مفتی رفیق احمد بالاکوٹی
مذاہب اور مسالک کے درمیان ہم آہنگی، دورِ جدید کی وہ ضرورت ہے، جس کا احساس ہر دور میں زندہ رہا ہے۔ ہم اس موضوع پر آگے بڑھنے سے قبل ’’ہم آہنگی‘‘ کا مفہوم سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، یہ لفظ فارسی ترکیب کے مطابق ایک دوسرے کے لیے دل و دماغ میں جگہ پیدا کرنے کا نام ہے، بالفاظِ دیگر ایک دوسرے کے لیے اپنے رویّے اور عمل میں عدم برداشت کی بجائے برداشت، تصادم کی بجائے تعاون، تشدد کی بجائے تحمل سے کام لینے کا عنوان ہے۔ ہم آہنگی کو عربی زبان میں ’’مدارات‘‘ سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔
ضرورت و اہمیت:۔ہم آہنگی کا دائرہ یوں تو انسانی زندگی کے کسی بھی شعبے میں تناؤ آمیزی کو معمول پر لانے اورباہمی رویوں کے عدمِ توازن کو متوازن بنانے کے لیے مطلوب سمجھا جاتا ہے، مگر مذہبی شناختوں کے حوالے سےاس کی اہمیت اور ضرورت کا احساس و اِدراک سنجیدہ طبقات کو ہمیشہ رہا ہے اور موجودہ زمانے میں اوّلاً مختلف مذاہب کے درمیان اور پھر اسلامی مسالک کے درمیان ہم آہنگی کی جتنی ضرورت ہے، اِسے اس دور کے اہم تقاضوں میں سمجھنا چاہیے، اس لیے کہ اس وقت انسانی دنیا‘ مذہبی حوالے سے دو طرح کے تصادم یا تناؤ کی زد میں ہے:
پہلا تناؤ مذہبیت اور لا مذہبیت کے درمیان ہے۔ اس وقت لامذہبیت اور دہریت، انسانیت کو ہر قسم کے دین و دھرم سے دور کرنے یا ہر قسم کی آسمانی، اخلاقی اور اقداری تعلیمات سے محروم کرنے پر تلی ہوئی ہے اور لامذہبیت کا یہ فتنہ مذہبیت کو بری طرح اپنا نشانہ بنائے ہوئے ہے، چنانچہ من حیث المذہب تمام مذاہب کے علمبرداروں سے دورِ جدید کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اپنی اپنی اقوام کو کم از کم دہریت و لا مذہبیت کے شکنجے سے کیسےبچائیں؟
کیوں کہ ہم تمام مذاہب والے اپنی اپنی متعین اقدار کو سامنے رکھتے ہوئے ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھ کر انسانیت کی اچھی طرح خدمت کرنا چاہیں تو یہ نسبۃً آسان ہے، جب کہ لا مذہبیت جو غیر اقداری رویہ یا روش ہے، اس کے ساتھ ہم آہنگی کے لیے کوئی تھیوری یا ایسا فارمولا سامنے رکھنا مشکل ہے، جس کی بنیاد پر ہم انسانیت کو حیوانی اقدار کے حوالے ہونے سے بچاسکیں، اس لیے لامذہبیت کے مقابلے میں تمام مذاہب والوں کا اپنی اپنی اقدار کی پاسداری کے ساتھ مشترکات و مسلّمات کے لیے مل بیٹھنا، اس وقت تمام مذاہب کی ضرورت ہے اور تمام مذاہب کے زعما ءکی ایک طرح سے ذمہ داری بھی ہے۔
اسی طرح اگر ہم اسلام سے نسبت رکھنےوالے مسالک کی طرف آ جائیں تو بین المسالک ہم آہنگی توبین المذاہب ہم آہنگی کےمقابلے میں زیادہ ضروری معلوم ہوتی ہے، کیوں کہ لامذہبیت اور مذہبیت کے شدید عالمی تناؤ سے بڑھ کر اس وقت انسانیت، دنیائے کفر اور دنیائے اسلام کے دو مذہبی تصادم، عد م برداشت اور غیر متوازن رویوں کی زد میں ہے۔
کون نہیں جانتا کہ دنیائے کفر، اسلامی دنیا کے معاملے میں تاریخ کے بدترین اسلامو فوبیا کا شکار ہے، وہ تمام اسلامی مسالک کو محض مسلمان کہلانے کی وجہ سے ہر قسم کی معاشی، معاشرتی، میڈیائی اور مسلح جنگ کی زد میں رکھے ہوئے ہے۔ دنیائے کفر اپنے اس ظالمانہ رویّے میں ہماری داخلی تفریقی شناختوں کی کوئی تفریق نہیں کرتی۔
مغربی دنیا‘ اہلِ اسلام کو نشانہ بناتے ہوئے شیعہ سنی کی تفریق کرتی ہے، نہ مقلّدوغیر مقلّد کی تقسیم سے اُسےکوئی غرض ہے اور نہ ہی دیوبندی یا بریلوی کی تمییز اس کے لیے امتیاز کا ذریعہ ہے، وہ ہمیں بلا امتیاز اپنالقمۂ تر بنانے کے لیے مصروفِ عمل ہے، اس لیے دورِ جدید کا ہنگامی اور لازمی تقاضا ہے کہ اسلام سے نسبت رکھنے والے تمام مسالک اپنی اپنی مسلکی شناختوں کو تھامتے ہوئے اسلام دشمن قوتوں کے سامنے وحدت اور ہم آہنگی کا بہترین مظہر بن جائیں اور یہ تسلیم کر لیں کہ جو مذہب اسلام کو غیر اسلامی مذاہب کے ساتھ مشترکات ومسلّمات پر مل بیٹھنے کی تلقین کرتا ہے، اس مذہب کے اپنے پیروکار کفر کے مقابلے میں دفاعِ اسلام اور اپنے تحفظ کے لیے اکٹھے کیوں نہیں ہو سکتے؟
بلکہ تمام مسالک کے ماضی کے اکابر نے ہمیشہ مشترکات و مسلمات پر اکٹھے ہونے کی بہترین مثالیں چھوڑی ہیں، جن میں تحریکِ پاکستان، تحریکِ آئین سازی، تحریکِ ختم نبوت کے مختلف ادوار، متحدہ مجلس عمل، اتحادِ تنظیماتِ مدارسِ دینیہ اور پیغامِ پاکستان جیسے مسلکی وقومی اتحاد ہمارے سامنے ہیں۔
ہمارے اکابر کے درمیان اس قسم کے اتحاد ہمیں یہ درس دیتے ہیں کہ ہمارا مسلکی تنوع ہرگز تصادم کا باعث نہیں ہے، بلکہ عدم برداشت پر مبنی تحزّب (گروہ بندی) ہمارا المیہ ہے، اس لیے دورِ جدید کا تقاضا ہے کہ ہم ایک دوسرے کے لیے عدم برداشت کے رویوں سے بالاتر ہوں اور مشترکات و مسلمات کے لیے ہم آہنگی کے فروغ کی بہترین مثال بنیں۔ فی زمانہ اسے اسلام کا بنیادی تقاضا بھی کہہ سکتے ہیں۔
اسلامی تعلیمات اور ہم آہنگی:۔ آئیے! ہم بین المذاہب اور بین المسالک ہم آہنگی کے لیے چند بنیادی اسلامی تعلیمات سے استفادہ کرتے ہیں:ـ
الف- مذہبی اختلافات کے باوجود، مسلمات و مشترکات پر اتفاقِ رائے و عمل قرآنی حکم ہے: ’’آپ فرما دیجیےکہ اےاہل کتاب! آؤایک ایسی بات کی طرف جو کہ ہمارے اور تمہارے درمیان (مسلم ہونے میں) برابر ہے۔‘‘(سورۂ آل عمران:۶۴) ’’غیر مسلموں کے ساتھ مدارات سے رہیں۔‘‘(لمعات التنقيح شرح مشکاۃ المصابيح:۸/۳۷۱، ط: دار النوادر)
ب- تمام مذاہب کے مقدسات کا احترام کیا جائے:
’’جب تمہارا سامنا کسی قوم کے عزت دار سے ہو تو اسے عزت دو۔‘‘(شعب الايمان)
ج- ایک دوسرے کے ساتھ تعامل میں تمام مذاہب کے تقدس کی پاسداری کے ساتھ ساتھ انسانی تعظیم و تکریم کو بھی ملحوظ رکھا جائے، کسی بھی موقع پر مذہب کے اختلاف اور تفاوت کی وجہ سے نفسِ انسانیت کا اشتراک واحترام متاثر اور فراموش نہیں ہونا چاہیے :’’اورہم نے آدم کی اولاد کو عزت دی۔‘‘ (سورۃ الاسراء:۷۰) ’’ساری انسانیت آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں اور آدم علیہ السلام مٹی سے پیدا شدہ ہیں۔‘‘(سنن الترمذي:۵/۷۳۴)
د- مذہب و مسلک کی بنیاد پر اشتعال انگیزی سے اجتناب کو یقینی بنایا جائے، معارضے ومقابلے کے موقع پر مذہبیات اور مذہبی شخصیات کے درمیان توہین آمیز تقابل نہ کیا جائے:’’اور دشنام مت دو ان کو جن کی یہ لوگ خدا کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہیں، پھر وہ براہِ جہل حدسے گزر کر اللہ تعالیٰ کی شان میں گستاخی کریں گے۔‘‘(سورۃ الانعام:۱۰۸)
ھ- ایک دوسرے کی توہین و تحقیر کا عمل صراحۃً تو درکنار، اشارات، کنایات اور موہوم کلمات کے ذریعے بھی نہ کیا جائے، بلکہ ایک دوسرے کا تذکرہ ایسے غیر مبہم الفاظ میں کیا جائے جس سے غلط فہمی جنم نہ لے سکے:’’اےایمان والو! تم (لفظ) ’’رَاعِنَا‘‘ مت کہا کرو اور ’’اُنْظُرْنَا‘‘ کہہ دیا کرو۔‘‘(سورۃالبقرۃ:۱۰۴)
و- ہمارے باہمی اختلافات، بلا شبہ ایک حقیقت ہیں، مگر ان اختلافات کو عام مجامع، شاہراہوں، چوراہوں اور بازاروں میں عام کرنے، بیان کرنے اور پھیلانے سے اجتناب کیا جائے اور پوری امانت و دیانت کے ساتھ اپنے اپنے مخصوص حلقوں میں تعلیم گاہوں تک محدود رکھا جائے، تاکہ گروہی تصادم کا فتنہ جنم نہ لے سکے، ایسے فتن کی روک تھام اور سدِّباب مذہبی پیشواؤں کی ذمہ داری ہے: ’’اور فتنہ قتل سے زیادہ سخت ہے۔‘‘(سورۃالبقرۃ:۱۹۱)’’لوگوں کے سامنے صرف وہی چیزیں بیان کریں جو وہ اِدراک کرسکیں۔‘‘(صحيح البخاری:۱/۵۹)’’(قربِ قیامت میں اپنے فرائض سے غافل اس امت کے) علماء آسمان کی چھت کے نیچے بدترین لوگ کہلائیں گے اورفتنہ کا اول آخر وہی ہوں گے۔‘‘(شعب الايمان:۳/۳۱۸)
ز- مختلف مذاہب ہوں یا ایک مذہب کے متنوع مسالک، ان کے درمیان ہم آہنگی، پرامن بقائے باہمی، خیال داری، صبر و تحمل، دوراندیشی، وسعتِ ظرفی اور حلم و بردباری سیکھنے اور سمجھنے کے لیے آقائے نامدارﷺکی سیرتِ طیبہ کے وہ معاہداتی پہلو سامنے رکھے جائیں جو آپ ﷺ نے اپنے دور کے مذہبی و فکری مخالفین کے ساتھ پیش فرمائے تھے۔
اس سلسلے میں سب سے نمایاں تین معاہدات و مواثیق ہیں: سب سے پہلا نمایاں معاہدہ میثاقِ مدینہ ہے جو آپ ﷺاور یہودِ مدینہ کے درمیان پرامن بقائے باہمی کے لیے طے پایا تھا۔ دوسرا معاہدہ اہلِ مکہ کے ساتھ ہوا تھا، جسے صلح حدیبیہ کا عنوان حاصل ہے۔ اس معاہدے میں مخالفین کی وقتی ترجیحات کو آپ ﷺ نے ایسی دور اندیشی سے قبول فرمایا کہ جسے اللہ تعالیٰ نے ’’فتح مبین‘‘ قرار دیا اور فتح مکہ کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔
جب کہ تیسرا اور بڑا معاہدہ نجران کے نصاریٰ کے ساتھ ہوا تھا، یہ معاہدہ ان تمام معاہدات میں سب سے تفصیلی ہے، بلکہ یوں کہنا بجاہےکہ کسی بھی اسلامی ریاست کے زیر نگین غیر مسلم اقوام کے لیے مفصل میثاقِ امن کا درجہ رکھتا ہے۔ اس معاہدے میں نصاریٰ نجران کے لیےمذہبی ، سماجی، قانونی اور ضروری انتظامی حقوق، بطورِ خاص متعین فرمائےگئےتھے: مثلاً کسی بھی مذہب کی بنیاد اس کاعقیدہ ہوتاہے، اہلِ نجران کواعتقادی تحفظ حاصل تھاکہ انہیں ان کے عقائد کے معاملے میں کسی قسم کی تشویش سے دوچار نہیں کیا جائے گا۔
٭ اسی طرح ان کی عبادت گاہوں کومکمل تحفظ بخشا گیا تھا۔٭ نیز ان عبادت گاہوں میں اپنے عقیدہ وعمل کے مطابق مصروفِ عبادت لوگوں سے بھی عدمِ تعرض کی تلقین کی گئی تھی، اسی طرح ان کے اپنے دینی مناصب کے حامل افراد اور انتظامی عہدیداروں کوبرقرار رکھنے کے احکامات شامل تھے۔
٭ مزید یہ کہ اپنے مذہبی مناصب کے ذمہ داروں کے تعین وتقررمیں انہیں مکمل آزاد چھوڑا گیا تھا۔٭ اسی طرح ان کی عزت وآبرواور جان ومال کی حفاظت مدنی ریاست کے فرائض میں شمار کی گئی تھی۔٭ مزید برآں خیبر کے موقع پر یہود کی شرارتوں کے باوجود نبی کریمﷺ نے یہود کو مالی تحفظ فراہم کیا تھا: ’’خبردار! عہد وپیمان والے لوگوں کا مال ناحق ہتھیانے کو میں حلال قرار نہیں دیتا۔‘‘ (مسند أحمد، ج:۲۸، ص: ۱۶، ط: الرسالۃ) ( … جاری ہے… )