• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مزارعت میں زمین کے مالک کو چھٹا حصہ دینے کا معاہدہ

(گزشتہ سے پیوستہ)

تفہیم المسائل

علامہ برہان الدین ابوالحسن علی بن ابو بکر الفرغانی لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ فتویٰ امام ابو یوسف اورامام محمد رحمہما اللہ کے قول پر ہے، کیونکہ لوگوں کو مزارعت کی حاجت ہے اور تمام اُمّت کا مزارعت پرعمل ہے اور تَعامل کے مقابلے میں قیاس ترک کردیاجاتا ہے جیسا کہ استصناع یعنی آرڈر پر چیزیں بنوانے کا عقد ہے، (ہدایہ، جلد4،ص:337)‘‘۔

اس عبارت کا مستفاد یہ ہے کہ مزارعت اپنی حقیقت کے اعتبار سے ایک غیر موجود چیز کا عقد ہے، جو اصولاً جائز نہیں ہے، لیکن چونکہ لوگوں کو اس کی ضرورت ہے اور اس پر تَعامل بھی ہے، یعنی یہ مسلمانوں کے درمیان رائج ہے، اس لیے تعامل کی بناپر قیاس کو چھوڑ ا جاسکتا ہے، جیسے آرڈر پر چیزیں بنوائی جاتی ہیں کہ عقد اب ہورہا ہے اور چیز بعد میں بنے گی، مگر یہ ایسی جہالت ہے جو باعثِ نزاع نہیں بنتی ،کیونکہ مصنوع کی مقدار، سائز اور معیار پہلے سے طے کرلی جاتی ہے، اس طرح جب زمینی پیداوار تیار ہوکر سامنے آجاتی ہے، تو کوئی نزاع نہیں رہتا، بس اتنا خیال رہے کہ معاملات میں دیانت وامانت کے اصولوں کی پاس داری ہو، علامہ علاء الدین کاسانی حنفی لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ جو مقدار ہے، اس کا معلوم ہونا ضروری ہے، مثلاً: نصف یا تہائی یا چوتھائی یا اس کی مثل (یاجوبھی تناسب فریقین کے اتفاقِ رائے سے طے ہو)، (بدائع الصنائع، جلد6،ص:177)‘‘۔ آپ نے اپنے سوال میں جو صورت ذکر کی ہے کہ مزارع زمین کے مالک کو منافع کا چھٹا حصہ دیتا ہے ، یہ جائز ہے اور اسی کو عقدِ مزارعت کہتے ہیں۔