کامن ویلتھ گیمز کا حسین یادوں کے ساتھ اختتام

August 18, 2022

کھلاتضاد … آصف محمود براہٹلوی
پتہ نہیں دولت مشترکہ ممالک کے درمیان ہونے والی گیارہ روز کھیل کورونا لاک ڈائون جیسے جمود کے بعد زیادہ دلچسپی اور رنگین یا خوبصورت ٹھہری یا صحیح معنوں میں ویل آرگنائزڈ اور خوبصورت تھیں۔ جی واقعی ہی حقیقی معنوں میں خوبصورت تھیں۔ ایک تو تین سالہ ڈسٹربنس کے بعد جب زندگی معمول کے مطابق آئی تو حسین ہوگئی۔برمنگھم جو برطانیہ کا دوسرا بڑا شہر اور یورپ کی سب سے بڑی لوکل اتھارٹی ہے۔ یہاں تقریباً کامن ویلتھ ممالک کے تمام باشندے آباد ہیں اور ایک طویل عرصہ سے یہاں ایک دوسرے کے ساتھ پیار و محبت سے رہ رہے ہیں۔ اسی لیے پورے ویسٹ مڈ لینڈز میں کامن ویلتھ کے وینو تھے اور لوگ جوق درجوق اپنی اپنی ٹیموں کو بھرپور تالیوں، نعروں سے سپورٹ کرتے رہے۔ سب سے خوبصورت پہلو جو گیم کی اختتامی تقریب کے شروع میں کیا گیا، انتہائی حسین تھا۔35ہزار افراد کامن ویلتھ گیم کے کامن ویلتھ ویلج الگزینڈرا اسٹیڈیم میں موجود تھے اور تقریب کو دنیا بھر میں لوگ بذریعہ لائیو اور آن لائن دیکھ رہے تھے۔گیم کی اختتامی تقریبات کے لئے بطور خاص تیاری کی گئی تھی۔ ایک طرح کا برطانیہ کا برمنگھم ویسٹ مڈ لینڈ کے ذریعے اعتراف تھا کہ دوسری جنگ عظیم میں برطانیہ اور بالخصوص برمنگھم تباہ و برباد ہوچکا تھا۔ ہر طرف عمارتیں ملبے کا ڈھیر بنی ہوئی تھی۔ ہاں یاد آیا اس منظرکشی سے قبل اسٹیڈیم کے درمیان لوہے کا بیل (Bull) رکھا گیا تھا، جو شاید لوہے کی انڈسٹری کو ظاہر کررہا تھا اور عمارتوں سے دھواں اٹھ رہا تھا۔ پھر جنگ کی وجہ سے عمارتیں تباہ ہوگئیں بچے جو چند ماہ پہلے کھیل کود میں مصروف تھے، بمباری کی وجہ سے سہم گئے تھے۔ بڑوں کی سماجی زندگی ختم ہوگئی تھی، تو اس تباہ حال برمنگھم کو اٹھتے دھویں کے بادلوں اور ملبے کے ڈھیروں میں تبدیل عمارتوں کو دولت مشترکہ کے ممالک کے افراد نے اپنی دن رات کی محنت و مشقت سے آہستہ آہستہ تعمیر کیا اور بلیک اینڈ وائٹ برمنگھم رنگین ہوتا گیا۔ شائقین جب بھی کوئی خوبصورت منظر دیکھتے تو خوب تالیاں بناکر داد دیتے۔جب دولت مشترکہ ممالک کے افراد انگریزی زبان سے نابلد ہاتھوں میں کل جمع پونجی ایک آدھ کپڑے کا جوڑا اور چند پونڈ کے سکے لیے بہتر روزگار کے لیے برطانیہ کا رخ کرتے تھے۔ آنکھوں میں بہتر مستقبل کے سہانے سجائے بحری جہازوں کے ذریعے یہاں آئے اور کسی ایک ہم زباں کے ساتھ مل کر راحت محسوس کرتے اور مل جل کر رہتے ایک ہی مکان میں کئی درجن افراد باہمی خوش حالی سے رہتے۔ مقصد ایک ہی تھا کہ برطانیہ کی دوبارہ تعمیر کی جائے، اجڑی ہوئی بستیوں کو دوبارہ آباد کیا جائے۔ ہاتھوں کے اشاروں سے کام سمجھایاجاتا اور کرنے والے خلوص نیت سے کرتے۔ یہ سب منظر کئی اسٹیڈیم کے درمیان میں سیکڑوں افراد اپنا اپناد کردار نبھاکر دکھا رہے تھے، کچھ دیر کے لیے تو ہم بھی اپنے باپ، دادا کی سنائی ہوئی کہانیوں کو عملی کردار کی صورت میں آنکھوں کے سامنے دیکھتے۔ یوں محسوس ہوتا اسکرپٹ بہت پہلے لکھا جاچکا تھا۔ فلم کی آج عکس بندی ہورہی ہے اور پھر انکھوں کے سامنے جدید برطانیہ روشنوں کا شہر بن گیا، تو میں کہہ رہا تھا کہ، برطانیہ کا کئی برسوں بعد یہ اعتراف کہ دولت مشترکہ کے ممالک نے جدید برطانیہ کو تعمیر کیا اور اب بریگزٹ کے بعد ایک بار پھر برطانیہ کی نظر دولت مشترکہ کے ممالک پر لگی ہوئی ہیں۔یہ ایک طرح کا پیغام یورپین ممالک کے لیے تھا۔ تاج برطانیہ کا سورج ابھی غروب نہیں ہوا بلکہ ایک نئی امید کے ساتھ پھر سے طلوع ہونے والا ہے۔ غیر معمولی انتظامات سے صاف ظاہر تھا۔ یہ صرف کھیل نہیں تھے۔ بلکہ کھیل ڈپلومیسی کے ذریعے دنیا کو پیغام دینا مقصود تھا۔اگر صرف کھیل ہوتیں تو 14 ہزار رضاکار کیوں بھرتی کیے جاتے۔ ساڑھے چھ لاکھ شٹل بسیں چلائی گئیں۔ جنہوں نے مختلف مقامات تک اتنے سفر کیے ٹوٹل نمبر آف جنریز Total Number of Journies Boses تقریباً20لاکھ افراد نیو اسٹریٹ اسٹیشن سے باہر آئے۔ میٹرو بسوں کا سفر اس سے بھی دگنا تھا۔ تقریباً 28ہزار افراد نے ویسٹ مڈ لینڈز سائیکل کرایہ پر حاصل کی۔ تقریباً64ہزار کار پارک کیلئے جگہ آن لائن ایڈوانس بک کرائی گئی۔14 ہزار افراد ایک جیسے لباس میں ملبوس چہروں پر مسکراہٹ سجائے، ہر وقت مدد کو تیار، ویسٹ مڈ لینڈ زکے ہوٹل95فیصد ایڈوانس بک ہوگئے تھے جوکہ توقع سے سے10فیصد زیادہ تھے۔ اس کا مطلب ہے کہ برمنگھم ویسٹ مڈ لینڈز ایک انٹر نیشنل وزیٹنگ سائٹ بن گئی ہے۔ آن لائن ریسرچ کرنے میں#B2022 سب سے زیادہ ٹرین بن گیا تھا۔ ہزاروں کے حساب سے جو طلبہ بیرون ممالک سے برطانیہ میں تعلیم حاصل کرنے آئے ہوئے تھے انہوں نے کامن ویلتھ میں عارضی جاب حاصل کیں اور اس کی اچھی تنخواہیں ملیں۔ایک لحاظ سے یہ صرف کامن ویلتھ گیمز ہی نہیں تھیں، بلکہ ایک پورا پلان تھا کہ بریگزٹ کے بعد نئے تجارتی تعلقات کے لیے مزید سرمایہ کاری کے لیے اپنے دولت مشترکہ کے ممالک کے ساتھ نئی شروعات ہیں ۔تو میں بتا رہا تھا کہ پورے اسٹیڈیم کے درمیان عکس بند کیا گیااور ڈرامہ پورے برطانیہ کو رنگین کرکے حسین یادیں چھوڑکر اختتام پذیر ہوگیا۔