سائفر کہانی: مزید سنگین

October 03, 2022

سائفر آڈیو لیکس کے معاملے پر عمران خان اور دیگر افراد کیخلاف آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت کارروائی کا فیصلہ کرنے کا اعلان گزشتہ روزمسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں نے ایک پریس کانفرنس میں کیا ۔میڈیا کے نمائندوں کو بتایا گیا کہ یہ معاملہ پارلیمنٹ میں لے جایا جائے گا اور اتحادی جماعتوںکے تعاون سے اس کے اگلے مراحل طے کیے جائیں گے۔اس پیش رفت سے واضح ہے کہ چھ ماہ پہلے شروع ہونے والی یہ کہانی اب نہایت سنجیدہ موڑ پر پہنچ گئی ہے اور معاملہ اس سے کہیں زیادہ سنگین ہے جتنا اب تک سمجھا جارہا تھا۔فی الحقیقت قومی سیاست پچھلے کئی ماہ سے جس نوعیت کی صورت حال سے گزر رہی ہے، ساڑھے سات دہائیوں پرمشتمل ملکی تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں اپنی حکومت کے خاتمے سے چند روز پہلے عمران خان نے ایک عوامی اجتماع میں ایک کاغذ لہرا کر دعویٰ کیا کہ یہ ایک بڑے ملک کی طرف سے جس کاامریکہ ہونا بھی انہوں نے واضح کردیا، ان کی حکومت کے جاری رہنے کی صورت میں پاکستان کے خلاف دھمکیوں پر مشتمل خط ہے ۔ تاہم قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاسوں میں جو اس معاملے پر خود عمران دور حکومت میں بھی ہوئے اور اس کے بعد بھی ، تمام خفیہ اداروں نے ایسی کسی سازش کی تردید کی۔ کئی ماہ تک اسی بنیاد پر احتجاجی تحریک چلانے کے بعد رفتہ رفتہ خود عمران خان نے بھی امریکی سازش کے موقف پر اصرار ترک کردیا اور ایک سیاسی لیڈر کی حیثیت سے امریکہ سے اپنے تعلقات کی بحالی کی تدابیر شروع کردیں۔ تاہم پچھلے چند روز میں دو ایسی آڈیو کلپس سوشل میڈیا کے توسط سے منظر عام پر آئی ہیں جن میں عمران خان اور ان کے ساتھیوں کی بات چیت سے واضح ہے کہ اس سفارتی مراسلے میں تبدیلیاں کرکے اسے اپنی حکومت کے خلاف سازش کا ثبوت بنایا گیا ۔ عمران خان آڈیو کلپس میں اس بارے میں ہدایات دیتے ہوئے صاف سنے جاتے ہیں اور وہ خود بھی یہ نہیں کہتے کہ یہ آڈیو جعلی ہے ۔انہوں نے اس ضمن میں صرف وزیر اعظم ہاؤس کی سیکورٹی پر تشویش ظاہر کی ہے۔ جس چیز نے معاملے کو مزید سنگین بنادیا ہے وہ اِس سائفر کا جو اس پوری کہانی کی بنیاد ہے ،وزیر اعظم کے دفتر سے غائب ہوجانا ہے ۔مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کے مطابق عمران خان خود ایوان وزیراعظم سے رخصت ہوتے ہوئے یہ سائفر چھپا کر اپنے ساتھ لے گئے تھے اور خود سابق وزیر اعظم نے بھی گزشتہ روز ایک ٹی وی چینل کو دیے گئے انٹرویو میں تسلیم کیا ہے کہ یہ سفارتی مراسلہ ان کے پاس تھا لیکن نہ جانے کہاں چلا گیا۔اتنی اہم دستاویز کا خود عمران خان کے قبضے سے غائب ہوجانا یقینا ایک نہایت معنی خیز معاملہ ہے۔ یہ سائفر اپنی اصل شکل میں دستیاب ہوجائے تو پتا چل سکتا ہے کہ سابق وزیر اعظم کی ہدایت پر اس میں کیا تبدیلیاں کی گئیں اور یوں پوری مبینہ جعل سازی بے نقاب ہوسکتی ہے۔لہٰذا یہ گمان وزن رکھتا ہے کہ سائفر کو غائب کرنے کی کارروائی دانستہ کی گئی ہے جس سے ان شبہات کو مزید تقویت ملتی ہے کہ یہ سب کچھ بدنیتی کے ساتھ کیا گیا اور یہ سوچی سمجھی جعلسازی تھی ۔اس طرح سائفر کہانی اب اس جگہ آپہنچی ہے کہ اس کی مکمل تحقیقات کرکے اس کے ذمے داروں کو قانون کی گرفت میں نہ لایا گیا تو یہ رویہ آئین مملکت سے انحراف اور قوم و ملک کے مفادات سے بے وفائی قرار پائے گا اور خود موجودہ حکمراں مجرم سمجھے جائیں گے۔اس لئے ضروری ہے کہ حکومت انصاف کے تمام تقاضوں کو آخری حد تک ملحوظ رکھتے ہوئےسائفر کے معاملے کو منطقی انجام تک پہنچائے ۔ عمران خان بھی اگر خود کو حق بجانب سمجھتے ہیں تو انہیں قانونی کارروائی میں مکمل تعاون کرنا چاہئے اور عدالت میں خود کو بے گناہ ثابت کرکے اپنے دامن پر لگے شکوک و شبہات کے داغوں کو صاف کرنے کے موقع سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔