کن مقامات پر نماز پڑھنا جائز نہیں؟

September 30, 2022

تفہیم المسائل

سوال: کن مقامات پر نماز پڑھنا جائز نہیں ہے ؟(محمد شاہد ، لاہور )

جواب: رسول اللہ ﷺ کے خصائص کے سبب اللہ تعالیٰ نے اُمّت ِ مصطفیٰﷺ کے لیے تمام روئے زمین کو پاک کردیا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ اور میرے لیے تمام روئے زمین کو مسجد اور پاک کرنے والی بنادیاگیا اورمیری اُمّت میں سے جو شخص کہیں بھی نماز کا وقت پائے، وہیں نماز پڑھ لے ،(صحیح بخاری: 438)‘‘۔

بعض مواقع پر حکمت اور بعض مقامات پر نماز کے تقدُّس کی خاطر رسول اللہ ﷺ نے چند مقامات پر نماز پڑھنے سے منع فرمایا :حدیثِ پاک میں ہے: ترجمہ: ’’حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے سات مقامات پر نماز پڑھنے سے منع فرمایا: کوڑے خانہ ،ذبح خانہ، قبرستان، عام گزرگاہ (شارع عام)، حمام ،مویشی خانہ اور بیت اللہ کی چھت، (سُنَن ترمذی :346)‘‘۔

ان میں سے بیت اللہ کی چھت پر نماز پڑھنے سے ممانعت کا سبب بیت اللہ کا ادب واحترام ہے ،شارع عام پر نماز پڑھنے کی ممانعت کا سبب عام لوگوں کے لیے دشواری پیدا ہونا اور لوگوں کے آنے جانے کے حق (حقِّ مُرُور)میں رکاوٹ بننا ہے ،قبرستان میں اگر قبر کی جانب رخ کرکے نماز پڑھی جائے (یعنی مقامِ سجدہ کے آگے قبر ہو ) تو بت پرستی سے مشابہت کی بناء پرحرام ہے اور باقی مقامات پر ناپاکی کا احتمال ہے اور وہاں پر نماز پڑھنا نماز کی تقدیس کے منافی ہے۔

اسی طرح کفار کے معبد اور اُن جگہوں پر جہاں عذاب نازل کیا گیا ، نماز پڑھنا مکروہ تحریمی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ نے باب باندھا :’’ بَابُ الصَّلاَۃِ فِی مَوَاضِعِ الخَسْفِ وَالعَذَابِ ‘‘ یعنی جس جگہ دھنسایا گیا ہو اور عذاب کی جگہ نماز پڑھنا۔ اس کے تحت تعلیق ذکر فرمائی: (۱)ترجمہ:’’ اور ذکر کیا جاتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بابل کی دھنسی ہوئی جگہ میں نماز پڑھنے کو مکروہ قرار دیا ‘‘،(صحیح بخاری،432)‘‘۔(۲)ترجمہ:’’ حجر بن عنبس حضرمی بیان کرتے ہیں: ہم حضر ت علی ؓ کے ساتھ نہروان کی طرف نکلے ، یہاں تک کہ بابل پہنچے تو نمازِ عصر کا وقت آگیا ،ہم نے کہا: نماز پڑھیے ،آپ خاموش رہے ،پھر ہم نے کہا: نماز پڑھیے ،آپ خاموش رہے ،جب آپ اس جگہ سے نکل گئے تو آپ نے نماز پڑھی اور فرمایا: میں اُس جگہ نماز نہیں پڑھ سکتا تھا، جسے تین بار زمین میں دھنسایا گیا ،(مُصَنّف ابن ابی شیبہ: 755)‘‘ (۳) ترجمہ:’’ عبداللہ بن ابی المحل بیان کرتے ہیں: حضرت علیؓ اُس جگہ نماز پڑھنے کو مکروہ قرار دیتے تھے جسے دھنسایا گیا ہو، (مُصَنّف ابن ابی شیبہ: 7557)‘‘۔ (۴)ترجمہ:’’ ابن ابی المحل بیان کرتے ہیں: حضرت علی ؓ بابل کی جانب سے گزرے تو آپ نے وہاں نماز نہیں پڑھی ، (مُصَنّف ابن ابی شیبہ:7558)‘‘۔

علامہ ابن عابدین شامی نے باب: ’’مَطْلَبُ تُکْرَہُ الصَّلَاۃُ فِی الْکَنِیسَۃِ:‘‘ قائم کیا ، اُس کے تحت لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ اس تعلیل سے کہ یہ شیطان کا محل ہے ،کفار کی عبادت گاہوں میں نماز کی کراہت اَخذ کی جاتی ہے ،کیونکہ یہ شیطان کی پناہ گاہ ہیں جیساکہ شوافع نے اس کی تصریح کی ہے اور جو علماء نے ذکر کیا ہے ، اس سے ہمارے نزدیک اَخذ کیا جاتا ہے ۔ ’’البحر‘‘میں کتاب الدعویٰ میں ’’کنز ‘‘ کے قول :’’‘‘کے تحت تتار خانیہ میں ہے: مسلمان کے لیے بیعہ اور کنیسہ میں دخول مکروہ ہے، یہ اس لیے مکروہ ہے کہ یہ شیاطین کے جمع ہونے کی جگہیں ہیں ،اس حیثیت سے نہیں کہ اس کے لیے دخول کا حق نہیں ہے ۔ ’’البحر ‘‘ میں فرمایا: ظاہر یہ ہے کہ یہ مکروہ تحریمی ہے، کیونکہ جب مطلق بولا جائے تو فقہاء اس سے مکروہ تحریمی مراد لیتے ہیں۔ میں نے اس مسلمان کو تعزیر لگانے کا حکم دیا جویہود کے ساتھ ہمیشہ کنیسہ میں جاتا ہے ۔ جب دخول حرام ہے تو نماز بدرجہ اَولیٰ حرام ہوگی ،اس سے اس کی جہالت ظاہر ہوگی ،جو نماز کی خاطر کفار کے معبد میں داخل ہوتا ہے ،(حاشیہ ابن عابدین شامی ، جلد2، ص:559-60، دمشق)‘‘۔

فتح بیت المقدس کے موقع پر نصاریٰ کے مذہبی رہنماؤں نے حضرت امیرالمومنین عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو کنیسہ میں نماز پڑھنے کی دعوت دی ، مگر آپ نے وہاں نماز پڑھنا پسند نہ کیا اور دوسری جگہ جاکر نماز پڑھی تاکہ بعد میں لوگ اسے نظیر نہ بنالیں ۔خلاصۂ کلام یہ ہے :

(1)جن مقامات پر ماضی کی اَقوام پر عذاب آیا ،وہ مقامات نشانِ عبرت ہیں ، وہاں اُن اقوام کے انجام سے عبرت حاصل کی جائے اور نہ بلا ضرورت رکا جائے اورنہ عبادت کی جائے۔

(2) یہودیوں کی عبادت گاہ بیعہ وکنیسہ میں عبادت نہ کی جائے ،کیونکہ بالعموم وہ ناپاک ہوتے ہیں، وہاں شراب پی جاتی ہے ،وہاں مُجسمے اور تصاویر بھی ہوتی ہیں اور ایسی جگہ نماز پڑھنا منع ہے۔ یورپ اور امریکہ میں مسلمان چرچ خرید کر اُسے پاک صاف کرکے اور اپنی ضرورت کے مطابق اس میں رَد وبدل کرکے مسجد یا جائے نماز بنالیتے ہیں، یہ جائز ہے، اِسی طرح چرچ کے کسی ہال کو کرائے پر لے لیتے ہیں اور وہ مسلمانوں ہی کے استعمال میں رہتا ہے، اسے اپنی ضرورت کے مطابق ڈھال لیتے ہیں اور اس میں نماز پڑھتے ہیں، یہ جائز ہے ،کیونکہ اس میں اگر تصاویر اور مجسمے وغیرہ ہوں تو ہٹادیتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے بھی فتح مکہ کے وقت بیت اللہ کو کفار مکہ کے دور کی تصاویر اور مجسموں سے پاک کردیا تھا۔

(3)اگر یہود ونصاریٰ کی عبادت گاہوں میں قبلہ رُخ یا چھت پر یا دائیں بائیں بدستور مُجسمے اور تصاویر ہوں تو وہاں نماز پڑھنا مکروہ تحریمی ہے، اگر پڑھ لی ہو تو نماز ہوجائے گی ، لیکن واجب الاعادہ ہے۔