجٹ میں 5گنا اضافہ ہوا مگر صحت کیلئے اضافہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ یحییٰ خان کے زمانے میں 1969ء میں جو بجٹ پیش ہوا اس کی مالیت 17؍ارب 53کروڑ 37لاکھ روپے تھی صحت کیلئے 19کروڑ 60لاکھ روپے مختص کئے گئے۔

یحییٰ خان ہی نے 1971-72میں 18؍ارب 77کروڑ 93لاکھ کا بجٹ پیش کیا جو متحدہ پاکستان کا بھی آخری بجٹ تھا اس میں بھی صحت کی مد میں 19کروڑ 90لاکھ روپے مختص کئے گئے۔ اس تمام عرصے میں علاج معالجے کی سہولیات میں کوئی خاطر خواہ اضافہ نہ ہو سکا۔ پینے کا صاف پانی بھی آبادی کے 20فیصد حصے کو ہی دستیاب تھا اس کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کا دور تھا بھٹو نے اپنے پہلے بجٹ 1973-74ء میں 38کروڑ 60لاکھ روپے صحت کی مد میں رکھے اور 1977ء جو بھٹو کا آخری بجٹ تھا اس میں یہ رقم ایک ارب 7کر وڑ 10لاکھ روپے تھی جو صحت کیلئے مختص کی گئی۔

1988-90ء میں بے نظیر کے دور حکومت میں صحت کیلئے 7؍ارب 32کروڑ 10لاکھ رقم رکھی گئی۔ اس کے بعد 1990-93ء میں نواز شریف کے دور میں 9؍ارب 60کروڑ پچاس لاکھ صحت کیلئے رکھے گئے پھر 1993-96دوبارہ بے نظیر کے دور میں 18؍ارب 34کروڑ 30لاکھ روپے صحت کے لئے مختص ہوئے پھر نواز شریف کے دوسرے دور میں 1997-99ء میں یہ رقم 20ارب 80کروڑ 80لاکھ تھی۔ آگے 2000-2007ء مشرف کے دور میں 53ارب 16کروڑ ساٹھ لاکھ روپے صحت کی مد میں رکھے گئے۔

اگلا دور یوسف رضا گیلانی کا تھا 2011-2012میں 34؍ارب 18کروڑ 20لاکھ روپے صحت کیلئے رکھے گئے۔ اس کے بعد نواز شریف کے تیسرے دور میں 2013-2018 میں یہ رقم 416ارب 46کروڑ 70لاکھ تھی۔ اس کے بعد 2018-2020میں عمران خان کے دور حکومت میں صحت کیلئے 482ارب 26کروڑ 50لاکھ روپے رکھے گئے۔ جی ڈی پی کا صحت کیلئے 1949ء میں 0.05تھا اور 2020میں 1.16%تھا۔ ان تمام سالوں میں صرف1987میں یہ سب سے زیادہ 1.25%تھا۔ یہ تمام اعدادوشمار اس بات کا ثبوت ہیں کہ چاہے عوامی حکومت ہو یا فوجی حکومت قومی صحت ہماری ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق جی ڈی پی کا 5%صحت پرخرچ ہونا چاہئے۔

قیام ِ پاکستان کے وقت ملک میں صرف دو میڈیکل کالج تھے۔ کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور اور ڈائو میڈیکل کالج کراچی جبکہ اس وقت ملک میں کل 117میڈیکل کالجز ہیں جن میں 45سرکاری اور 72پرائیویٹ کالج ہیں۔ ملک میں 17پبلک ڈینٹل کالجز اور 24پرائیویٹ ڈینٹل کالج ہیں۔ ان میں ہر سال قریباً 9000ڈاکٹرز اور 2000 ڈینٹسٹ فارغ التحصیل ہوتے ہیں۔ ملک میں ہر دس ہزار 10,000کی آبادی کیلئے 8 ڈاکٹرز ہیں جبکہ WHOکے مطابق ترقی پذیر ملکوں میں 1000لوگوں کیلئے کم از کم ایک ڈاکٹر ہونا چاہئے۔ ملک میں 42000لوگوں کیلئے ایک ڈینٹل سرجن موجود ہے۔ ملک میں قریباً 1300افراد کیلئے ایک ڈاکٹر ہے اور ایک ڈاکٹر کے ساتھ 2.7نرسیں ہیں۔

جبکہ عالمی ادارہ صحت کے مطابق 1000 افراد کیلئے ایک ڈاکٹر اور چار نرسیں ہونا چاہیں پاکستان میں 2020 میں رجسٹرڈ ڈاکٹر کی تعداد 245987 ہے اور 27360 دانتوں کے ڈاکٹرز ہیں اسی طرح 116659رجسٹرڈ نرسیں ہیں۔ ملک میں مڈ وائف کی تعداد 43129ہے اور لیڈی ہیلتھ وزیٹرز کی تعداد 21360 ہے۔ انفرااسٹرکچر پر نظرڈالیں تو آج پاکستان میں 924پبلک اسپتال ہیں 4916ڈسپنسریز ہیں اور 5336بیسک ہیلتھ یونٹ BHUہیں 595رورل ہیلتھ سینٹرز ہیں اور 1080فرسٹ ایڈ یونٹ ہیں۔

اس وقت 1515افراد کیلئے ایک بیڈ کی سہولت ہے اور 20 مریضوں کے لئے ایک نرس ہے جبکہ نرسنگ کونسل کے مطابق 10مریضوں کے لئے ایک نرس ہونا چاہئے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق ہمارے جیسے ترقی پذیر ملک کو صحت کے شعبے میں ہر شہری کیلئے کم از کم 86ڈالرز سالانہ خرچ کرنا چاہئے۔ لیکن ہم اس شرح سے کسی درجہ کم صرف 36ڈالر خرچ کرتے ہیں۔ موجود ہ اعداد و شمار کے مطابق ہم اپنی قومی پیدا وار کا ایک فی صد سے بھی کم یعنی 0.97 فی صد صحت کے شعبے پر خرچ کرتے ہیں۔

سرکاری اسپتالوں میں ہر سال کروڑوں روپے کی ادویات خریدی جاتی ہیں لیکن اکثر مریضوں کے بجائے یہ دوائیں انتظامیہ کی ملی بھگت کی وجہ سے میڈیکل اسٹورز پر فروخت ہوتی دکھائی دیتی ہیں۔ کئی اسپتالوں میں مریض کو دوائیوں کے علاوہ سرنجز، پٹیاں، ڈیٹول حتیٰ کہ دستانے تک خرید کر لانے پڑتے ہیں۔ حالانکہ کہ یہ سب کچھ اسپتال کے بجٹ میں مہیا کئے جاتے ہیں جو مریضوں کو ملنا چاہئیں۔

ملک میں کوالیفائیڈ نرسز، دائیوں، دانتوں کے ڈاکٹرز اور فارماسسٹس کی کمی ہے پاکستان میں نظا م صحت تین حصوں میں کام کرتا ہے۔ پہلا حصہ پرائمری یعنی بنیادی ہیلتھ کیئر ہے جس میں کمیونٹی کی سطح پرصحت کے مراکز قائم کئے جاتے ہیں جیسے کے حاملہ خواتین کے لئے لیڈی ہیلتھ ورکرز کا نظام، دوسری یا سیکنڈ ری سطح پرڈسٹرکٹ اور تحصیل کی سطح کے اسپتال آتے ہیں جبکہ تیسری سطح پر صحت کے نظام میں شہروں میں واقع بڑے اسپتال آتے ہیں جہاں آپریشن اور زیادہ بیمار افراد کا علاج کیا جاتا ہے۔

کمیونٹی ہیلتھ ورکرز سے شروع ہونے والا نظام اسپیشلسٹ کی سطح پر ختم ہوتا ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ لیڈی ہیلتھ ورکرز کی تعداد بہت کم ہے۔ یہ نظام 1993ء میں وضع کیاگیا تھا اور ملک بھر میں صحت کے مراکز قائم کئے گئے تھے۔ دو ہزار خواتین کی LHVکی حیثیت سے بھرتی ہونے والے پروگرام میں اس وقت LHVکی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ ہے ملک بھر میں حاملہ خواتین اور نومولود بچوں کیلئے صرف 756بنیادی صحت کے مراکز ہیں جبکہ مریضوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔

پاکستان میں اس وقت 30فصد سے بھی کم آبادی کو پرائمری ہیلتھ کیئر کی سہولیات تک رسائی حاصل ہے جبکہ اوسط ہر فرد ایک سال میں ایک بار سے بھی کم ہیلتھ سینٹر جاتا ہے۔ اس عدم دلچسپی کی وجہ ڈاکٹرز اور دیکھ بھال کرنے والے پیشہ ور افراد خصوصاً خواتین کی کمی، غیر حاضری سہولیات کا فقدان، ادویات کی عدم دستیابی اور اسٹاف کا نامناسب رویہ بھی ہے۔ جبکہ دوسری جانب پاک فوج، واپڈا، پاکستان ریلوے، اٹامک انرجی اور بہت سے دیگر ادارے اپنے ملازمین کو صحت کی بہترین سہولیات فراہم کررہے ہیں۔

گزرے سالوں میں شہری سرکاری اسپتالوں میں طبعی سہولیات، جدید مشینری اورآلات اور لیبارٹری میں ہونے والے ٹیسٹوں میں بہت بہتری آئی ہے۔ جن میں ایکسرے، الٹراسائونڈ سی ٹی اسکین اور ایڈوانس سرجریز وغیرہ شامل ہیں۔ کئی اسپتالوں میں روبوٹک سرجری کا آغاز بھی ہوا ہے۔ لیکن دیہی علاقوں میں حالات خاصے خراب ہیں جہاں نہ بجلی، نہ پانی اور نا ہی سڑکیں ہیںاور نا ہی علاج کی مناسب سہولیات دور دراز علاقوں میں ڈاکٹر خصوصاً لیڈی ڈاکٹرز موجود ہی نہیں ہوتے۔ مریض نرسوں، دائیوں یاکمپائونڈر کے حوالے ہوتے ہیں۔

صفائی اور ستھرائی کا نظام بھی انتہائی ناقص ہوتا ہے۔ اکثر علاقوں میں نرسوں اور دائیوں نے اپنے میٹرنٹی ہوم کھول رکھے ہیں اور اَتائی ڈاکٹرز تو چھوٹے موٹے آپریشن بھی کر ڈالتے ہیں۔ شہروں میں عام پرائیویٹ اسپتالوں میں زیادہ تر سہولیات موجود نہیں اور ایمرجنسی کی صورت میں مریض کو سنبھالنا مشکل ہو جاتا ہے۔ مگر اچھے پرائیویٹ اسپتالوں میں تمام سہولیات تو ہیں مگر ایک عام انسان اس کے اخراجات برداشت ہی نہیں کر سکتا۔ کیونکہ ایسے اسپتالو ں میں کمرے کاکرایہ ہی 15سے20 ہزار روپے یومیہ ہوتا ہے۔ نارمل ڈیلیوری 60سے70ہزار میں اور اگر آپریشن سے ڈیلیوری ہو تو ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ خرچہ آتا ہے۔

یہاں ضرورت اور بلاضرورت لیبارٹری ٹیسٹ بھی کروائے جاتے ہیں۔ سب کچھ برا نہیں ہے۔ کتنی بڑی بات ہے کہ ان حالات میں کئی ایسے ادارے بھی کام کر رہے ہیں جہاں مریض سے علاج کی کوئی فیس نہیں لی جاتی سرجن ادیب رضوی جو زمین پر ایک فرشتہ ہیں ان کے ادارے SIUT میں منتقلی اعضاء سمیت ہر طرح کا گردوں کا علاج مفت کیا جاتا ہے۔ اسی طرح کراچی کا انڈس اسپتال ہے جہاں ہر قسم کا جدید علاج بالکل فری ہے۔LRBT آنکھوں کا اسپتال جو سالوں سے غریب مریضوں کی آنکھوں کو روشنی عطا کر رہا ہے جو بالکل فری ہے۔ سندھ گمبٹ میں GMSاسپتال بہترین علاج کررہا ہے۔ کراچی میں جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر میں سائرنائف کے ذریعے کیسزکا مفت علاج جو معیار میں کسی بھی پرائیویٹ اسپتال سے بڑھ کر ہے۔

پنجاب میں PKL I پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹی ٹیوٹ جہاں گردے اور جگر کا جدید علاج ہو رہا ہے۔ اسی طرح ملک میں کئی ادارے اپنے تئیں لوگوں کی مدد کر رہے ہیں۔ ایدھی اور چھیپا جیسے ادارے ہر وقت مستعدی کے ساتھ لوگوں کی مدد کر رہے ہیں۔ نوازشریف کے دورحکومت میں صحت کارڈ کا اجرا ہوا جس کے لئے 9؍ارب روپے مختص کئے گئے یہ ان لوگوں کیلئے تھا جن کی یومیہ آمدنی 200روپے تک ہو۔ ان کے لئے روڈ ایکسیڈنٹ، زچگی سمیت 50ہزار روپے جبکہ باقی پاس گردوں کے آپریشن اور انجیوپلاسٹی سمیت بڑی بیماریوں کیلئے ہرخاندان 3لاکھ روپے تک کے علاج سے استفادہ کر سکتا تھا۔ اس کے بعد عمران خان کی حکومت میں صحت انصاف کارڈ کا اجراء کیاگیا۔ جس کے لئے 440ارپ روپے محض کئے گئے۔ اس کارڈ سے مریض سرکاری کے علاوہ پرائیویٹ اسپتالوں میں علاج معالجہ کی سہولت حاصل کر سکتے ہیں۔

2019ء میں جب پوری دنیا کورونا کی وبا کی زد میں تھی۔ پاکستان ان چند ممالک میں شامل رہا جہاں کورونا پر نسبتاً جلد قابو پا لیا گیا۔ لاک ڈائون کے ساتھ ساتھ لوگوں میں آگئی اور شعور پیدا کیا گیا۔ 23کروڑ میں تقریباً 6000 اموات ہوئیں جبکہ برطانیہ میں 6کروڑ میں 41000 اموات ہوئیں۔ لوگوں کو وقت ویکسین لگائی گئی جو لوگوں نے چاہتے ہوئے اور نہ چاہتے ہوئے لگوائی۔ انہیں سائنو فارم، سائنوویک، اسٹرازینیکا اور ملک سے باہر جانے والوں کو موڈرنا لگائی گئی۔ بلکہ ایک دن میں 14لاکھ 5ہزار 352افراد کو ویکسین لگا کر ریکارڈ بھی بنا ڈالا۔

بہتر حکمت عملی اور عوام کے تعاون سے جانی نقصان دوسرے ممالک کی نسبت کم رہا۔ اگر ہم گزشتہ پچھتر سالوں میں عوامی صحت کی بات کریں تو کھانے پینے کی اشیاء میں ملاوٹ کا تناسب کئی گنا بڑھ گیا ہے۔ کیمیکلز ملا دودھ، رنگ اور انجکشن لگے پھل گندے پانی میں اُگائی گئی سبزیاں، پریشر والا گوشت، ہارمونز پر پلی مرغیاں، ملاوٹ والے مصالحے، جانوروں کی آلائشوں سے تیار کیا ہوا آئل اور آلودہ پانی اور فضائی آلودگی نے مل جل کر انسانوں کی صحت کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔

آزادی کے شروع کے سالوں میں شاید کوئی ملاوٹ کرتا ہو مگر اب ملاوٹ کے بغیر کچھ بھی میسر نہیں۔ صفائی ستھرائی کا معیار اب شہروں میں بھی خراب ہو چکا ہے۔ جس میں ملک کے بڑے شہر کراچی اور لاہور بھی شامل ہیں تو تصو ر کر لیجئے کہ دیہی علاقوں کا کیا حال ہوگا۔ کراچی اور لاہور قیام پاکستان کے وقت صاف اور خوبصورت شہر ہواکرتے تھے۔

آئین پاکستان کے آرٹیکل 9کے تحت حفظان ِ صحت کی خدمات تک رسائی ایک بنیادی حق ہے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی 28جولائی 2010ء کو قرارداد 64/292 کے ذریعے پانی اور حفظان ِ صحت سے متعلق انسانی حقوق کو واضح طور پر تسلیم کیا اور اعتراف کیاکہ پینے کا صاف پانی اور حفظان ِ صحت کی فراہمی تمام انسانی حقوق کیلئے لازم ہیں۔ حفظان ِ صحت بیماریوں سے بچاؤ اور تندرست زندگی کیلئے بہت ضروری ہے۔ اور ان تک رسائی انسان کاحق ہے۔

صفائی نصف ایمان ہے، پر عمل کرکے یعنی احتیاط اور حفظان ِ صحت کے اصول اپناکر اور صاف پانی استعمال کرکے ہم بہت سی بیماریوں سے بچ سکتے ہیں جن میں ٹائیفائیڈ، ہیضہ، ڈائیریا اور ہیپاٹائٹس شامل ہیں۔ اس وقت سندھ خصوصاً کراچی اور حیدر آباد میں دوائوں کو مات دینے وال اٹائیفائیڈ پھیل چکا ہے۔

اچھی بات یہ ہے کہ پاکستان سائوتھ ایشیا کا واحد ملک ہے۔ جہاں بچوں کیلئے سب سے زیادہ بیماریوں سے بچائو کی ویکسینز فری ہیں۔ جو پیدائش سے لیکر 5سال کبی عمر تک کے بچوں کو دی جاتی ہیں۔ ان میں ٹی بی، پولیو، خناق، تشنج، کالی کھانسی، خسرہ، ہیپاٹائٹس، گردن توڑ بخار اور نمونیہ جیسی بیماریوں سے بچائو کے ٹیکے شامل ہیں۔ حکومتی سطح پر بہترین کوششوں کے باوجود ہم بہت سی بیماریوں کومکمل شکست نہیں دے سکے جس کی وجوہات میں کچھ لوگوں کا ویکسین کے خلاف مزاحمتی رویہ بھی شامل ہے۔ بلکہ یہ واحد ملک ہے جہاں پولیو ورکرز کو فائرنگ کرکے ہلاک کردیا گیا۔ یعنی جولوگ زندگی تقسیم کرنے نکلے ہم نے انہیں جواب میں موت دے دی۔

ملک میں بچوں کی صحت پر نظر ڈالیں تو دُکھ روح میں اترنے لگتا ہے اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق پاکستان نومولود بچوں کی اموات کے لحاظ سے خطرناک ملک ہے۔2020ء کے مطابق پاکستان میں ایک ہزار میں 404 بچے پیدائش کے وقت ہی مائوں کی گودیں ویران کرکے فوت ہو جاتے ہیں جبکہ 1971ء میں یہ تناسب 1000بچوں میں 74.5تھا۔ جس کی بڑی وجہ پیدائش کے وقت غیر محفوظ طریقہ کار اور اہل طبی عملے کی کمی کے ساتھ مائوں کی بنیادی صحت بھی ہے ملک میں 1000میں سے 65.2بچے اپنی پانچویں سالگرہ نہیں بنا پاتے اور فوت ہو جاتے ہیں۔

پانچ سال سے کم عمر 45 فی صد بچے کمزور جسم اورکمزور ذہن کے ساتھ پل کر بڑے ہو رہے ہیں۔ بچوں میں اموات کی بڑی وجوہات میں غذائی کمی آلودہ پانی اور صفائی آلودگی سے اس وقت غذائی قلت کا شکار 40.2فی صد بچے پانچ سال کی عمر کے حساب سے کمزوری کا شکار ہیں جبکہ 17.7فی صد بچے مکمل سوکھیئے کی بیماری (پروٹین کیلوری مال نیوٹریشن) کا شکار ہیں۔ آلودہ پانی سے بچے ٹائیفائیڈ، ڈائیریا، ہیپاٹائٹس اور پیٹ کے کیڑوں کے امراض کا شکار ہو رہے ہیں۔ صفائی آلودگی کی وجہ سے بچوں میں سانس کے امراض اور نمونیہ بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔ نمونیہ سے ہونی والی اموات کا تناسب 1.4فی صد ہے۔ بچوں میں خطرناک حد تک فولاد، وٹامن اے اور وٹامن ڈی کی کمی پائی جا رہی ہے۔

ملک میں کیمیکلز والے نشے ہیروئن کوکین اورآئس کا استعمال بڑھ رہا ہے۔ جس میں بڑی تعداد نوجوانوں کی ہے۔ اسکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طالب علم جن کی عمریں 13سے 25سال کے درمیان میں نشے کی عادت میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق منشیات کی لت میں مبتلا ہونے والوں کی تعداد میں ہر سال قریباً 40ہزار کا اضافہ ہو رہا ہے جو ایک خطرناک صورتحال ہے۔ نشے کی عادت چھڑانے کیلئے کئی پرائیویٹ ادارے اور اسپتال موجود ہیں مگر وہاں علاج انتہائی مہنگا ہے۔ جو ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہے۔

آج بھی میرے ملک میں خصوصاً سندھ اور پنجاب میں سگ گزیدگی کے واقعات بہت زیادہ ہیں اور خاص بات یہ کہ کتے کے کاٹے کی ویکسین اکثر عدم دستیاب ہوتی ہے کتوں کو مارنے کا ارادہ کیا جائے تو جانوروں کے حقو ق کی تنظیمیں آگے آجاتی ہیں مادر کتوں کی نس بندی کے صرف اعلانات ہوتے ہیں۔ خاص بات یہ کہ کتے کے کاٹنے پر اگر کوئی بچہ فوت ہو جائے یا شدید زخمی ہو جائے تو کسی انسانی حقوق کی تنظیم کی جانب سے کوئی احتجاج نہیں ہوتا اور نہ ہی شمع جلائی جاتی ہے۔

عورتوں کی صحت پر بات کریں تو انتہائی شرمناک اعداد وشمار سامنے آتے ہیں۔ باعزت زندگی گزارنے کیلئے صحت کی سہولیات تک رسائی ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔ مگر ہمارے ملک میں صنفی عدم مساوات کی وجہ سے یہ حق بہت کم خواتین کو حاصل ہے۔ ملک میں خواتین کی اکثریت خون کی کمی اور غذائی قلت کا شکار ہے۔ خصوصاً دیہی علاقے جہاں کھانے کیلئے عورت کا نمبر سب سے آخر میں آتا ہے۔ صنفی امتیاز کی وجہ سے عورتوں کو کم خوراک ملتی ہے اور وہ یہ سب سے آخر میں کھانا کھاتی ہیں۔ جبکہ یہ ہماری نسلوں کی امین ہے۔

اقوام متحدہ کے اعدادو شمار کے مطابق جنوبی ایشیائی ممالک میں پاکستان میں زچگی کے دوران مائوں کی ہلاکت کا تناسب سب سے زیادہ ہے ہر پانچ میں سے ایک عورت کو زچگی کے دوران پیچیدگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ 2019ء سے پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے کے مطابق پاکستان میں زچگی کے دوران ایک لاکھ پیدائش میں 186عورتیں جان سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں جبکہ سوئیڈن میں ایک لاکھ سالانہ پیدائش میں مشکل سے ایک عورت فوت ہوتی ہے سری لنکا میں یہ تعداد 12جبکہ ملائشیا میں یہ تعداد 8 ہے۔

ہمارے ملک میں 2006ء میں (MMR)میٹرنل مورٹیلٹی ریشو Matenal Mortality Ratio ایک لاکھ میں 276 تھا جو 2020ء میں کم ہو کر 186پرآیا ہے۔ قومی سروے میں پیش کئے گئے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت پنجاب میں ایک لاکھ پیدائش میں ایسی اموات کی شرح 157اور خیبرپختونخواہ میں 165جبکہ سندھ میں 224اور بلوچستان میں یہ شرح 298فی ایک لاکھ پیدائش ریکارڈ کی گئی ہیں۔ ماہرین کے مطابق زچگی کے دوران شرح اموات کوکم کرنے کیلئے ا قوام متحدہ کی جانب سے رکھے گئے ہزار سالہ ترقیاتی ہدف کو پورا کرنے میں پاکستان ناکام رہ سکتاہے۔ یہ ہدف 2030ء تک ایسی اموات کی تعداد کو گھٹا کر فی لاکھ 70تک لانے کا منصوبہ ہے۔

اس کے ساتھ ہی پاکستان میں سالانہ 6لاکھ خواتین ماں بننے کے بعد پیچیدگیوں کا شکار ہو جاتی ہیں۔ جس سے ان کی زندگی بہت زیادہ متاثر ہوتی ہے اور خاندان والے علاج ومعالجہ کے بجائے انہیں مزاروں اور پیروں فقیروں کے پاس لے جاتے ہیں 2021ء کے سروے کے مطابق پاکستانی خواتین میں چھاتی کے کینسر کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ ’’پنک ربن‘‘ کے مطابق پاکستان میں ہر روز 110 خواتین چھاتی کے کینسر کا شکار ہو رہی ہیں۔ پورے ایشیا میں یہ شرح سب سے زیادہ ہے۔ ہر سال تقریباً 40000خواتین اس بیماری سے موت کا شکار ہو رہی ہیں۔ پاکستان میں ہر نویں عورت کو چھاتی کا سرطان ہو جانے کا خدشہ ہے۔

اس بیماری کے علاج کیلئے قریباً 40لاکھ روپے کا خرچہ آتا ہے۔ کراچی میں جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر میں یہ علاج مفت فراہم کیا جا رہا ہے جہاں جدید ترین طریقوں سے تشخیص اور علاج کیا جاتا ہے۔ پورے ملک سے مریض علاج کے لئے یہاں آتے ہیں۔ پچھلے دو سالوں سے حکومتی سطح پر چھاتی کے سرطان کے مطابق آگہی کی مہم شروع کی گئی ہے ’’پنک ربن‘‘ کے مطابق وہ پاکستان میں چھاتی کے سرطان کے علاج کیلئے اسپتال تعمیر کر رہا ہے جو اس سال کے اختتام تک مکمل ہو جائے گا۔ یہ اسپتال سالانہ 40000 مریضوں کو علاج معالجے کی سہولیات فراہم کرے گا۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ صحت کے مسائل کیلئے ملکی سطح پر مؤثر آگہی مہم، ملاوٹ سے پاک خوراک اور صاف پانی کی ضرورت ہے۔ ملک میں غربت کی شرح میں اضافے کے نتیجے میں صحت عامہ کے مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پبلک ہیلتھ کے شعبے پر حکومتی سطح پر خاص توجہ کی ضرورت ہے تاکہ یہ شعبہ بیماروں کے صحت مند افراد پر بھی توجہ مرکوز کرے اور علاج کے ساتھ ساتھ بیماریوں سے احتیاط اور بچائو پر بھی کام کیا جائے۔ ملک میں صاف پانی فراہم کرنے کیلئے سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ گیسٹرو اور ہیپاٹائٹس اور ٹائیفائیڈ جیسی بیماریوں سے تحفظ ممکن ہو۔

ہم ایک صحت مند پاکستان کے خواب کی تعبیر حاصل کرلیں گے۔ انشاء اللہ جس کے لئے وفاداری اور محبت کی ضرورت ہے اپنے ملک سے اپنے کام سے اور اپنے لوگوں سے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ غیرصحت مند اور ناخواندہ قوم کبھی ترقی نہیں کرسکتی آئو مل کر سوچیں ہم زندگی کے بارے میں، روشنی کے بارے میں خود کو معتبر کرلیں سب کو ہم سفر کر لیں۔