پاکستان اور لالی وڈ فلموں کا سفر ساتھ ساتھ

August 14, 2022

پاکستانی فلمی صنعت کے معماروں نے آزادی کے ساتھ ہی اس حقیقت کو جان لیا تھا کہ قوم کو ترقی کے لیے معیاری تفریح کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ ملک میں بسنے والوں کو ایسی موسیقی بھی چاہیے، جو آواز کے ترنم، شاعری کی ترجمانی اور سازوں کی مدھر تال کے ساتھ وہ تخلیقات پیش کریں، جو پاکستانی قوم کو عشق، وفا، ہجر اور خُوب صورتی کے ساتھ ترقی اور شعور کا ولولہ بھی عطا کرسکے ۔ دیس میں بسنے والوں کو انسانی زندگی کے لطیف اور حساس جذبات سے روشناس کرانے اور ان کومعاشرتی رشتوں کے تناظر میں مختلف زاویوں کے ساتھ دیکھنے اور محسوس کرنے کی بھی ضرورت ہے۔

پاکستان میں اس برس اپنی آزادی کے 75برس مکمل ہونے کا جشن منا رہا ہے۔ یہ موقع نہ صرف خو شی کا ہے، بلکہ اس بات کا تقاضا بھی کرتا ہے کہ زندگی کے مختلف شعبہ جات کا تجزیہ کیا جائے، تاکہ ان میں حاصل ہونے والی کامیابیوں پر شکر ادا کرنے کے ساتھ ان میں موجود خامیوں کو دُور کرنے کے لیے آنے والے برسوں میں مناسب اقدامات اٹھائے جائیں۔ اس ضمن میں اگر پاکستانی فلم انڈسٹری کے پچھتر برسوں کا تجزیہ کیا جائے تو یہ امر واضح ہے کہ لالی وڈ نے پاکستانی قوم کو تفریح پہنچانے کے لیے جو خدمات انجام دی ہیں، وہ قابل قدر ہیں۔ لالی وڈ ہمیشہ ہی پاکستان کے لوگوں کو سستی اور معیاری تفریح پہنچانے کا ذریعہ رہا ہے۔

اس مقصد کے ساتھ لالی وڈ نے پاکستان میں فنونِ لطیفہ کی ترقی اور ترویج میں بھی اہم ترین کردار ادا کیا ہے۔ آرٹ اور فن کی تمام جہتوں میں آج جو بھی ترقی دکھائی دیتی ہے، اس میں فلمی صنعت اور اس سے وابستہ ہنرمندوں نے بہترین خدمات انجام دی ہیں۔ شاعری، موسیقی، گلوکاری، رقص، اداکاری، ڈراما نگاری اور مصوری کی اصناف میں لالی وڈ کا کردار قابل ذِکر ہے۔ فلمی صنعت کا ایک اہم کارنامہ پاکستان کے ثقافتی ورثہ کو پہچان عطا کرنا اور اس کی حفاظت کرنا بھی رہا ہے۔

لالی وڈ کے پچھتر برس کے سفر کو ایک تحریر میں سمونا بہت ہی مشکل کام ہے۔ پاکستان کو ثقافتی شناخت دینے اور قوم کو بہترین تفریح مہیا کرنے میں سینکڑوں اداکاروں ، پروڈیوسرز، ہدایت کاروں، کہانی نویسوں ، گلوکاروں ، موسیقاروں ، ڈسٹری بیوٹرز ، کیمرہ پرسنز اور دیگر تکنیکی عملے کی گراں قدر خدمات ہیں۔ زیر نظر تحریر میں پاکستان کی فلمی صنعت کے اس سفر کو لالی وڈ کے ہیروز اور ہیروئینز کے حوالے سے قلم بند کیا گیا ہے۔

ان ثقافتی آئکون کی شخصیت اور فن اداکاری کا جائزہ پیش کیا گیا ہے کہ کس طرح سے انہوں نے قوم کی تفریحی ضروریات کو پُورا کیا، یہاں پر آغا جی اے گل، جے سی آنند، انور کمال پاشا، لقمان، مسعود پرویز ایس سلیمان، پرویز ملک، شباب کیرانوی، جاوید فاضل، سید نور، شہزاد رفیق، اقبال کشمیری، حسن طارق، الطاف حسین، اے حمید، اسلم ڈار، حیدر چوہدری، سنگیتا، شمیم آراء، ریاض شاہد،نذر شباب، قتیل شفائی، خواجہ پرویز، ناصر ادیب، ریاض الرحمان ساگر،مسرور انور، کلیم عثمانی، تنویر نقوی، نثار بزمی، وجاہت عطرے، سہیل رعنا، فیروزنظا می، امجد بوبی، وزیر افضل، ایم ارشد، خواجہ خورشید انور، طافو، ملکہ ترنم نو جہاں، مہدی حسن ، احمد رشدی، مہناز، مالا، زبیدہ خانم، رونا لیلیٰ، ناہید اختر، منیر حسین، غلام عباس ، اے نیر،اخلاق احمد، منیر حسین، سلیم رضا اور درجنوں قابل اور اپنے فن میں ماہر افراد کا تذکرہ کرنا بھی ضروری ہے ، جنہوں نے ان ہیروز اوہیرو ئنز کی کامیابیوں میں اہم ترین کردار ادا کیا۔

پاکستانی فلمی صنعت کے لیے یہ سفر کسی طور بھی آسان نہیں تھا۔ 1947میں تشکیل پانے والی ایک نئی ریاست کو ہرمحاز پر بے شمار چیلنجز کا سامنا تھا۔ وسائل کی عدم دست یابی ، معاشی عدم استحکام، سیاسی ڈھانچے کی تعمیر، مہاجرین کی آباد کاری اور کئی دوسرے مسائل کے باو جود فلمی صنعت کے معماروں نے لالی وڈ کی بنیادرکھی اور اسے پروان چڑھایا۔ آزادی کے بعد فلمی صنعت کی بنیادیں استوار کرنے کے لیے اسکرین پرایسے ہیروز اور ہیروئنز کی ضرورت تھی، جو ایک نئی قوم کے جمالیات اور احساسات کے ساتھ ربط قائم کر سکیں ۔ لالی وڈ کے ابتدائی برسوں میں عنایت حسین بھٹی ، سدھیر، ظریف، سورن لتا، نورجہاں، نذر، آشا بھوسلے، مسرت نزیر، سنتوش کمار، درپن،ظریف، اجمل، اسلم پرویز، علائودین، آغا طالش اور صبیحہ خانم نے یہ کام بہ خوبی ادا کیا۔

ممتازاداکار محمد علی نے نہ صرف پاکستانی ہیرو کو ایک نئی پہچان دی، بلکہ انہوں نے فلمی اداکاروں کی سماجی شناخت کو بھی متعارف کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔ فلموں میں ان کی اداکاری کا انداز منفرد تھا۔ اس انداز میں ان کی آواز اور خوبرو جسامت کے ساتھ مکالموں کی ادائیگی نے ان کا بھر پور ساتھ دیا۔ محمد علی نے یہ ثابت کیا کہ فلمی فن کار معاشرتی حوالے سے گراں قدر خدمات انجام دے سکتا ہے۔ محمد علی کی زیبا بیگم سے شادی اور دونوں کی جُوڑی نے جس انداز سے ثقافت ،سیاست ، ادب اور سماج کی خدمت کی ، وہ داستان سنہری حُروف سے رقم کرنے والی ہے۔ علی زیب فائوندیشن کی پاکستان میں خون کی بیماریوں میں مبتلا بچوں کا علاج کرنے کے حوالے سے قابل قدر خدمات ہیں۔ ان کی مشہور فلموں کی فہرست طویل ہے۔

علی زیب کا گھر اسی کی دہائی میں لاہور میں ادب و ثقافت کا مرکز بنا رہا۔ سیاست، ادب، سماج اور فن سے وابستہ شاید ہی کوئی ایسی شخصیت ہو، جس علی زیب نے مہمان نوازی نہ کی ہو۔ محمد علی کی مشہور فلموں کی فہرست طویل ہے۔ ان میں چراغ جلتا رہا، شمع ، پھول میرے گلشن کا، جاگ اٹھا انسان، انسان اور آدمی، صائقہ، بوبی، شمع اور دوسری درجنوں فلمیں شامل ہیں۔ محمد علی نے ایسے کردار نبھائے جوعام پاکستانیوں کی ترجمانی کرتے تھے، وہ کبھی مظلوموں کی آواز بنے اور کبھی انھوں نے اپنے رومانس کے ذریعے لطیف انسانی جذبات کی عکاسی کی۔ اداکار سنتوش کمار نے ایسے کردار پرفارم کیے، جن میں فن کی لطافت نمایاں تھی، جن فلموں میں انہوں نے پرفارم کیا، ان میں دیہاتی اور شہری دونوں طرح کا ماحول دکھائی دیتا ہے۔ ان کی اداکاری میں کشش تھی۔ سنتوش بہت خوش شکل انسان تھے۔

ان کے نقوش رومانوی اداکاری کے لیے نہایت موزوں تھے۔ اس لیے ان کے پرفارم کردہ رومانو ی کردار فلمی شائقین میں بہت مقبول ہوئے۔ ان کا گانوں کی پکچرائزیشن کا انداز بھی دل کو موہ لینے والا ہوتا تھا۔ پاکستانی فلمی صنعت کی پچھتر برس کی تاریخ میں جو مقبولیت چاکلیٹی ہیرو وحید مراد کو حاصل ہوئی، وہ انمول ہے۔ وحید مراد کا انداز، شخصیت کی خُوب صورتی اور پرفارمینس کے شائقین آج کی نئی نسل میں بھی موجود ہیں۔ وحیدمراد نے رومانوی اورجذباتی اداکاری کا وہ انداز متعارف کرایا، جو کہ آج تک مقبول ہے۔ وحید مراد، جب اسکرین پر جلوہ افروز ہوتے تو فلم بین ان کی سحر انگیز شخصیت میں کھو جاتے۔ ان کی آواز اور آنکھوں میں رومانس اور جذبات کی وہ شدت تھی، جو ان کی اداکاری کو تقویت عطا کرتی۔

وحید مراد کا نام فلموں کی کام یابی کی ضمانت تھی۔ وحید نے پاکستانی فلم کو تفریح کے طاقت ور میڈیم کے طور پر پہچان بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ گانوں کی پکچرائزیشن میں تو وحید مُراد کو عبور حاصل تھا۔ ان کا نغمات کی شاعری اور دُھنوں پر بے ساختہ اندزا و رقص کی حرکات بہت دل کش معلوم ہوتی تھیں۔ گانوں کی پکچرائزیشن کا جو حسین انداز وہ اپناتے تھے، وہ آج کے ہیرو بھی کاپی کرتے ہیں۔ یہ وحید مراد کی خوش قسمتی تھی کہ ان کو احمد رشدی، مسعود رانا، مہدی حسن ، مسرور انور، نثار بزمی،سیف الدین سیف، روبن گھوش، خلیل احمداور قتیل شفائی، جیسے گلوکار، شاعر اور موسیقار میسر آئے۔ پاکستانی فلم اور فن اداکاری پر قوم کی خود اعتمادی کو پروان چڑھانے میں وحید مراد کا اہم کردار ہے۔ معروف اداکار ندیم اپنی ورسٹائل اداکاری کی بدولت بہت جلد فلم بینوں کے دِلوں میں گھر کر گئے۔انہوں نے ہر نوعیت کا فلمی کردار بھرپور نبھایا۔

ندیم کی فلموں نے پاکستانی سینما کی ترقی اور ترویج میں نمایاں کردار اداکیا۔ ندیم نے زیادہ تر رومانوی، جذباتی ، رنجیدہ اور مزاحیہ کرادار نبھائے۔اپنی تمام ہیروئینز کے ساتھ ان کی اسکرین کیمسٹری شان دار رہی۔ ندیم اپنے کردار کے قالب میں مکمل طور پر ڈھل جاتے تھے۔ فلمی شائقین اس بات کا احساس نا کر پاتے کہ وہ اسکرین پر اداکاری کو دیکھ رہے ہیں۔ ندیم کو ایسے فلمی شاہ کاروں میں پرفارم کرنے کاموقع ملا، جن میں پروڈیوسر، ہدایت کار، کہانی نویس اور دیگر کاسٹ بھی فن کی بلندیوں کو چُھو رہی تھیں۔ ان فلموں میں ندیم کی لاجوب اداکاری نے چار چاند لگا دیے۔

ندیم کی کام یاب فلموں کی طویل فہرست میں آئینہ، چکوری، دل لگی ، پاکیزہ، بندش، پلے بوائے، آس پاس، مہربانی اور دیوانگی نے باکس آفس بزنس کے نئے ریکارڈز قائم کیے۔ جنگجو اداکار سدھیر نے آزادی کے بعد سے پاکستانی فلمی صنعت کی بنیادیں استوار کرنے میں اہم کردار اداکیا۔ فلم ڈوپٹہ سے سدھیر نے اداکاری کے میدان میں قدم جما لیے۔ انہوں نے اردو اور پنجابی دونوں زبان کی فلموں سے فلمی شائقین کو متاثر کیا۔ سدھیر کی اداکاری میں شائقین کو پنجاب کا دیہاتی گبرو بھی دکھائی دیتا اور شہر کا سلجھا ہوا تعلیم یافتہ نوجوان بھی۔ اداکار اعجاز درانی کی سنجیدہ شخصیت اور بہترین پرفارمنسز نے لالی وڈ کو کام یابیاں دینے کے لیے اہم کردار ادا کیا۔اداکار حبیب کی اردو اور پنجابی دونوں فلموں میں کردار نگاری اور پرفارمینس کا انداز اپنی منفرد پہچان رکھتا ہے۔

اداکار درپن کے فن میں ایک دھیما پن تھا۔ ان کی شخصیت اور پرفارمینس میں رومانوی اور ڈرامائی کردار پرفارم کرنے کا جو پوٹینشل تھا، اس کا انہوں نے بھر پور اظہار کی۔ اداکار شاہد نے لالی وڈ میں اپنی رومانٹک اداکاری سے فلم بینوں کو متاثرکیا۔ کمال کی لالی وڈ میں آمد کو فلمی شائقین نے پر تپاک انداز سے خوش آمدید کہا۔ کمال کا پرفارمینس کرنے کا نداز بے ساختگی سے بھر پور تھا۔ اداکار رنگیلا کا فنی قد بہت بلند رہا، اگرچہ ان کی پہچان کامیڈ ی کردار رہے، لیکن انہوں نے اپنی فلموں رنگیلا، دو رنگیلے، کبڑا عاشق اور د ل اور دنیا، میری زندگی اور اس جیسی کئی فلموں میں پرفارم کر کے یہ ثابت کیا کہ وہ اداکاری تمام اصناف پر عبور رکھتے ہیں۔

اداکار منور ظریف کی پاکستانی عوام کو بہترین تفریح مہیا کرنے کے لیے خدمات قابل ذِکر ہیں۔ وہ ایک خوش شکل ہیرو تھے، جن کے مزاح سے بھر پور کرداروں نے فلم بینوں کو پاکستانی سینما سے جوڑے رکھا۔ انہوں نے تمام اصناف کی اداکاری میں اپنا لوہا منوایا۔ انہیں گانوں کی پکچرائزیشن پر بھی عبور حاصل تھا۔ ان کی شخصیت اور فن کے سحر نے دو دہائیوں تک فلم بینوں کو اسیر کیے رکھا۔ منور ظریف اور علی اعجاز نے پاکستانی فلموں میں کامیڈی ہیرو کو ایک نئی پہچان دی، جس کی آنے والے فن کار ہمیشہ تقلید کرتے رہیں گے۔ اداکار لہری کی بے ساختہ اداکاری کو کون فراموش کرسکتا ہے، انہوں نے مزاحیہ اداکاری کو نیا اسلوب دیا۔

لالی وڈ میں پنجابی زبان کی فلموں میں اداکار سلطان راہی کا فنی مقام خاصا منفرد رہا۔ اسی کی دہائی میں پنجابی سینما کی مقبولیت اور اس کو تفریح کا مین اسٹریم ذریعہ بنانے میں سلطان راہی نے گران قدر خدمات انجام دیں۔ پاکستان کے عام فلم بین نے سلطان راہی کے کرداروں میں خود کو تلاش کیا اور پا لیا۔ سلطان راہی کی اداکاری کا انداز سادہ تھا، جو کہ پنجاب کے گبرو جوان کی عکاسی کرتا تھا۔ سلطان راہی نے سات سو سے زائد فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے، وہ پنجابی سینما کی پہچان تھے۔ فلمی نغمات کی پکچرائزیشن کا بھی ان کا منفرد انداز تھا۔ اپنی مردانہ وجاہت اور انداز کو لے کر پنجاب کی ثقافت کی ترویج میں ان کا اہم کردار ہے۔ سلطان راہی کی فلموں نے پاکستان بالخصوص پنجاب کے عوام کو سینما کی جانب متوجہ کیا۔

پاکستان میں علاقائی زبان کی فلموں کا بہت اسکوپ موجود ہے، لیکن پنجابی اور پشتو زبان کے علاوہ کسی دوسری زبان کا سینما ترقی نہیں کر سکا۔ اس حوالے سے مزید بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔ جاوید شیخ ، مصطفٰی قریشی اور غلام محی الدین کی بہ طور اداکار لالی وڈ کے لیے خدمات قابل ذکر ہیں۔ اداکار شان کے فن کے اثرات بھی لالی وڈ پر گہرے ہیں۔ شان نے اپنی فلموں میں ہر نوعیت کا کردار نبھایا ہے۔ ان کی اداکاری کا کینوس خاصا وسیع رہا۔ شان نے پنجابی اور اردو دونوں زبان کی فلموں میں کامیابیاں سمیٹی ہیں۔ شان کی پسندیدگی دیہاتی اور شہری علاقوں میں یکساں ہے۔ اسی طرح افضل خان ریمبو، معمر رانا، بابر علی اور سعود نے بھی نوے اور سن دوہزار کی دہائیوں میں کئی کام یاب فلموں میں پرفارم کیا۔

گزشتہ چند برسوں سے سرمد کھوسٹ، احسن خان، فہد مصطفٰی، فواد خاں،اور ہمایوں سعیدبہترین پرفارمینس دے رہے ہیں۔ آزدی کے بعد ملکہ ترنم نور جہاں نے اداکاری، گلوکاری اورہدایت کاری کے ذریعے لالی وڈ کی ترقی میں اہم کردار اداکیا۔ اداکارہ صبیحہ خانم نے پاکستانی ہیروئن کو پہچان دی۔ وہ نہ صرف حُسن وجمال کا پیکر تھیں، بلکہ ان کی اداکاری کا اندازبہ یک وقت گلیمر، جذبات، سنجیدگی اور رومانس لیے ہوئے تھا۔ وہ اپنے کردار کو اس کے تمام پہلوئوں سمیت پرفارم کرتیں اور کہانی کے مدو جزر کے ساتھ اپنی اداکاری کے انداز کو بھی سموتی رہتیں۔ صبیحہ نے نہ صرف آن اسکرین بلکہ آف اسکرین بھی اپنی شخصیت کے وقار اور حسن کو قائم رکھا، یہی وجوہ تھیں کہ وہ پاکستان کے تمام طبقوں کی پسندیدہ اداکارہ بن کرابھریں۔ان کے کام کی پسندیدیگی مرد اور خواتین سب میں یکساں تھی۔ اداکارہ مسرت نذیر نے لالی وڈ کے اوائل میں اس کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کا گلیمر، اداکاری کا انداز اور شخصیت کا سحر طویل عرصے تک فلم بینوں پر طاری رہا۔

شمیم آراء نے لالی وڈ میں خواتین کے وقار اور ان کی فنی صلاحیتوں کو قبول کرانے کے حوالے سے جو کام کیا، وہ سنہری حُروف سے لکھنے کے قابل ہے۔ بہ طور فلم ہیروئن اور ہدایت کار، انہوں نے اپنی اداکاری سے پاکستانی خواتین کے مسائل کا بہترین اظہار کیا۔ شمیم آراء کی اداکاری میں ایک خاص طرح کا ٹھہراو تھا، وہ کردار کی تراش کچھ اس طرح سے کرتیں کہ اس میں حقیقت کا روپ بھر دیتیں۔ شمیم آراء کے پرفارم کردہ کرداروں کی ایک طویل فہرست ہے، جن میں انہوں نے پاکستانی خواتین کی سماجی، معاشی اور ثقافتی زندگیوں کی بھر پورجمالیاتی انداز میں عکاسی کی ہے۔

اسی طرح بہار، نیلو اور نِشو کی کردار نگاری بھی ہر حوالے سے داداور تحسین کی حقدار ہے۔ شبنم کا اداکاری کے فن میں ثانی تلاش کرنا مشکل کام ہے۔ شبنم تمام طرز کی اداکاری پر عبور رکھتی تھیں۔ وہ ستر اور اسی کی دہائی میں فلموں کی کام یابی کی ضمانت سمجھی جاتی رہیں۔ شوخ وچنچل،شرارت، رومانس اور ڈراما سمیت، وہ جس بھی کردار کو پرفارم کرتیں، اس کو حقیقت سے قریب تر کر دیتی تھیں۔ زیبا بیگم کی ڈرامائی اور رنجیدہ اداکاری کے سب فینز ہیں۔ زیبا نے جو بھی کرادر پرفارم کیا، اس کو یادگار بنا دیا۔ارمان، آشیانہ، دامن اور چنگاری، بھروسہ، آگ ، توبہ اور کنیز سمیت درجنوں فلموں میں ان کی پرفارمنس یادگار رہی۔ فردوس نے فلم ’’ہیررانجھا‘‘ میں نہ صرف ’’ہیر‘‘ کے کردار کو یادگار بنایا، بلکہ انہوں نے درجنوں پنجابی فلموں میں وہ پرفارمنسز دی ہیں، جو فلمی شائقین اور ناقدین سب کو اب بھی یاد ہیں۔اداکارہ سنگیتا کی صلاحیتوں کے سب معترف ہیں۔ اداکاری اور ہدایت کاری دونوں میدانوں میں انہوں نے بے مثال کام کیا ہے۔

سنگیتا کی اداکاری حقیقت سے قریب رہی۔ ان کی شخصیت اردو اورپنجابی دونوں زبانوں کی فلموں کے لیے موزوں تھی ، اس لیے انہوں نے دونوں اقسام کی فلموں میں کام یابیا ں سمیٹیں۔ اداکارہ رانی نے فلم محبوب سے اپنے فنی سفر کا آغاز کیا۔ رانی کی خُوب صورتی اور اداکاری نے جلد ہی فلم بینوں کو اپنی جانب متوجہ کر لیا۔ رانی کو رقص پر بھی عبور حاصل تھا۔ ان کے انجمن، امراؤ جان ادا، تہذیب، ناگ منی، اک گناہ اور سہی، جِند جان اور چن مکھناں میں پرفارم کردہ کردار کلاسیک کا درجہ رکھتے ہیں۔ اداکارہ بابرا شریف نے لولی وڈ میں ہیروئن کا ایک نیا انداز متعارف کرایا۔ بابرا شریف کی لالی وڈ میں آمد تازہ ہواکا جھونکا ثابت ہوئی تھی۔ بابرا نے اپنے فنی سفر کے دوران اداکاری کاایک منفرد انداز متعارف کروایا۔ ان کی اداکاری میں کبھی چلبلا پن نمایا ں رہا اورکبھی رومانس۔ اس کے علاوہ انہوں نے ایکشن اور ڈرامائی اداکاری میں بھی کمال کیا ۔ بابرا شریف نے اپنے کرداروں کو اسکرین پر بے ساختگی کے ساتھ پرفارم کیا۔ پاکستانی عوام کو تفریح کا ان کا انداز بہت زیادہ بھایا۔

اداکارہ انجمن نے ایک طویل عرصہ تک پنجابی سینما پر راج کیا۔ وہ پنجابی فلموں اور ثقافت کی پہچان بن کر ابھریں۔ انہوں نے پنجابی سینما پر جوتا ثر قائم کیا وہ آج بھی موجود ہے۔ اداکارہ صائمہ نے انجمن کے بعد پنجابی فلموں میں اپنی پہچان بنائی۔ آسیہ کی جوڑی سلطان راہی کے ساتھ سپر ہٹ ثابت ہوئی۔ اداکارہ ممتاز کی فلم انڈسٹری میں آمد دھماکے دار ثابت ہوئی۔انہوں نے اردو پنجابی فلموں میں یکساں مقبولیت حاصل کی۔ ان کی خُوب صورتی اور پرفارمینس نے پنجابی جٹی کے فلمی تاثر کو قائم رکھا۔ اداکارہ ریما خان ، میرا، ریشم ، مدیحہ شاہ اور صاحبہ نے بھی لالی وڈ میں اپنی پرفارمنس کے ذریعے فلم بینوں کو تفریح مہیا کرنے کے لیے اہم کردار ادا کیا ہے۔ گزشتہ چند برسوں سے مہوش حیات،مایا علی، ماہرہ خان، عروہ حسین،عائشہ عمر، سوہائے علی ابڑو،نیلم منیر اور صبا قمر نے خاصی کام یابیاں سمیٹی ہیں۔

لالی وڈ کی تاریخ کا ذکر پشتو فلموں کے اسٹارز آصف خان، بدر منیر، مسرت شاہین، ارباز خان، شاہد خان اور ثوبیہ خان کے بغیر ادھورا ہے۔ پشتو زبان کے جاننے والوں کو تفریح مہیا کرنے لے لیے ان اداکاروں نے بے مثال خدمات انجام دی ہیں۔ لالی وڈ کا پچھتر برس کا سفر آسان نہیں تھا۔ اسے ان گنت مسائل کا سامنا کرنا پڑا، جن میں فلم پالیسی کی عدم موجودگی ، بالی وڈ اور ہالی وڈ سے مقابلہ، ٹیکنالوجی کا حصول، فلم میکنگ کے حوالے سے تخلیقی جمود، فلم کے شعبہ کی جانب اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کا توجہ نہ دینا، سرمایہ کاری کی کمی، اسٹوڈیوزسسٹم کا زوال اور سینما ہالز کی خستہ حالت جیسے مسائل اہم رہے، لیکن لو لی وڈ کو ہمیشہ ایسے با ہمت تخلیقار میسر رہے ، جنہوں نے تمام تر مشکلات کے باوجود اس کی ترقی اور فلم کو پاکستانی فلم بینوں تک پیش کرنے کے لیے تمام تر کاوش جاری رکھی۔

اسی کوشش کا نتیجہ ہے کہ آج لالی وڈ ایک نئی شناخت اور ولولہ کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ گزشتہ دس برسوں کے دوران ہونے والی اہم پیش رفت جن میں اعلٰی تعلیم یافتہ افراد کا فلم میکنگ کو جوائن کرنا، ملٹی پلکسس کی تعمیر، نوجوان فلم بینوں اور فیملیز کا سینما گھروں کا رُخ کرنا، نئے موضوعات پر تخلیقی کام، اینیمیٹڈ فلموں کی تیاری ، فلم میکنگ کی جدید ٹیکنالوجی کا استعمال اور جدید ڈیجیٹل ذرائع کو فلم میکنگ اور ڈسٹری بیوشن کے لیے استعمال کرنا وہ رجحانات ہیں، جو لالی وڈ کی ترقی کی نوید ہیں۔