ساہیوال کی سنہری سرزمین اور تاریخ پاکپتن

October 03, 2022

چند دن پہلے احمد خاور شہزاد اور عارف برلاس مجھے ملنے آئے اور روحانی و تہذیبی اسرار کی گتھیاں سلجھاتی بہت ہی خوبصورت کتاب عنایت کرتے ہوئے اس حوالے سے ساہیوال میں سجائی گئی محفل میں شرکت کی دعوت دی۔ نہ جانے کیسا لمحہ تھا میں نے بغیر اپنا شیڈول دیکھے بے دھیانی میں شرکت کا اقرار کر لیا۔ بعد میں کئی دن سوچتی رہی مگر سِرا ہاتھ تب آیا جب میں نے کتاب پڑھنی شروع کی۔ خصوصاً صاحبِ کتاب کا تعارف نظر سے گزرا۔ ’’تاریخِ پاکپتن‘‘ ایک عمدہ تحقیقی تصنیف ہے۔ پاکپتن کے تعارف اور مقبولیت پر عظیم ولی اور صوفی شاعر بابا فرید کا ذکر اور دربار حاوی رہا ہے۔ پہلی بار دلکش اور مؤثر انداز میں بابا فرید کے خصوصی ذکر کے ساتھ میاں اللہ بخش طارق نے اس دھرتی کے مذہبی، روحانی، معاشی، معاشرتی اور سیاسی پہلو زیر بحث لا کر ایسا جامع منظر نامہ پیش کیا ہے جو تاریخ اور تصوف کے طالب علم کے لئے گراں قدر حیثیت اور رہنمائی کا حامل ہے۔ اس کتاب کے مطالعہ سے یہ راز آشکار ہوا کہ اس قدیمی سرزمین کے ماتھے پر فخر و افتخار کے کئی بورڈ آویزاں ہیں جن سے صرفِ نظر کرنا اہلِ علم کو زیب نہیں دیتا۔ تاریخ پاکپتن کے پانچ ابواب ہیں جن میں قبل از اسلام یہاں کے حالات، اہم مقامات، اسلامی دور کا آغاز، عہد سلاطین میں بابا فرید کی ولادت سے نئی شروعات، سیاسی و روحانی شخصیات کی پاکپتن حاضری، منگولوں کے حملے، مغلیہ اور فرنگی عہد میں پاکپتن کی حالت اور قیام پاکستان کے بعد سے اب تک ہونے والی ترقی اور تنزلی کی مکمل داستان موجود ہے۔ پاکستان کے اس قدیم ترین شہر اور تہذیب کے روشن اور منہدم ہوتے رنگ اجاگر کر کے فکر کرنے والوں کی توجہ کو آواز دی گئی ہے۔ مختلف تہذیبوں کے جنم لینے، ایک دوسرے میں ضم ہونے، بننے سنورنے اور مٹنے کا احوال بھی شامل ہے۔ تحریر میں ناول کا سا مزہ اور کہانی کا سا رنگ ہے جو قاری کے اشتیاق کو بڑھاتا ہوا آخری صفحے تک لے جاتا ہے۔ اس کا حاصل ایک سادہ سا پیغام ہے کہ اجودھن کو پاکپتن میں ڈھلنے کے لئے کسی روحانیت اور انسانیت کے علمبردار فرید کے مہربان لمس کی ضرورت ہوتی ہے جس کے وجود میں گنج شکر بھرے ہوتے ہیں، جو زمین اور ہوا میں سرایت کر کے پوری فضا کو خیر کی علامت بنا دیتا ہے۔ ایسی کتاب ایک اہل درد اور معرفت کی راہ کا مسافر ہی لکھ سکتا تھا۔ اللہ بخش طارق کیوں کہ خود بھی تصوف کے رنگ میں رنگے ہوئے ہیں اس لئے ان کے وجود کو روحانیت کی جن کرنوں نے منور کر رکھا ہے وہ ان کو رہنما کر کے وطن کی سربلندی کے امین پلیٹ فارم، معمارانِ پاکستان کے صوبائی کو آرڈینیٹر کی حیثیت سے پاکستان کی مادی و روحانی ترقی کے لئے کوشاں رہتے ہیں۔ پاکستان کی سلامتی، بقا اور ترقی ہر لمحہ ان کی توجہ میں شامل رہتی ہے۔ وہ اپنی سطح پر دعا اور دوا کا اہتمام کرتے رہتے ہیں۔ یہ تقریب کئی حوالوں سے منفرد اور یادگار تھی۔ ساہیوال آرٹس کونسل کے بڑے ہال میں اس کا اہتمام کیا گیا تھا۔ حاضرین میں مختلف شعبہ ہائے حیات کے معتبر افراد شامل تھے۔ محفل پر ایک عجیب تقدس کا رنگ غالب تھا۔ تحریر و تقریر سے پھوٹتے روحانی سحر نے دن گیارہ سے سہ پہر تین بجے تک لوگوں کی توجہ کو حاضر رہنے کا پابند کئے رکھا۔پروفیسر ڈاکٹر محمد ضیاء الحق، علامہ ضیاء اللہ شاہ بخاری، جاوید الحسن چشتی، آفتاب احمد خان، ڈاکٹر ریاض ہمدانی، ملک شوکت فیروز، پیر احمد شاہ کھگہ، منیبہ خاور شہزاد اور راقم نے کتاب کے حوالے سے گفتگو کی اور عقیدتیں نچھاور کیں۔ خوشی و اطمینان کی بات یہ تھی کہ ہر فرد نے ملک سے گہری محبت کا اظہار کرتے ہوئے مسائل پر قابو پا کر ترقی کی جانب بڑھنے کے نسخے بھی عنایت کئے۔ اللہ بخش طارق پر خدا کی کئی مہربانیاں ہیں۔ سب سے بڑا کرم صالح اور سعادت مند اولاد ہے۔ اس تقریب کے انعقاد کے لئے ان کے بیٹے احمد شہزاد خاور نے جس اخلاص اور محبت کا اظہار کیا وہ مثالی تھا۔ ساہیوال کی سنہری سرزمین پر کئی تاریخی مقامات پر حاضری کی تمنا تھی مگر وقت کی رفتار سے آگے جانا ممکن نہ تھا سو ہڑپہ، ملکہ ہانس اور نیلی بار کی دیگر تاریخی شادابیوں سے جلد ملنے کا عہد کر کے دامن میں ہزاروں خوشیوں کے جگنو لئے لاہور روانہ ہوئے۔ موقع ملے تو یہ کتاب پڑھئے۔