تفہیم المسائل
سوال: کسی مخیر شخص نے ایک مسجد میں عمدہ قالین وقف کیے، مسجد انتظامیہ کے دو ممبران نے اپنی من مانی کرکے وہ قالین کسی دوسری مسجد کو کم قیمت پر فروخت کردیے، واضح رہے کہ جس مسجد کے لیے قالین وقف کیے گئے تھے، وہاں اب بھی اُن کی ضرورت ہے، کیا ان کا یہ عمل شرعاً جائز ہے؟(مولانا جہانگیر نقشبندی ، کراچی)
جواب: وقف کے متعلق حکم یہ ہے کہ اُسے نہ تو بیچا جاسکتا ہے، نہ ہبہ کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی اُس میں وراثت جاری ہوتی ہے، علامہ نظام الدین رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ترجمہ: ’’ پس (وقف) لازم ہوجاتا ہے، نہ تو اُسے بیچا جاسکتا ہے، نہ ہبہ کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی اُس میں وراثت جاری ہوتی ہے، ہدایہ میں اسی طرح ہے، (فتاویٰ عالمگیری، جلد2ص:350)‘‘۔
مسجد کے لیے خریدی ہوئی یا وقف اشیاء کو اسی مسجد میں استعمال کیا جانا ضروری ہے، بغیر ضرورت قابلِ استعمال چیزوں کو تبدیل نہیں کرنا چاہیے، البتہ اگر اب اس چیز کی ضرورت نہ رہے اور رکھنے کی صورت میں اس کے ضائع ہونے کا اندیشہ ہو تو اُسے بازاری قیمت کے مطابق فروخت کرکے اس کی رقم اسی مسجد کی ضروریات میں خرچ کی جاسکتی ہے۔
ہمارے فقہاء نے مسجد کے پرانے اور بوسیدہ سامان کے فروخت کرنے یا کسی دوسری مسجد کو دینے کی اجازت صرف اسی صورت میں دی ہے کہ جب اُن کی اُس مسجد میں ضرورت نہ رہے یا قابلِ استعمال نہ رہیں، علامہ زین الدین ابن نجیم حنفی لکھتے ہیں: ترجمہ: ’’ چٹائیاں اور قندیلیں، جن کی مسجد کو ضرورت نہ رہے، تو امام ابو یوسف رحمہ اللہ کا صحیح مذہب یہ ہے کہ وہ دینے والے کی ملک کی طرف نہیں لوٹیں گی، بلکہ کسی دوسری مسجد کو دے دی جائیں گی یا یہ کہ متولّیِ مسجد اُنہیں فروخت کرکے مسجد کے کام میں صرف کردے ،(البحر الرائق ، جلد 5، ص:381،ص:421 )‘‘۔
آپ نے سوال میں لکھا : ’’ واضح رہے کہ جس مسجد کے لیے قالین وقف کیے گئے تھے، وہاں اب بھی اُن کی ضرورت ہے ‘‘، اگر مذکورہ قالین ناقابلِ استعمال یا بوسیدہ ہوتیں یا مسجد میں ان کی ضرورت باقی نہ رہتی، تب بھی بازاری قیمت سے کم پر فروخت کرنا تَعدّی (اختیارات وحدود سے تجاوزکرنا) ہے، اس کم قیمت کا تاوان دونوں ممبران کے ذمے لازم ہوگا اور اگر پوری انتظامی کمیٹی کی اجازت سے قالین فروخت کیے گئے ہیں، تو سب اس ذمے داری میں برابر کے شریک ہیں اور سب کو تاوان دینا ہوگا۔
غرض بیان کردہ صورت کے مطابق مذکورہ مسجد کی کمیٹی کے دو ممبران کا یہ عمل شریعت کے خلاف ہے، وہ اس پر گناہ گار ہیں اور اگر باہمی رضامندی سے وہ سودا فسخ ہوسکتا ہے تو فبہا، ورنہ ان ممبران کو اُسی کوالٹی اور قیمت کے نئے قالین خرید کر اُس مسجد میں ڈالنے ہوں گے یا اُن کی بازاری قیمت جمع کرانی ہوگی۔
واضح رہے کہ اگر قالین واقعی عمدہ حالت میں تھا، تو اس کے فروخت کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے، یہ جواب سائل کی بیان کردہ صورتِ مسئلہ کی صداقت پر منحصر ہے ۔( واللہ اعلم بالصواب )