ملریا سے کیسے محفوظ رہا جائے؟

August 25, 2022

ملیریا ایک مہلک بیماری ہے جو انسانوں میں مچھروں کے کاٹنے کی وجہ سے پھیلتی ہے۔ اگرچہ اس کا تدارک کیا جا سکتا ہے، تاہم صحت کا عالمی ادارہ کہتا ہے کہ 2019ء میں اِس سے تقریباً 23 کروڑ افراد متاثر ہوئے تھے اور 4لاکھ 9ہزار اموات ریکارڈ کی گئی تھیں۔ اس بیماری کے لگنے کے بعد ابتدا میں بخار ہوتا ہے، پھر سر درد اور سردی محسوس ہوتی جبکہ علاج نہ کیے جانے کی صورت میں یہ بیماری سنگین صورت اختیار کرسکتی ہے اور موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔

ملیریا طفیلی جراثیم کی وجہ سے ہوتا ہے، جو کسی جاندار کے جسم میں داخل ہو کر وہاں بسیرا کر لیتے ہیں۔ ملیریا کی کچھ علامات میں بخار، کپکپی، بار بار پسینہ آنا، سردرد، جسم درد، متلی اور اُلٹیاں شامل ہیں۔ کبھی کبھار یہ علامتیں 48سے 72 گھنٹے کے بعد دوبارہ ظاہر ہوتی ہیں اور ایسا بار بار ہوتا ہے۔ لیکن اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ مریض کو ملیریا کس طرح کے جراثیم سے ہوا ہے اور وہ کتنے عرصے سے اس مرض میں مبتلا ہے۔

ملیریا کیسے ہوتا ہے؟

ملیریا کے جراثیم ایک خاص قسم کی مادہ مچھر کے کاٹنے سے خون میں داخل ہوتے ہیں۔ جراثیم خون کے ذریعے جگر کے خلیوں میں داخل ہو جاتے ہیں، جہاں ان کی تعداد بڑھتی ہے۔ جب جگر کے خلیے پھٹتے ہیں تو ملیریا کے جراثیم خون کے سُرخ خلیوں میں داخل ہو جاتے ہیں۔

یہاں ان کی تعداد بڑھتی جاتی ہے۔ اور جب خون کے سُرخ خلیے پھٹتے ہیں تو ملیریا کے جراثیم دوسرے سُرخ خلیوں میں داخل ہو جاتے ہیں۔ یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہتا ہے۔ عموماً جب بھی خون کے سُرخ خلیے پھٹتے ہیں، ملیریا کی علامات ظاہر ہوجاتی ہیں۔

ملیریا سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

اگر آپ ایسے علاقے میں رہتے ہیں، جہاں ملیریا عام ہے تو ذیل میں دی گئی ہدایات پر عمل کریں:

٭ مچھردانی استعمال کریں۔

٭ مچھردانی پر مچھرمار دوا لگی ہو۔

٭ مچھردانی پھٹی اور سوراخ دار نہ ہو۔

٭ مچھردانی کے سرے پوری طرح سے بستر یا گدے کے نیچے گھسے ہوں۔

٭ اپنے گھر میں مچھرمار دوائی کا اسپرے کریں۔

٭ ہو سکے تو دروازوں اور کھڑکیوں پر جالی لگائیں۔ ایئر کنڈیشنر یا پنکھے استعمال کریں تاکہ مچھر بھاگ جائیں۔

٭ ایسی جگہوں پر نہ جائیں جہاں جھاڑیاں اور پانی جمع ہو کیونکہ وہاں مچھر منڈلاتے اور انڈے دیتے ہیں۔

٭ ملیریا ہونے کی صورت میں جلدازجلد اپنا علاج کروائیں۔

انسانوں میں ملیریا ان مچھروں سے منتقل ہوتا ہے، جن میں ملیریا کے جراثیم ہوتے ہیں۔ اسی طرح جب ایک مچھر کسی ایسے انسان کو کاٹتا ہے، جس میں ملیریا کے جراثیم ہیں تو جراثیم اس میں داخل ہو جاتے ہیں۔ پھر جب یہ مچھر کسی دوسرے انسان کو کاٹتا ہے تو اس انسان میں ملیریا کے جراثیم داخل ہو جاتے ہیں۔ اور یوں یہ چکر جاری رہتا ہے۔

اگر آپ ایک ایسے علاقہ میں جانے والے ہیں جہاں ملیریا عام ہے تو یہ معلوم کریں کہ اس علاقہ میں ملیریا کے کون سے جراثیم پائے جاتے ہیں کیونکہ ملیریا کی دوائی اس کے مطابق استعمال کرنی پڑتی ہے۔ اپنے ڈاکٹر سے بھی مشورہ لیں کہ آپ کے لیے ملیریا کی کون سی دوائی مفید رہے گی۔

ملیریا ہونے کی صورت میں جلدازجلد اپنا علاج کروائیں۔ یاد رکھیں کہ ملیریا کی علامات مچھر کے کاٹنے کے ایک سے چار ہفتے بعد تک ظاہر ہو سکتی ہیں۔

مزید حفاظتی تدابیر

٭ حکومت، صحت کے حوالے سے جو سہولیات فراہم کرتی ہے، ان سے بھرپور فائدہ اٹھائیں۔

٭ صرف معیاری دوائیاں استعمال کریں (ناقص یا جعلی ادویات سے مرض نہ صرف طول پکڑ سکتا بلکہ جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے)۔

٭ گھر میں اور اس کے اِردگِرد ان جگہوں کو ختم کریں جہاں مچھر انڈے دے سکتے ہیں۔

اگر آپ ایک ایسے علاقے میں رہتے ہیں، جہاں ملیریا عام ہے یا آپ حال ہی میں وہاں سے آئے ہیں تو ملیریا کی علامات کو نظرانداز نہ کریں۔ اگر ملیریا کا جلد علاج نہ کروایا جائے تو خون کی شدید کمی ہو سکتی ہے اور جان بھی جاسکتی ہے۔ اس سے پہلے کہ مریض کی حالت مزید بگڑ جائے، اس کا فوراً علاج کروایا جائے، خاص طور پر اگر وہ چھوٹا بچہ یا حاملہ عورت ہو۔

کیا آپ جانتے ہیں؟

حاملہ عورتوں اور بچوں کے لیے ملیریا زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ کچھ لوگوں کو خون لگوانے کی وجہ سے بھی ملیریا ہوا ہے۔

ملیریا کی ویکسین

گزشتہ سال کے وسط میں جاری ہونے والی آکسفورڈ یونیورسٹی کی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ اپنے ابتدائی مراحل میں 77 فیصد مؤثر ثابت ہونے والی ملیریا کی ایک ویکسین اس بیماری کے خلاف جنگ میں بہت بڑی کامیابی دے سکتی ہے۔ اس وقت ملیریا سے ہر سال چار لاکھ افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، ان میں افریقی صحرائے اعظم کے جنوبی علاقے (سب صحارن افریقا) سے تعلق رکھنے والے بچوں کی تعداد سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ تاہم، گزشتہ برسوں میں کئی قسم کی ویکیسنز کے استعمال کے باوجود کسی کو بھی اتنی کامیابی حاصل نہیں ہوئی جتنی کہ درکار تھی۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ نئی ویکسین کا صحت عامہ پر بہت اچھا اثر ہو سکتا ہے۔

اس جانچ کے نتائج طبی جریدے 'پری پرنٹس وِد دی لینسیٹ‘ میں شائع ہوئے ہیں جن کے مطابق R21/Matrix-M نامی ویکسین کی ایک برس تک آزمائش کے دوران یہ ملیریا کے خلاف 77 فیصد تک مؤثر رہی۔

اس طبی آزمائشی مرحلے میں پانچ ماہ سے 17 ماہ کی عمر کے درمیان کے 450 بچے شامل تھے۔ ان بچوں کو تین گروپوں میں تقسیم کیا گیا۔ پہلے دو گروپوں کو R21/Matrix-M ویکسین دی گئی جن میں سے ایک کو کم مقدار میں جبکہ دوسرے گروپ کو زیادہ مقدار میں یہ ویکسین لگائی گئی۔ تیسرا کنٹرول گروپ تھا جسے ملیریا کی اس ویکسین کی بجائے کتے کے کاٹنے سے ہونے والی بیماری ریبیز کی ویکسین دی گئی۔