• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تفہیم المسائل

سوال: ایک شخص اپنی زوجہ سے مذاقا ً یہ کہتا ہے: ’’ آپ صبح سے کر کیا رہی ہیں جو تھک گئی ہیں، نیند غالب ہے، صبح سے آپ فارغ ہیں ‘‘۔ یہ سن کر زوجہ نے ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ’’ہاں! میں صبح سے فارغ ہوں، میں تو فارغ ہی ہوتی ہوں ‘‘۔ 

شوہر نے پھر کہنا شروع کر دیا: ’’ آپ تو فارغ ہیں، فارغ ہیں‘‘، اس لفظ کے کہتے وقت شوہر کے ذہن میں یہ بات آئی کہ فارغ کا معنی طلاق بھی ہوتا ہے، اس معنی کہ (فارغ کا مطلب طلاق ہوتا ہے) کی طرف توجہ جانے کے باوجود شوہر زوجہ سے کہتا رہا: آپ تو فارغ ہیں، حالانکہ شوہر نے یہ الفاظ طلاق کی نیت سے نہیں کہے، طلاق کی کوئی نیت نہیں تھی، بس الفاظ کہتے وقت معنیٰ طلاق ذہن میں جاری تھے، جیسے ہم کسی لفظ کا ذکر کرتے ہیں تو اس کا تصور بھی ہمارے ذہن میں آجاتا ہے۔ پوچھنا یہ ہے کہ اس صورت میں کیا طلاق واقع ہو جاتی ہے یا نہیں؟( عثمان بن عبد اللہ)

جواب: صورتِ مسئولہ میں آپ نے بیوی سے کہے جانے والے جو مکالمات درج کیے، اُس میں کہیں طلاق کا ذکر نہیں اور نہ ہی طلاق کے بارے میں کوئی بات چل رہی تھی، شوہر کی طلاق کی نیت بھی نہیں تھی، پس ان الفاظ سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی اور رشتۂ نکاح بدستور قائم ہے۔ 

اگر طلاق کی نیت ہویا مذاکرۂ طلاق ہو، تو اس سے ایک طلاقِ بائن واقع ہو جاتی ہے، تنویر الابصار مع الدرالمختار میں ہے: ترجمہ: ’’ فقہاء کے نزدیک کنایہ ٔطلاق سے مراد (ایسا لفظ بولنا) ہے جو طلاق کے لیے وضع نہ ہوا ہو اور وہ طلاق اور غیر طلاق دونوں معنوں کا احتمال رکھتا ہو۔

پس کنایہ کے الفاظ سے صرف دو صورتوں میں طلاق کا حکم لگایا جائے گا :(۱)یہ کہ شوہر نے طلاق کی نیت سے یہ لفظ بولا ہو ،(۲)یا دلالتِ حال اِس پر شاہد ہو کہ یہ لفظ طلاق کی نیت سے بولا گیا ہے، (ردّالمحتار علیٰ الدرالمختار، جلد4، ص:396)‘‘۔

تاہم آئندہ اس طرح کے جملے ادا کرنے سے گریز کریں، مزاح اور خوش طبعی کے لیے مناسب جملوں کا استعمال کرسکتے ہیں، جب آپ یہ جانتے ہیں کہ یہ الفاظ طلاق کے لیے بھی استعمال ہوتے ہیں، تو الفاظ کے چناؤ میں احتیاط برتنا چاہیے ۔( واللہ اعلم بالصواب)